بے شک اس وقت پاکستان تبدیلی کی شاہراہ پر رواں دواں ہے۔ لوگ اہل زر اور اہل شر کو مکمل طور پر مسترد کر چکے ہیں۔گیارہ ستمبر کی طرح گیارہ مئی کا دن بھی سرمایہ دارانہ نظام کیلئے ایک یادگار دن بننے والا ہے۔الیکشن کے ایسے نتائج سامنے آنے والے ہیں کہ زر اور شر سکتے کے عالم میں آجائیں گے اور تجزیہ نگار ششدر رہ جائیں گے۔ ویسے شہباز شریف کو کچھ کچھ اندازہ ہوچکا ہے انہیں اپنی فلم فلاپ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ کیاعجیب بات ہے کہ پچھلے پانچ سال سے خود زرداری کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے والے شہبازشریف اس وقت عمران خان کو زرداری کی بی ٹیم کہہ رہے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے دماغوں پر اس وقت عمران اتنی بری طرح چھائے ہوئے ہیں کہ ان کیلئے ایک ڈرؤانا خواب بن گئے ہیں ۔
یہ صورتحال تو ایک ایسے الیکشن کی ہے جسے کسی صورت بھی فیئرالیکشن قرارنہیں دیا جا سکتا۔یہ تو وہ الیکشن ہے جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جن لوگوں کی ڈگریاں جعلی قرار دی تھیں، جنہوں نے گزشتہ الیکشن میں جھوٹے حلف اٹھائے تھے، جنہیں عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں، جو نااہل ہوگئے تھے وہ اہل ہوگئے ہیں۔ جھوٹے حلف نامے سچے بن گئے ہیں، سزائیں ختم کردی گئی ہیں ۔لوگ یقینا سوچتے ہوں گے کہ یہ کیسا انصاف تھا، عدل کی یہ کونسی قسم تھی ۔وہ کون لوگ ہیں جو پھر انہی چوروں لٹیروں کو واپس لانے کی تگ ودو میں ہیں جنہوں نے اس قوم کی رگوں سے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا ہے ۔یہ سوال بھی پیداہوچکا ہے کہ آئین کا کیا ہوا ہے،کیا اس میں سے آرٹیکل62 اور 63 کو نکال دیا گیا ہے یا آئین کی تشریح کرنے والوں کی آنکھیں کسی چمک سے چندھیا گئی ہیں۔کسی سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا کہ یہ کیا ہوا ہے،یہ کیا ہورہا ہے مگر ایک بات عوام کی سمجھ میں آچکی ہے کہ ظالموں نے اس لئے الیکشن کے نام پر جو دامِ ہمرنگِ زمیں بچھایا ہے اس میں پھنس نہیں جانا،عوام نے کیمروں کو زوم ان کرکے اس جال کا ایک ایک تار دیکھ لیا ہے اور سوچ لیا ہے کہ عدالتیں چاہے سب کو آزاد کردیں عوام ان کو معاف نہیں کریں گے جنہوں نے اس کی روشنیاں چرالی ہیں،جنہوں نے اس کے چراغ بجھا دیئے ہیں، جنہوں نے اپنے محل بچا کر سارے دیس کو غربت اور افلاس کی ماری ہوئی جیل میں بدل دیا ہے۔قربان میں اس بیٹے پر،جس نے اپنے اُس سرمایہ دار باپ سے کہا ہے جو سرمایہ داروں کی ایک پارٹی کی طرف سے ایم این اے کا امیدوار ہے کہ تمام عزتیں اور احترام آپ کیلئے ہیں مگر میں آپ کی اس سیاست کا وارث نہیں ہو سکتا۔ جس نے 26سال کے دورِ اقتدار میں اس ملک کو خاص طور پرپنجاب کو کرپشن اور دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں دیا، میں عمران خان کے ساتھ ہوں۔قربان میں اس لیڈی ڈاکٹر بیٹی پر جس نے اپنے باپ سے کہا کہ میں آپ کی اُس پارٹی کو کیسے ووٹ دے سکتی ہوں جس نے غریب مریضوں سے ادویات چھین چھین کر لاہور میں اس لئے سڑک تعمیر کی ہے کہ اہل لاہور انہیں ووٹ دیں ۔ میرے نزدیک تو ادویات کی عدم فراہمی کے سبب جتنی اموات ہوئی ہیں ان کا خون آپ کی پارٹی کی گردن پر ہے۔سو میں نے تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔قربان میں اس طالب علم پر جس نے اپنے بڑے بھائی اور سابق صوبائی وزیر سے کہا کہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتاآپ تو ان لوگوں کے ساتھی ہیں جنہوں نے پسماندہ علاقوں کے پانچ ہزار اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کے بجائے انہیں بند کردیایعنی بیس پچیس لاکھ بچوں سے تعلیم چھین کر پندرہ بیس دانش اسکول بنا دیئے ہیں، کیا وہ بیس پچیس لاکھ بچے پاکستانی نہیں ہیں۔نہیں نہیں بھائی جان، میرے ووٹ کا اگر کوئی حقدار ہے تو صرف اور صرف عمران خان۔قربان میں ان طالب علموں پر جنہوں نے کہاکہ ہمارے ہی پیسوں سے خریدے گئے لیپ ٹاپ سے ہمیں خریدنے والوں کو علم ہونا چاہئے کہ پنجاب کے نوجوان خود غرض نہیں کہ صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچیں، پنجاب کے نوجوان توپورے ملک کے متعلق سوچ رہے ہیں سو وہ ان کاروباری لوگوں کے فریب میں نہیں آسکتے، ہم سب نوجوان اپنا ووٹ تحریک انصاف کو دیں گے۔مجھے یقین ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود یہ انتخابات تاریخ ساز انتخابات ہوں گے۔ وہ لوگ جن کا پاکستان کے غیور عوام کے متعلق خیال ہے کہ وہ اپنے اچھے برے کی اہلیت سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ غلطی پر ہیں۔ عوام تبدیلی کے راستے پر پاؤں رکھ چکے ہیں۔ عوامی اقتدار کا مرکز جاتی عمرہ اور لاڑکانہ کے بجائے میانوالی بننے والا ہے۔ میں اور مظہر برلاس گزشتہ دنوں میانوالی گئے، عائلہ ملک اور امجد خان سے ملاقاتیں ہوئیں، نون لیگ کے امیدوار عبید اللہ شادی خیل سے بھی ملاقات ہوئی، لوگوں کے ساتھ بھی گفتگو ہوئی،کچھ انتخابی جلسوں میں بھی شرکت کی۔ ہر شخص سے مل کر یہی احساس ہوا کہ میانوالی عوامی اقتدار کا مرکز بننے والا ہے چاہے وہ شخص نون لیگ کا امیدوار عبیداللہ شادی خیل ہی کیوں نہیں تھا۔