اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں نے اے پی سی منعقد کی اور حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے نیا اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا ، اپوزیشن کی اس بیٹھک اور اس کے بعد نواز شریف کے پارٹی کی سی ای سی اور سی ڈبلیو سی سے متواتر خطابات کے فوری بعد جیسے حکومتی صفوں میں بھونچال آ گیا۔
وفاقی وزراء اورحکومتی ترجمان اپوزیشن بالخصوص نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بیانات کے ذریعے تابڑ توڑحملے کرنے لگے، پیمرا کے ذریعے نواز شریف کی تقاریر کے لائیو ٹیلی کاسٹ پہ پابندی عائد کر دی گئی ، غداری کے مقدمات درج کرا دیے گئے۔ مخالفین کو دبانے کا یہ وہی حربہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے آزمایا جا رہا ہے۔
اس گھسے پٹے حربے کا انجام بھی وہی ہوگا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ جب ملک میں پارلیمان، عدالتیں اور تمام ریاستی ادارے کام کر رہے ہیں تو اپوزیشن کے احتجاج کے جمہوری حق کو دبانے کیلئے اس راستے کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف تو خود 126 دن کا طویل ترین دھرنا دے کر احتجاج کے حق کو انتہائی موثر طریقے سے استعمال کر چکی ہے اس لیے اسے اپوزیشن کے اس جمہوری حق پہ پابندیاں عائد کرنے کی بجائے ان عوامل پہ غور کرنا چاہئے جس کے باعث صرف پچیس ماہ بعد ہی اپوزیشن کو یہ راستہ اختیار کرنا پڑا ۔
اس وقت ملکی صورتحال پہ نظر ڈالی جائے تو تمام اعدادوشمار 2018کے مقابلے میں بد تر ہوتے نظر آتے ہیں،مہنگائی نے غریب تو کیا متوسط طبقے کی بھی عملی طور پہ چیخیں نکلوا دی ہیں ۔ادویات کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے سے غریب اور متوسط افراد کی شرح اموات کو تیز تر کرنے کا پورا بندوبست کر دیا گیا ہے، تا دم تحریر کابینہ اجلاس میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ایجنڈے میں شامل ہے۔
بیروزگاری کی شرح میں کورونا سے قبل ہی پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا تھا جبکہ آخری اکنامک سروے کے مطابق، زراعت سے صنعت تک ہر شعبے میں ترقی کی شرح بدترین گراوٹ کا شکار ہوئی ہے۔ حکومتی اکابرین جس وقت معیشت کی بتدریج بحالی کی نوید سنا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف چینلز پہ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مزید گرنے کی خبریں چل رہی ہوتی ہیں، امن و امان کی صورتحال کا یہ عالم ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں دن دہاڑے ڈکیتیاں اور چوریاں ہو رہی ہیں، ملک بھر میں خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ، مختلف علاقوں میں دہشت گردی کا عفریت دوبارہ سر اٹھانے لگا ہے جبکہ لسانی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا لاوا پھر سے دہکنے لگا ہے۔اس ساری صورتحال میں وزراء اور ترجمانوں کے بیانات جس لا پروائی اور بے حسی کی عکاسی کر رہے ہیں، وہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کو بھڑکانے کے مترادف ہے ۔
جہاں تک اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا تعلق ہے تو اس کے پاس اب اس کے سوا کوئی آپشن بچا بھی نہیں ہے کیونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو سیاست سے ہمیشہ کیلئے نکال باہرکرنے کے جس فارمولے پہ عمل درآمد جاری ہے وہ اسے قطعی قبول نہیں کر سکتے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے باقی افراد کے خلاف مقدمات اور عدالتوں سے سزائوں کے حکومتی بیانیے کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی برطرفی سے بری طرح زک پہنچ چکی ہے جس سے احتساب اور انصاف کا پورا نظام مشکوک ہو چکا ہے، اس صورتحال میں نواز شریف کی نااہلی، سزا، مفروراور اشتہاری قراردینے کی کارروائی نے سابق وزیر اعظم کو اپنا لہجہ اس قدر تلخ کرنے پہ مجبور کر دیا ہے کہ وہ ساری کشتیاں جلا کرانہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے پہ اتر آئے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک بیک ڈور رابطوں کے ذریعے انہیں انگیج رکھا گیا وہ بھی لچک کا مظاہرہ کرتے رہے اور نہ صرف شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کو آزمانے کیلئے خود طویل عرصہ خاموش رہے بلکہ انہوں نے جارحانہ سیاست شروع کرنے والی اپنی صاحبزادی مریم نواز کو بھی مصلحت سے کام لینے پہ قائل کیے رکھا لیکن جب دوسری طرف سے انہیں موجودہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی مشکل پیدا نہ کرنے اور 2023 تک خاموش رہنے کا واضح پیغام دے دیا گیا تو انہوں نے دوبارہ مزاحمت کا علم بلند کر دیا۔
ان کے عزائم کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں ایک طرف انہوں نے اپنے بیانیے سے اختلاف کرنے والے پانچ ایم پی ایز کو فوری پارٹی سے نکالنے کا حکم دیا وہیںخواجہ آصف کے سابق صدر آصف زرداری سے متعلق بیان سے بھی لاتعلقی اور برہمی کا اظہار کیا جس کے باعث خواجہ آصف کو معذرت کرنا پڑی تو دوسری طرف پہلے دن سے حکومت کو تسلیم نہ کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن کو پی ڈی ایم کا سربراہ بنوایا۔
اب پیپلز پارٹی کی قیادت بھی پس پردہ رابطوں کے نتیجے میں مطلوبہ ریلیف نہ ملنے کے باعث مولانا کی امامت میں چلنے پہ تیار ہو چکی ہے جبکہ اپوزیشن میں شامل دیگر جماعتوں کا مفاد بھی موجودہ حکومت کے خاتمے سے وابستہ ہے، اپوزیشن کے احتجاج کی ٹائمنگ میں سب سے اہم پہلو مارچ میں ہونے والا سینیٹ الیکشن ہے کیونکہ اسے بخوبی ادراک ہے کہ اگر موجودہ سیٹ اپ میں یہ الیکشن ہو گئے تو پھران پہ سیاست کی زمین تنگ کر دی جائیگی۔
اس سارے سیاسی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر وزراء اور حکومتی ترجمان بالغ نظری اور مصلحت پسندی سے کام لینے کی بجائے اپوزیشن کو ایسے ہی اشتعال دلاتے رہے تو آنے والا ہر دن سیاسی کشیدگی میں اضافہ کرے گا ۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے مزید اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاریوں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈائون کرنے کا بھی منصوبہ بنا لیا ہے ۔
اب بھی وقت ہے کہ اسے تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اپوزیشن کے احتجاج کو طاقت سے دبانے کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگر اپوزیشن اپنے کارکنوں کے ساتھ عوام کو بھی سڑکوں پہ لانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر ثالثی کرنے والوں کو درمیان میں آنا پڑے گا اوراس احتجاجی تحریک کے خاتمے کے لیے کچھ لو کچھ دو کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔