• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیال آیا کہ حالات اور سیاست کے ماتمی جلوس میں شامل ہونے کے بجائے حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف حضور داتا گنج بخش پر لکھا جائے کیونکہ آج کل اُن کا سالانہ عرس جاری ہے اور نور کا سمندر بہہ رہا ہے۔ نور کا سمندر اُن نگاہوں کے لئے جو ’’بینا‘‘ ہیں، جو دیکھتی اور جاگتی ہیں، آنکھیں جاگتی اور بینا ہوں تو مادیت کے دنیاوی پردے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ اِس خیال کے آتے ہی ایک انگریزی کتاب یاد آئی جو کچھ عرصہ قبل پڑھی تھی۔ میرے لئے یہ کتاب نہ صرف معلومات افروز بلکہ روح افروز بھی تھی۔ معلومات افروز اِن معنوں میں کہ کتاب کے مصنف نے ایک منفرد اور فکر انگیز انکشاف کیا تھا۔ اُس نے لکھا تھا کہ میں 1930میں لاہور آیا اور داتا دربار کے قریب ایک فلیٹ کرائے پر لیکر رہائش اختیار کی۔ میں دن میں کئی بار داتا دربار کا چکر لگایا کرتا تھا۔ وہیں میری ملاقاتیں علامہ اقبالؒ سے ہوئیں جو نمازِ فجر سے بہت پہلے (تہجد کے وقت) تشریف لاتے تھے اور پھر نماز فجر ادا کرکے واپس لوٹتے تھے۔ اُنہوں نے مجھے خطبہ الہ آباد مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کرنے سے قبل دکھایا اور بتایا کہ مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا خیال اُنہیں داتا دربار میں عبادت کے دوران آیا(ص3)، کتاب کا نام ہے ’’حضرت داتا گنج بخشؒ، روحانی سوانح عمری‘‘ اور مصنف کا نام ہے مسعود الحسن، یہ کتاب کئی دہائیاں قبل چھپی تھی اور شاید اب مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔

مصنف کا بیان ہے کہ ایک بار وہ داتا دربار میں مراقبہ کے لئے رہنمائی طلب کر رہا تھا تو اسے احساس ہوا جیسے داتا صاحب اسے کہہ رہے ہیں کہ روزے رکھو۔ میں روحانی رہنمائی کے لئے داتا دربار حاضری دیتا رہتا تھا۔ ایک رات حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ میرے خواب میں آئے اور فرمایا کہ (Imprison your senses)یعنی اپنے حواس کو قابو میں رکھو۔ میں اس کا مطلب نہ سمجھ سکا لیکن ایک روز کشف المعجوب پڑھتے ہوئے اچانک اس فرمان کا مفہوم ذہن پہ چھا گیا۔ کشف المحجوب میں حضرت داتا صاحب نے لکھا تھا کہ ایک بار انہیں خواب میں حضور نبی کریمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ میں نے رہنمائی چاہی، آپ ؐ نے فرمایا ’’اپنی زبان اور حواس کو قید میں رکھو‘‘ (Imprison thy tongue and thy senses)۔ داتا صاحب نے وضاحت فرمائی تھی کہ کھانے پینے سے پرہیز تو بہت آسان کام ہے۔ بےہودہ خواہشات اور غیراخلاقی حرکات سے اجتناب لازم ہے۔ یہ پڑھ کر مجھے داتا صاحبؒ کا فرمان سمجھ میں آیا۔

مسعودالحسن صاحب اس دور کے ایم اے تھے جب سولہ جماعت پاس حضرات کی تعداد کم تھی۔ انہوں نے بعدازاں سرکاری ملازمت اختیار کی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ہر اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کی مانند روحانی وارداتوں، روحانی تجربات اور معجزات پر پوری طرح یقین نہیں رکھتے تھے لیکن یہ خواب دیکھنے اور کشف المحجوب کے گہرے مطالعے کے بعد مجھ میں انقلاب آ گیا اور مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ہماری سوچ، ہمارا ذہن گفتگو اور معاملات کو سمجھنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ اس سے بالاتر سپرنیچرل میڈیم (ذریعہ) بھی ہے جو ہمارے ادراک سے ماورا ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ جب علامہ اقبال نے یہ نظم لکھی ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ تو یقیناً انہیں اسی طرح کا روحانی تجربہ ہوا ہوگا۔

مسعود الحسن صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو پانے کا راستہ ریڈی میڈ نہیں ہے جس پر انسان سفر کرکے رب کو پالے۔ اس راہ میں انسان ٹھوکریں بھی کھاتا ہے اور لڑکھڑاتا بھی ہے۔ مستقل مزاجی، استقامت اور خالق حقیقی کو پانے کی بہرحال خواہش ضروری ہے۔ ذہن اور قلب کو تمام سفلی خواہشات سے پاک کرنا لازم ہے۔ سوچ اور حواس کو قید کرنا اسی عمل کا نام ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر ضمیر روشن ہو جاتا ہے اور ہر قدم پہ روکتا اور خبردار(WARN)کرتا ہے۔ اگر انسان ضمیر کی آواز سننا اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو مادی حواس و خواہشات دب جاتی ہیں اور انسان روحانی راہ پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ روحانی راستہ ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے اور آپ ان بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

ایک روز میں نے مراقبے کے دوران محسوس کیا جیسے میں بلندیوں کی منزلیں طے کر رہا ہوں۔ اس سفر کے دوران وہ مقام آ گیا جہاں وقت اور خلا یا مقام کا تصور (Time and Space) موجود نہیں ہوتا۔ مجھے بتایا گیا کہ اب تم اپنے رب تعالیٰ سے رہنمائی لے سکتے ہو۔ میرے ذہن میں یہ سوال آیا،’’ زندگی کیا ہے؟‘‘ جواب ملا، زندگی کے دو پہلو ہیں: اول مادی (Physical)، دوم روحانی۔ یوں سمجھ لیں جیسے انسان ڈائنموDynamoکی مانند ہے جس سے زندگی پیدا ہوتی ہے۔ جب اللہ پاک کے حکم سے ڈائنمو چلنا بند ہو جاتا ہے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ روحانی زندگی مادی زندگی سے ماورا اور بہت بلند ہے۔ انسان جانتا ہے لیکن اسے سمجھنے سے قاصر ہے وہ حیات و موت کا صحیح ادراک نہیں رکھتا۔ پھر میرے ذہن میں سوال ابھرا جزا اور سزا کا اصول کیا ہے؟ میرے ذہن پر یہ جواب منکشف ہوا۔ سزا و جزا اس دنیا میں بھی ہے اور اگلے جہان میں بھی، اللہ پاک کی غیر مرئی (نظرنہ آنے والی) عدالتیں ہر وقت کام میں مصروف رہتی ہیں۔ انسان ہمہ وقت TRAILاور آزمائش کے سفر میں ہے۔ کچھ انعامات (جزا) اور کچھ سزائیں اسی دنیا میں دی جا رہی ہیں۔ انسان اس عمل سے بےخبر ہوتا ہے۔ اگلے جہان کے جزا و سزا کے نظام کو انسانی ذہن نہیں سمجھ سکتا۔

پھر میرے ذہن میں سوال ابھرا، زندگی کا مقصد کیا ہے؟ جواب وارد ہوا یہ جاننا کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا واحد حاکمِ اعلیٰ اور مالک و خالق ہے۔ جب آپ زندہ ہیں تو آپ اللہ تعالیٰ کے ایجنٹ ہیں چنانچہ آپ پر لازم ہے کہ آپ اسی طرح زندگی گزاریں جس طرح آپ کا خالق حقیقی اور رب چاہتا ہے۔ آپ کا ہر خیال درست، ہر عمل درست، اور ہر قدم صحیح راہ پر اٹھنا چاہئے۔ اللہ پاک کا ایجنٹ یا نائب ہونے کی حیثیت سے ہر انسان اپنے رب سے تعلق (Equation)قائم کر سکتا ہے۔ یہی تعلق Equationایمان کہلاتا ہے۔ اگر انسان ہر کام اللہ تعالیٰ کی جانب سے کرے تو اس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ اس کی جزا اور انعام کی توقع صرف اپنے رب سے رکھو۔ آخر میں یہ الفاظ میرے ذہن میں ڈالے گئے کہ جو شخص اپنے رب سے محبت کرے گا اسے اسی طرح جواب میں محبت ملے گی۔ جو اللہ سبحانہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے گا، اسے اسی طرح انعام سے نوازا جائے گا اور جو اپنے رب کو پانا چاہے گا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا اور رب تعالیٰ کو پالے گا۔

تازہ ترین