• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
برطانیہ میں کورونا کیسز کیا بڑھنے شروع ہوئے وزیر اعظم بورس جانسن کا تو جیسے پارہ ہی ہائی ہوگیا ۔ اپنے خطاب میں برطانوی عوام کو مخاظب کرتے ہوئے سخت الفاظ میں باور کر وادیا کہ اگر عوام نے سماجی رابطوں میں دوری نہیں برتی تو ہم سخت سے سخت پابندیاں لگانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ رات دس بجے سے پب اور ریسٹورنٹس بند کرنے کا اعلان کر کے کرفیو تو نافذ کر ہی دیا گیا ہے ۔تعلیمی ادارے کھلے ہیں کیونکہ جس آئوٹ بریک کا خطرہ تھا کہ بچے ایک دوسرے میں یہ وائرس منتقل کر سکتے ہیں اس سے تو بچ گئے لیکن یونیورسٹیوں میں آوٹ بریک کی خبریں ضرور آرہی ہیں ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم نے یہ تک کہہ دیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو پولیس اور آرمی کی بھی مدد لے سکتے ہیں ۔ اس وقت آدھے سے زیادہ برطانیہ لوکل لاک ڈاون میں ہے ۔ملک کے دارلحکومت میں بھی لاک ڈائون لگانے کا امکا ن ہے لوگوں کو کہہ دیا گیا ہے پھر سے گھروں سے کام کریں ۔ چھ سے زیادہ لوگ گھر سے باہر ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے ہیں ۔شادی بیاہ میں صرف پندرہ لوگ شریک ہو سکتے ہیں صرف جنازہ بچا ہے اس میں تیس لوگ شامل ہوسکتے ہیں ۔ عجیب صورتحال ہے خبر نہیں تھی کہ 2020ایسا ہوگا جس میں ترقی کے بجائے دنیا پیچھے کی طرف جائے گی ۔ ایک دوسرے سے فاصلہ کرنا ہوگا ۔ معیشتیں بدحال ہوگی ۔ملازمتیں ختم ہوجائے گی۔لوگ گھروں سے کام کرئے گے اور زندگی گزارنے کا طریقہ ہی تبدیل ہوجائے گا۔ لفظ لاک ڈاون سنتے سنتے ایسا لگنے لگا ہے جیسے زندگی گھروں میںبند رہ کر ہی گزرے گی ۔لوگ ایسے فرسٹریشن کا شکار ہوگئے ہیں کہ باقاعدہ احتجاج کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ آزاد برطانیہ میں بند رہ کر کسی کے تابع زندگی گزارنا کسی کو منظور نہیں ۔ جب مارچ میں لاک ڈائون لگایا گیا تھا اس وقت تو عوام نے بھرپور ساتھ دیا تھا تین چار ماہ آرام سے گھروں میں گزار دئیے تھے اور کیسز بھی کم ہوگئے تھے لیکن لاک ڈاون ختم ہونے کے بعد کیونکہ کیسز پھر بڑھنے لگے ہیں اس لئے دوسری لہر کو کمزور کرنے کے لئے حکومت ہر ممکن حد تک ایسے اقدامات کر رہی ہے جن کی مدد سے کیسز بڑھنے کے بجائے کم ہوجائے کیونکہ سائنٹیفک ایڈوائزر خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ ابھی سے سختیاں نہیں بڑھائی گئیں تو ممکن ہے اگلے ماہ اکتوبر کے وسط میں پچاس ہزار فی دن کیسز رپورٹ ہونے لگیں ۔یہ تو وہ تعداد ہے جو امریکہ میں رپورٹ ہوئی ہے پھر انڈیا میں اگر برطانیہ میں اتنی تعداد میں کیسز سامنے آنے لگے تب اموات میں بھی اضافہ ہوجائے گا اور پہلے سے دبائو کا شکار این ایچ ایس مزید مشکل میں پڑھ جائے گا۔حکومت نے اس صورتحال میں تعلیمی ادارے کھول کر بڑا خطرہ مول لیا ہے لیکن عوام کو ریلیف دینے میں کوئی کمی نہیں کی ہے بھلے ہی بعد میں جب یہ وبا ختم ہوجائے گی ، تب یہ بانٹی گئی امداد ٹیکس کی شکل میں وصول لی جائے لیکن ابھی تو ملازمتیں بھی بچائی جارہی ہیں اور لوگوں کی جانیں بھی اس وایرس سے محفوظ رکھنے کی کوشیش حکومت کا ایجنڈا ہے ۔ اب یہ عوام کا فرض ہے کہ مزید صبر کا مظاہرہ کریں ماسک بھی لگائیں اور سماجی رابطوں میں احتیاط بھی کریں کیونکہ ابھی بچ گئے تو پھر بہاریں ہی بہاریں دیکھ سکیںگے ۔
تازہ ترین