فرانس کے صدر میکرون نے اپنے ملک میں رہنے والے مسلمان شہریوں کی مذہبی آزادیوں پر مزید پابندیاں لگانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے،اُسے سن کر اسلامی تعلیمات فوری ذہن میں آتی ہیں، جن کے مطابق ان اسلام مخالفوں کی زبان سے جو نفرت مسلمانوں اور اسلام کے لئے نکلتی ہے، اُس سے کہیں زیادہ دشمنی اور عناد اُن کے دلوں میں چھپا ہوا ہے۔
میکرون کا کہنا ہے کہ وہ فرانس کی سیکولر ویلیوز کو اسلامی شدت پسندی سے بچانے کے لئے اقدامات اُٹھانے جا رہا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان، خصوصاً خواتین جب باہر نکلیں تو وہ اپنے لباس سے مسلمان نہ لگیں یعنی اُن پر گھر سے باہر سر ڈھانپ کر نکلنے پر پابندی ہوگی، اسکولوں میں بھی مسلمان بچیاں اسلامی لباس نہیں پہن سکیں گی۔ حجاب کی تو فرانس میں پہلے ہی پابندی ہے، اب وہاں رہنے والی مسلمان خواتین اور بچیوں کے لئے سر ڈھاپنا بھی جرم بن جائے گا اور یہ سب سیکولرازم کو بچانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ میکرون نے یہ بھی اعلان کیا کہ مسجدوں اور اُن کی فنڈنگ پر بھی کڑی نظر رکھی جائے گی۔
میکرون نے اپنی اس تکلیف کا بھی اظہار کیا کہ فرانس میں مسلمان اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارتے ہیں جس سے فرانس کے کلچر کے اندر ایک ایسا کلچر پنپ رہا ہے جو اپنے مذہبی عقائد کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ یعنی میکرون اور سیکولرازم کے لئے یہ بھی خطرہ بن چکا ہے کہ مسلمان بغیر کسی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلامی عقیدہ اور اپنی اسلامی پہچان کو کیوں ترک نہیں کرتے۔ میکرون نے یہ بھی کہا کہ اسلام کو دنیا بھر میں کرائسز کا سامنا ہے۔ اپنے دل کی بھڑاس تو میکرون نے نکال دی اور اپنی اسلام مخالف چالوں کو بھی آشکار کر دیا لیکن ہم تو جانتے ہیں کہ کتنی ہی چالیں یہ سب اسلام کے خلاف چل لیں لیکن ایک تدبیر ہمارے رب کی ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے سامنے سب چالیں ناکام ہو جاتی ہیں۔
ان شاء اللہ میکرون اور اِس جیسے جو مرضی کر لیں، اسلام پھلے پھولے گا، دنیا کے کونے کونے تک پھیلے گا۔ چاہے جتنے قانون بنا لیں، جتنی سختیاں کرنی ہیں وہ بھی کر لیں لیکن اسلام کو مسلمانوں کے دل سے نکالا نہیں جا سکتا بلکہ اِس نے مزید مضبوط ہی ہونا ہے۔ امریکی ادارے پیو (PEW)کے 2016کے ایک سروے کے مطابق اسلام یورپ میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ادارے نے فرانس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ فرانس میں تقریباً ساٹھ لاکھ مسلمان بستے ہیں جو فرانس کی کل آبادی کا آٹھ فیصد بنتے ہیں لیکن 2050تک صرف اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب آٹھ فیصد سے بڑھ کر اٹھارہ فیصد ہو جائے گا یعنی مسلمان آج کے مقابلے میں بہت بڑی قوت بن جائیں گے۔
اِس رپورٹ میں یورپ کے دوسرے ممالک اور برطانیہ کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی سامنے آیا لیکن میکرون جو کہتا ہے کہ اسلام کو کرائسز کا سامنا ہے وہ اگر اس سروے کو ہی دیکھ لے تو اُسے پتا چلے گا کہ کرائسز کا سامنا تو مغرب کو ہے جو اسلام دشمنی میں اِس حد تک آگے نکل چکا کہ مسلمانوں کی ذاتی زندگیوں کو بھی اپنی مرضی کے قوانین بنا کر اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش میں ہے۔ پیو سروے کے مطابق، مسلمانوں کی مغربی ممالک میں آبادی بڑھ رہی ہے جس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ مسلمان اُن ممالک میں بڑی تعداد میں امیگریشن کرکے آتے ہیں اور دوسری یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں بچوں کی پیدائش بھی زیادہ ہے۔
اگر مسلمانوں کی امیگریشن کو روک بھی دیا جائے تو مسلمانوں کے ہاں بچوں کی پیدائش زیادہ ہونے کی وجہ سے مغرب کی مقامی آبادیوں کو کمی کا اس لئے بھی سامنا ہے کہ گوروں کے ہاں بچے کم پیدا ہوتے ہیں جس سے اُن کی آبادی دن بدن کم ہو رہی ہے۔ یعنی مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور گوروں کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ اصل کرائسز کا سامنا تو میکرون اور اُس کے مغرب کو ہے جہاں خاندانی نظام تتر بتر ہو چکا، جہاں شادیوں کا رواج کم ہو چکا اور اگر شادیاں ہو بھی جائیں تو چلتی کم ہیں۔ میکرون اور اُس کے مغرب کو اصل چیلنج تو اُس بےحیائی اور بےغیرتی سے درپیش ہے جسے وہ آزادی کا نام دیتے ہیں اور جس کے نتیجے میں مرد، مرد سے اور عورت، عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھتے ہیں اور شادیاں بھی کرتے ہیں۔
میکرون سن لو، ہمیں تم سے کسی جنگ کی ضرورت نہیں، ہم اپنی فوجوں کے ذریعے تم پر قبضہ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ تمہاری چالیں اور تمہارے فیصلے تم پر ہی اُلٹ کر پڑ رہے ہیں۔ ہم مسلمان پُرامن رہ کر ہی تم پر بھاری ہو رہے ہیں اور تم اپنے کرتوتوں کی وجہ سے شکست خوردہ ہو رہے ہو اور اپنی فرسٹریشن میں اب مسلمانوں کو اسلام سے بھی دور کرنا چاہتے ہو۔
کرائسز کا سامنا تو میکرون اور اُس جیسے مغرب کے اُس غرور کو ہے جس نے 9/11کے واقعہ کے بعد امریکا کے ساتھ مل کر اپنی تمام تر عسکری قوت اور مالی وسائل کو استعمال کرکے طالبان اور افغانستان پر حملہ کیا اور اُنہیں نیست و نابوت کرنے کا اعلان کیا۔
انیس سال بعد جن طالبان کو دہشت گرد کہا، جن کو ملیا میٹ کرنے کے ارادے سے دنیا بھر کا جدید اسلحہ، بارود استعمال کیا، اُن کے ساتھ امریکا نے اپنی شکست کا معاہدہ ابھی حال ہی میں کیا، اور طالبان سے کئے گئے اُس معاہدے میں اِس شرط پر بھی دستخط کئے کہ اِس امن معاہدے کے نتیجہ میں افغانستان میں بننے والی ’’اسلامی حکومت‘‘ کے امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے۔
اسلام ان شاء اللہ دنیا بھر میں غالب ہو کر رہے گا، میکرون اور اُس جیسوں کا غرور اور سیکولرازم خاک میں مل جائے گا۔ ویسے اپنے دیسی لبرلز سے ایک بات پوچھنا تھی کہ ایک تو اُن کی طرف سے فرانسیسی صدر کے بیان پر کوئی ٹویٹس، کوئی مظاہرہ، کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا اور دوسرا کیا وہ اُسی سیکولرازم کے لئے اسلامی اقدار اور اسلامی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں جس کا اظہار ہم فرانس اور بھارت میں دیکھ رہے ہیں، جس کا اظہار ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف بار بار بات کرکے کیا۔ دیسی لبرلز کی زبانیں تو جیسے گنگ ہو گئی ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)