• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب سے پہلے شیخ سعدی کا ایک شعر بغیرکسی تبصرے کے سنئے۔
گرگ میرو، سگ وزیرو
زاغ زاہد، موش دیوان
ملک ویران می شود
گرگ کامطلب ہے بھیڑیا۔ میرو کا مطلب ہے حاکم۔ سگ کامطلب ہے کتا۔ زاغ کامطلب ہے کوّا۔ موش کا مطلب ہے چوہا۔دیوان کامطلب ہے وزیر خزانہ۔
الفاظ کی معنیٰ سمجھنے کے بعد آپ شیخ سعدی کا شعر پھر سے پڑھیں۔
گرگ میرو، سگ وزیرو
زاغ زاہد، موش دیوان
ملک ویران می شود
شیخ سعدی کے شعر پر کسی قسم کے تبصرے کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک ہفتہ کے چھوٹے سے وقفہ کے دوران میں سوچتا رہا اور اب بھی سوچ رہا ہوں کہ سردار دم ساز گشتی کا قصہ آپ کو سناؤں یا موجودہ صورتحال کے پیش نظر بے معنیٰ اور بے مقصد سمجھ کر ترک کردوں! اب تو آپ کو ایم این اے یا ایم پی اے بن کر قانون سازی کرنے کے لئے کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ قانون سازی بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کوئی بھی ایرا غیرا نتھو خیرا قانون سازی کر سکتا ہے۔ قانون سازی کرنے کے بعد ان قوانین پرعملدرآمد کروا سکتا ہے مگر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اسکول ٹیچر لگنے کے لئے بی اے، بی ایڈ، ایم ایڈ کرنا پڑتا ہے۔ اسے اسمبلی ممبر بننے کے لئے کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے تمام اقدامات برے نہیں تھے، اس کے تمام اقدامات اچھے نہیں تھے۔ پرویز مشرف نے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے ڈگری یافتہ ہونے کی آئینی شق لگا دی تھی۔ کسی بھی ایم این اے یا ایم پی اے کے لئے گریجویٹ ہونا لازمی تھا۔ اس آئینی پابندی نے ملک میں گنتی کے ڈگری ہولڈرز کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ انہیں یقین ہو چلا تھاکہ اس ملک میں تعلیم کی کوئی نہ کوئی افادیت اور اہمیت ہے۔
جعلسازی سے نقلی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اسمبلی میں اپنی موروثی سیٹوں یعنی خاندانی نشستوں پر بیٹھنے کے بعد ملک کے چوہدریوں، وڈیروں، سرداروں، خانوں، ملکوں اور پیر سائیوں نے گٹھ جوڑ کرنے کے بعد آئین سے اسمبلی ممبر بننے کے لئے گریجویٹ ہونے کی لازمی شرط ساقط کردی یعنی نکال دی۔ اب جو گیارہ مئی کو آزادانہ، منصفانہ، شفاف سے شفافانہ، جانب سے غیر جانبدارانہ انتخابات ہونے والے ہیں ان میں آپ کا ایم این اے یا ایم پی اے بننے کے لئے گریجویٹ ہونا یا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ آج کل موبائل فون پر طرح طرح کے لطیفے گشت کر رہے ہیں ایک لطیفہ آپ بھی سن لیجئے۔
”گیارہ مئی کو پاکستان میں ہونے والے میگا شو، کون بنے گا کروڑ پتی ملک کے پچاس ٹیلیویژن سینٹروں سے ایک ساتھ ایک ہی وقت دکھایا جائے گا۔ دیکھنا مت بھولئے گا میگا شو، کون بنے گا کروڑ پتی“۔
اب جبکہ ہونے والے انتخابات میں تعلیم کی اہمیت گھٹ کر صفر رہ گئی ہے، ایسے میں سردار دم ساز گشتی کا قصہ مجھے بے سود لگتا ہے۔ بہرحال اس قصے کا ایک دلچسپ پہلو ہے جو کہ میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں یعنی آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔
پچھلے انتخابات میں ڈگری کی شرط نے کئی لوگوں کے وارے نیارے کردیئے تھے۔ ڈگریاں بیچنے اور ڈگریاں خریدنے کا کاروبار چل پڑا تھا۔ سرداروں، خانوں، پیروں اور وڈیروں نے تجوریوں کے منہ کھول دیئے تھے۔ ایک سردار اور اس کے ولی عہد نے دو الگ الگ اداروں سے ڈگریاں ہتھیائیں۔ الیکشن کمیشن میں جانچ پڑتال کے دوران پتہ چلا کہ سردار سائیں عمر میں اپنے ولی عہد سے دس برس چھوٹا تھا۔ اسی طرح اللہ کی تلوار نامی ایک دبنگ زمیندار اور اس کی والدہ کی عمر میں پانچ سال کا فرق تھا۔ ایک جاگیردار نے دس لاکھ روپے میں ایم اے کی ڈگری خریدی مگر وہ ڈگری جاگیردار کے گلے پڑ گئی تھی۔ جانچ پڑتال کے دوران پتہ چلا کہ جاگیردار کی جو تاریخ داخلہ تھی وہی ایم اے کی سند کے اجرا کی تاریخ تھی یعنی جس روز جاگیردار نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، اسی روز اسے ایم اے کی ڈگری عنایت کی گئی تھی۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو اندازہ نہیں تھا کہ ملک کے جاگیردار، سردار، وڈیرے، چوہدری اور پیر سائیں اسمبلی میں اپنی موروثی اور آبائی سیٹ پر براجمان ہونے کے لئے کیا کچھ کر سکتے ہیں،کس حد تک جا سکتے ہیں۔ ایک بھاری بھر کم زمیندار نے اپنے گاؤں کے بند پڑے ہوئے اسکول سے مال مویشی نکالے اور اسکول میں یونیورسٹی کھولنے کا اعلان کردیا۔ یونیورسٹی کا نام رکھا، سائیں بابا انٹرنیشنل یونیورسٹی آف چاچڑ شاہ ولیج۔
اسی یونیورسٹی سے بھاری بھرکم زمیندارنے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی ہمارا کمانڈو ڈکٹیٹر جو کاکروچ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا اورصوفی کاؤنسل آف پاکستان کا پیٹرن ان چیف تھا، تکتا رہ گیا۔ وڈیرے، چوہدری، خان، سردار اور پیر سائیں فراڈی ڈگریاں لیکر اسمبلیوں میں جا کر بیٹھے ۔ انہوں نے پہلی فرصت میں آئین میں ترمیم کی اور اسمبلی ممبر بننے کے لئے گریجویٹ ہونے کی شرط نکال کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی۔ اب جو حیرت سے حیرتانہ، شفاف سے شفافانہ، جاگیر سے جاگیردارانہ، صنعت سے صنعت کارانہ اور منصف سے منصفانہ انتخابات ہونے والے ہیں ان میں اسمبلی ممبر بننے کے لئے تعلیم یافتہ ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے میں آپ کے دم ساز گشتی کا قصہ سنانا میں بے مقصد سمجھتا ہوں۔
آخر میں آپ بچو بھائی کے دو قول سن لیجئے۔ ایک یہ کہ جو شخص اس ملک میں سفید اور سیاہ کا مالک ہے اس کے ہوتے ہوئے غیر جانبدارانہ انتخابات کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے اور دوسرا یہ کہ کردار کشی اس شخص کی ہوتی ہے جس کا کوئی کردار ہو۔
تازہ ترین