• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قومی زندگی کا آغاز انتہائی سادگی سے کیا تھا۔ 1958ء تک قومی خزانے کی ایک ایک پائی کو قومی امانت سمجھ کر کنجوسی سے استعمال کیا جاتا تھا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پہلے گیارہ سال کے دوران وزیراعظم ہائوس کا سالانہ خرچ بعد کے وزیر اعظم ہائوس کے دو ہفتے کے خرچ سے بھی کم ہوتا تھا۔ یہ کارواں کب لٹا اور پاکستانی جمہوریت کب ملوکیت بنی، یہ ہمارے لئے غور و فکر کا مقام ہے۔ کچھ مزید چشم کشا حقائق ملاحظہ فرمایئے:

وزیراعظم کا کوئی علیحدہ دفتر( سیکرٹریٹ) نہیں تھا۔ البتہ کیبنٹ ڈویژن میں ایک برانچ تھی جو پرائم منسٹر برانچ کہلاتی تھی ۔جس میں لیاقت علی خان کے دور میں ایک سٹینو، چار پانچ اسسٹنٹ، تین کلرک، ایک چپڑاسی اور ایک اسسٹنٹ انچارج ہوتا تھا۔یہ عملہ دراصل وزیراعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ماتحت کام کرتا تھا۔ خواجہ ناظم الدین کے دور میں اس برانچ کے اسسٹنٹ انچارج کے عہدے کو سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ کے برابر بڑھا دیا گیا۔ لیاقت علی خان سے لے کر فیروز خان نون تک صرف ایک پرائیویٹ سیکرٹری ہوتا تھا جس کا عہدہ ڈپٹی سیکرٹری کے برابر تھا۔ اس عہدہ پر (I.C.S) آئی سی ایس آفیسرز ہی کام کرتے رہے۔

پاکستان کے ابتدائی دور میں وزیر اعظم ہائوس کے گھریلو اخراجات کیلئے کسی مد میں کوئی فنڈز نہیں رکھے جاتے تھے۔ اکثر لیاقت علی خان اپنی جیب سے خرچ کرتے رہے۔ البتہ جلد ہی غلام محمد، چودھری محمد علی اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے توسط سے پرائم منسٹر ہائوس کیلئے Sumptuary Grant کی ایک معمولی سی رقم مقرر کی گئی ۔ اس رقم کے حساب کتاب کیلئے ایک شخص کو بحیثیت اکائونٹ کلرک رکھا گیا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے ساتھ ایک جمعدار (یعنی قاصد) متعین تھا جو مہمانوں کو وزیر اعظم سے ملواتا تھا۔علاوہ ازیں اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری نے ایک فوجی جمعدار محمد حیات خان کو لیاقت علی خان کے گن مین کے طور پر بھیجا لیکن اسے بطور قاصد ہی استعمال کیا گیا۔

وزیر اعظم ہائوس دو منزلوں پر مشتمل تھا جس کی چھت کھپریل کی تھی۔ یہ چھت اکثر بارش میں ٹپکتی تھی۔ نچلی منزل میں ایک بڑا سا ڈرائنگ روم اور ایک لمبا سا برآمدہ تھا۔ یہ وہ کمرہ تھا جس میں پاکستان کا پہلا وزیراعظم گھر پر کبھی کبھی دن یا رات میں اپنا دفتر لگاتا تھا۔ یہ کمرہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔ اوپر کی منزل تین سونے کے کمروں پر مشتمل تھی جس میں سے ایک میں لیاقت علی خان اور ان کی بیگم صاحبہ سوتے تھے۔ دوسرے کمرے میں ان کے دو بیٹے اکبر اور اشرف سوتے تھے۔ سونے کے کمروں میں معمولی قسم کے قالین بچھے ہوتے تھے ۔ جہاں تک حفاظتی گارڈ کا تعلق تھا ایک پولیس انسپکٹر بطور پائلٹ نواب صاحب کی گاڑی کے آگے چلتا تھا اور نواب صاحب کی گاڑی کے پیچھے ملٹری پولیس کے چار جوان جیپ میں بیٹھے ہوئے چلتے تھے۔ نواب صاحب کی گاڑی میں اگلی سیٹ پر ان کا چپڑاسی (جمعدار) اور ایک گن مین (Gun Man) بیٹھتا تھا۔ وزیر اعظم ہائوس میں ایک گاڑی نواب صاحب کے ذاتی استعمال میں تھی۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین 17اپریل 1953ء تک وزیر اعظم رہے۔ نہایت ہی نیک، خوش اخلاق اور پابند صوم وصلوٰۃ قسم کے انسان تھے۔ آپ علی الصباح پانچ بجے نیند سے بیدار ہوتے، نماز فجر کے بعد آپ تلاوت کلام پاک باقاعدگی سے کرتے تھے۔ آپ تلاوت کلام پاک اتنی آواز سے کرتے تھے جو آسانی سے سنی جا سکتی تھی۔

آپ کے متعلق عوام میں یہ مشہور کیا گیا تھا کہ خواجہ صاحب پیٹو قسم کے انسان ہیں اور بہت کھاتے ہیں لیکن وزیر اعظم کی حیثیت میں انہیں زیادہ کھانے والا انسان نہیں پایا گیا۔ کھانے میں مچھلی، گوشت، چاول دال ضرور ہوتے تھے لیکن خواجہ صاحب کی خوراک زیادہ نہیں تھی۔ آپ جب وزیراعظم بنے تو دفتر میں دوپہر کا کھانا بھی آتا تھا۔ جو بچ جاتا وہ اپنے دفتر کے باہر بیٹھے ہوئے چپڑاسیوں کو دے دیتے۔

آپ کو غصہ کبھی کبھار ہی آتا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا، آپ نے تہبند باندھا ہوا اور بنیان پہنی ہوئی تھی کہ آپ غسل خانے سے باہر آئے، کمرے میں کچھ ڈھونڈتے پھر رہے تھے، بیگم صاحبہ نے پوچھا کہ کیا تلاش کر رہے ہیں؟ آپ خاموش رہے لیکن پھر بھی تلاش جاری رکھی۔ بیگم صاحبہ نے دوبارہ پوچھا کیا چاہئے؟ آپ نے جواب دیا ،ہماری چھڑی کہاں ہے؟ آپ وہ چھڑی لے کر اندر غسل خانے میں چلے گئے۔ بیگم صاحبہ اور برکت دونوں تعجب میں تھے، یہ دونوں خواجہ صاحب کے پیچھے پیچھے غسل خانے کے دروازے تک پہنچے، دیکھا کہ آپ چھڑی سے گیزر کا بٹن بند کر رہے ہیں، آپ نے چھڑی سے سوئچ بند کیا اور بیگم صاحبہ کی طرف نہایت فاتحانہ انداز میں دیکھا اور کہا کہ اب گرمی ہو گئی ہے ،گرم پانی کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن تم نے ابھی تک گیزر چلا رکھا ہے!

نائب قاصد ادریس نے بتایا ’’آپ کے دور میں جب ملک میں پہلی بار گندم کی قلت پیدا ہوئی اور گندم باہر سے منگوانی پڑی تو اچھا آٹا بازار میں دستیاب نہ ہونے کی شکایت عام ہو گئی۔ ایک دن جب خواجہ صاحب کا دوپہر کا کھانا دفترمیں آیا تو آپ نے اپنے جمعدار ادریس سے پوچھا کہ تمہیں آج کل کیسا آٹا مل رہا ہے، ادریس نے جواب دیا جناب آج کل بہت خراب آٹا ملتا ہے۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ہم نے تو اچھا آٹا فراہم کرنے کے لئے سخت احکامات صادر کئے ہیں۔ میں آپ کو بازار میں دستیاب آٹے کی روٹی لا کر دکھاتا ہوں۔ ادریس روٹی لے کر کمرے میں خواجہ صاحب کے پاس حاضر ہوا۔ روٹی کے ٹکڑے خواجہ صاحب کے سامنے میز پر رکھ دیئے۔ خواجہ صاحب اپنا کھانا تو کھا رہے تھے لہٰذا ادریس کی لائی ہوئی روٹی کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا توڑا تو اس روٹی کے ٹکڑے کا رنگ سیاہی مائل تھا۔ آپ نے جب نوالہ منہ میں رکھا تو اس میں کڑواہٹ محسوس ہوئی۔ آپ نے حکم دیا کہ پیرزادہ صاحب کو بلوائو۔ (عبدالستار پیرزادہ اس وقت وزیر خوراک و زراعت تھے) پیرزادہ صاحب تھوڑی دیر میں تشریف لے آئے جبکہ آپ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے۔ آپ نے پیرزادہ صاحب سے کہا کہ یہ میرے گھر کی روٹی ہے اور یہ دوسری روٹی چکھ کر دیکھیں۔ پیرزادہ صاحب نے اس روٹی کو چکھا تو اس کا ذائقہ کڑوا تھا۔ خواجہ صاحب نے کہا ،آپ تو کہتے تھے کہ اچھے آٹے کا انتظام کر دیا گیا ہے لیکن یہ کیا ہے؟ پیرزادہ صاحب نے جواب دیا کہ شاید یہ پہلا اور پرانا آٹا ہو۔ اب مارکیٹ میں اچھا آٹا آ چکا ہے البتہ پھر بھی اس بات کی تحقیقات کراتا ہوں۔

کالم کی تنگ دامنی تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لئے آپ کو مختصر سی جھلک دکھائی تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ بنانے والوں اور کھانے والوں میں کیا فرق ہے۔ (پاکستان کے پہلے سات وزیر اعظم از نعیم احمد۔ احمد پبلی کیشنز لاہور سے ماخوذ)

تازہ ترین