ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار پاکستان میں غداری اور بغاوت کے سرٹیفکیٹس کی بھرمار ہے، یہ ایسے سرٹیفیکٹس ہیں جو ہر حکمران نے اپنے مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے اور چپ کرانے کے لئے بنا رکھے ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ خود میاں نواز شریف کی پارٹی اس طرح کے سرٹیفکیٹس پیپلزپارٹی اور بعض دوسری پارٹیوں کے لئے جاری کرتی رہی ہے۔ ایسا ہی دوسری پارٹیوں نے بھی ن لیگ کے لئے کیا۔ مگر نوبت یہاں تک نہیں پہنچی تھی کہ غداری اور بغاوت کے مقدمات ہی درج کرادیئے جائیں۔ زبانی جمع خرچ بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سابق حکمرانوں و فوجیوں کے خلاف اس طرح کے مقدمات درج کرانے سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ یہاں تو رہنمائوں کے خلاف مقدمات درج ہوتے ہیں اور حکومت وقت مانتی ہی نہیں کہ اس نے کرائے ہیں۔ تو پھر لاہور کی پولیس اور اس کے سربراہ کون ہیں، کیا یہ حکومتی مشینری کا حصہ نہیں، کیا کوئی پولیس عہدیدار اتنی اہم شخصیات کے خلاف اس طرح کے مقدمات درج کرسکتا ہے، یہ کیا کہ کوئی آئے، درخواست دے اور مقدمہ درج کرلیا جائے، پولیس والے کو ئی جائز مقدمہ درج کرنے میں بھی سو حیلے بہانے کرتے ہیں اور جب تک سائل اپنی جیب ڈھیلی نہ کرے، اس کی FIR تک درج نہیں کی جاتی۔ یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔ چلو ریاستی مشینری نے اپنے مخالفین کے خلاف یہ قدم اٹھا دیا سو اٹھایا۔ مگر یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم کے خلاف بغاوت کا مقدمہ کیوں درج کیا گیا، بغاوت اور غداری کے مقدمے کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ شخص یا افراد ریاست کے خلاف کام کررہے ہیں اور یہ کہ ان سے ریاست کو سنگین خطرہ ہے۔ راجہ فاروق حیدر سے کون سی ریاست کو خطرہ ہے، ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان یا ریاست آزاد جموں و کشمیر کو، اگر ایسا ہی ہے اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوگیا ہے تو پھر اب تک ان کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کیوں نہیں کیا گیا، سوال یہ بھی ہے کہ ان کو گرفتار کون کرے گا، حکومت آزاد کشمیر کی پولیس یا پھر پنجاب پولیس اور پھر حکومت پاکستان اور اگر مقتدر اداروں کو اس بات کا یقین ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر باغی یا غدار ہیں تو پھر اب تک ان کے خلاف آئین کی دفعہ 56A اطلاق کیوں نہیں کیا گیا، یہ وہی دفعہ ہے جس کے تحت اس وقت کی ن لیگی حکومت نے آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم راجہ ممتاز حسین راٹھور کو نکال باہر کیا تھا۔ اس دفعہ کا شاید مطلب یہ ہے کہ جس کے خلاف اسے استعمال کیا جارہا ہے وہ نامناسب سرگرمیوں میں ملوث ہے یا رہا ہے۔ تاہم اس دفعہ میں غداروں یا بغاوت والی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے آزاد کشمیر میں تو ’’بڑوں‘‘ کی کلیئرنس کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تو پھر راجہ فاروق حیدر کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہاں البتہ ایوبی دور میں آزاد کشمیر کے اس دور کے صدر کے ایچ خورشید کو نامناسب سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں برطرف کردیا گیا تھا اور انہیں زیرحراست بھی رکھا گیا تھا۔ کے ایچ خورشید کے نظریات یہ تھے کہ وہ کہتے تھےکہ گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر میں نمائندگی ملنی چاہئے۔ اس دور میں ان پر غداری اور بغاوت کے الزامات بھی لگے۔ بالکل اسی طرح جس طرح محترمہ فاطمہ جناح پر لگے تھے اور اگر میں آپ کو یہ بھی یاد کراتا چلوں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان کو بنانے میں میرے سیکرٹری اور سٹینو کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے اور قائداعظم کے سیکرٹری کوئی اور نہیں بلکہ کے ایچ خورشید ہی تھے۔