محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
آرٹیکل 158 کے تحت سندھ کو قدرتی گیس استعمال کرنے کا آئینی حق ہے، سندھ کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ گیس بھی موجود ہے سندھ سے روزانہ 2300 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہورہی ہے سندھ کو روزانہ 900 سے 1000 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے جبکہ صوبے کی ضرورت 1700 ایم ایم سی ایف ڈی ہے،موسم سرما میں سندھ کو اس کے حصے کی گیس نہ ملی تو سندھ کا معاشی قتل تصور کیا جائے گا، سندھ میں گیس فیلڈز کو بند کر کے گیس کا مصنوعی بحران پیدا کیا جارہا ہے جس کی وجہ ایل این جی کی امپورٹ کا جواز پیدا کرنا ہے۔
امتیاز شیخ
کراچی کی ایکسپورٹس اور جنرل انڈسٹری کو گزشتہ کئی برسوں سے گیس کے مسائل کا سامنا ہے جس میں گیس کی بندش ،پریشر میں کمی اور فراہمی کا نہ ہو نا شامل ہیں ،
قدرتی گیس کا بحران آئندہ چند ماہ میں مزید سنگین ہوتا دکھائی دیتا ہے، حکومت کو دیہی علاقوں میں بائیو گیس متعارف کرانی چاہیئے اور کمرشل اور ڈومیسٹک سیکٹر کو ایل پی جی گیس دینی چاہئے، قدرتی گیس اور وسائل کو تعمیری سرگرمیوں میں استعمال کرنا چاہئے۔ گیس پر چلنے والے گیزرز کا استعمال ممنوع قرار دے کر متبادل کے طور پر سولر گیزر متعارف کرائے جائیں، کراچی کی انڈسٹریز کو گیس فراہم نہ کرنے کا مطلب ملک کی مجموعی57فیصد ایکسپورٹ کو متاثر کرنا اور اس سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ اور ریوینیو کا نقصان کرنا ہے
جاوید بلوانی
کراچی کی انڈسٹری کو بے تحاشا نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، جس کے نقصانات کی شدت کو اس طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ صنعت کی ایک چوتھائی گیس سوئی سادرن گیس کے تقسیم کے نظام میں حصہ دار ہے ۔
گیس کی قیمتوں کا بڑھنا بھی مسابقانہ طور پر منفی عنصر ہے جو پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بن رہا ہےجس کی وجہ سے مقامی پیداوار درآمدی اشیاء کے مقابلے میں مہنگی ہونے کی وجہ سے اپنی مسابقت کھو بیٹھتی ہے۔ اس وقت صورت حال کچھ ایسی ہے کہ حکومت کو فوری طور پر اس گیس کی کمی کو ایل این جی کے ذریعے پورا کرنا چاہئے اور مقامی گیس کی پیداور کی سطح کو واپس اپنی جگہ پر لانا چاہئے ورنہ Covid-19کے ساتھ ساتھ گیس کی کمی بھی معیشت اور بالخصوص صنعتی پیداوا ر پر مزید منفی اثرات مرتب کرے گی
انجینئر ایم اے جبار
پاکستان بالخصوص سندھ میں گیس بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، وزیراعظم کا خود کہنا ہے کہ آنے والی سردیوں میں گیس بحران سنگین صورت حال کو جنم دے گا۔ سندھ میں موسما سرما میں تین ماہ کے لیے سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی بند کردی جائے گی۔ جس کی ابتدا رواں ماہ اکتوبر سے ہوگی۔ شہروں میں عام صارفین کو گیس کی عدم دستیابی کی شکایات عام ہیں اور کہا جارہا ہے کہ موسم سرما میں صرف کھانا پکانے کے اوقات میں گیس دستیاب ہوگی۔
پاکستان میں گیس کا بحران کیوں ہے؟ صوبوں میں گیس کی پیداوار اور تقسیم کی پالیسی کیا ہے، اسے کیسے منصفانہ بنایا جاسکتا ہے؟ گیس کے بحران پر کیسے قابو پایا جائے، یہ جاننے کے لئے ’گیس کی قلت اور اثرات‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں امتیاز شیخ(وزیر توانائی برائے سندھ حکومت )، جاوید بلوانی (سابق چیئرمین، سائٹ ایسوی ایشن) اور انجینئر ایم اے جبار(سابق ڈائریکٹر، سوئی سدرن گیس کمپنی) نے شرکت کی۔فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
انجینئر ایم اے جبار
سابق ڈائریکٹر، سوئی سدرن گیس کمپنی
ْْپیٹرولیم انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق درآمد شدہ گیس اور مقامی گیس کل مجموعی انرجی کے مصرف میں 3 فیصد اور 42 فیصد کا حصہ رکھتی ہیں ۔ یہی صورت حال 2020 ء میں درآمد شدہ گیس کی 13 فیصد اور مقامی گیس کی 26 فیصد کے رہنے کے اعداد بتائے جاتے ہیں۔ مزید 2025ء اور 2030ء کے اعداد کے مطابق درآمد گیس 19 فیصد اور مقامی گیس 15 فیصد اور درآمد گیس 20 فیصد ، مقامی گیس 10 فیصد رہنے کے اعدادی امکانات بتائے جاتے ہیں۔
نیز درآمد گیس کی تخمینی قیمت سال 2020, 2025, اور 2030 ء میں 18 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ مزید انرجی مصرف کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ درآمد ی LNG 3 فیصد اور مقامی گیس 42 فیصد رہنے کے امکانات بتائے جاتے ہیں۔ مزید مختلف سیکٹر کے مصرف کے حوالے سے صنعت کے لئے سب سے زیادہ یعنی 36 فیصد کل گیس کا مصرف بتایا گیا ہے۔ اسی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ SNGPL کے پاس 25 فیصد مارکیٹ کا حصہ ہے ، SSGCکے پاس 34 فیصد مارکیٹ کا حصہ ہے اور آزاد سسٹم میں 11 فیصد مارکیٹ کا حصہ ہے ۔ صنعتی مصرف کو مزید حصوں میں بانٹا گیا ہے اور اسی رپورٹ میں دیئے گئے اعداد کے مطابق جنرل انڈسٹری کا حصہ 19 فیصد ہے ۔
جبکہ پاور سیکٹر کا حصہ 30 فیصد بتایا گیا ہے اور کیپٹو پاور کا حصہ 11 فیصد بتایا گیا ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ گیس کے ترسیلی نظام میں گیس کے زیاں کو 11 فیصد بتایا گیا ہے جو کہ تقریبا450 MMCFD بنتا ہے ۔ گیس کی کل پیداوار کو 4000 MMCFD بتایا گیا ہے ۔نیز اسی رپورٹ کے مطابق موجودہ گیس کا ذخیرہ تقریبا 19000BCF بتایا گیا ہے ۔ یومیہ مصرف تقریبا 4000 MMCFD بتائی گئی ہے۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مقامی گیس بہت جلد ہی اختتام پر پہنچے گی اگر مزید گیس کی تلاش میں زیادہ کامیابی نہ ہوگی اور اس ناکامی کی صورت میں مقامی گیس کے متبادل LNG کو درآمد کیا جائے گا ۔
تقریبا 10 ملین گیس مصرف کنندگان میں رہائشی ، کمرشل اور صنعتی سیکٹرز کے شامل ہیں جو مزید اس طریقے سے تقسیم کئے گئے ہیں : پاور ، سیمنٹ ، جنرل انڈسٹری ، فرٹیلائزر اور ٹرانسپورٹ سیکٹر ۔ گیس کی ترسیل اور تقسیم سوئی سادرن گیس اور سوئی نادرن گیس کی کمپنیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ مری پیٹرولیم ، پی پی ایل بھی گیس سپلائی کرتی ہیں جو پاور اور فرٹیلائزر پلانٹس کو ان کے اپنے ترسیلی نظام کے تحت مہیا کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی گیس مارکیٹ میں گیس کی طلب بتدریج بڑھ رہی ہے اور دونوں کمپنیا ں 1.3BCFD سال 2001 ء میں فروخت کرتی تھیں جو کہ اب 4 BCFD کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔
یہ بڑھتا ہوا گیس مصرف کرنا سندھ میں پیداوار کی اضافے کے تحت ضرورت بنا۔ اس وقت گیس کی طلب تقریبا 6000 MMCFD کے تحت پہنچ چکا ہے جبکہ 4200MMCFD سے زیادہ مقامی گیس کی پیداوار نہیں ہے۔ اس فرق کو بھی ہم گیس بحران کے طور پر شناخت کر سکتے ہیں اور موسم سرما میں بڑھتے ہوئے گیس کی طلب کو پورا کرنے کے لئے مزید 2000 MMCFD گیس مہیا کرنے کی ضرورت ہے ۔ موسم سرما میں یہ طلب 2000 MMCFD تک پہنچتی ہے اور موسم گرم میں اس سے نیچے رہتا ہے۔ گیس کی مزید مقامی دریافت محدود بھی ہوتی جارہی ہے ۔
مقامی گیس کی تلاش اور دستیاب مقامی شیل گیس کے استعمال کی ضرورت کو گیس کی کمی کی صورت حال کو بہتر کرنے میں معاونت کرے گی۔ ایران پائپ لائن ، تاپی پائپ لائن کی تصنیب اس کمی کو دور کرنے میں بھی معاونت کر سکتی ہے۔ جبکہ ایران کی گیس کو جلد ہی سسٹم میں لایا جاسکتا ہے اور بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو بھی مزید ایران سے گیس لیکر حاصل کی جا سکتا ہے ۔ہم یہاں سیاسی نقطہ نظر سے پرہیز کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ جب انڈیا ایران سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود تجارت کر رہا ہے تو پاکستان کو بھی یہ متبادل ذرائع تجارت کو استعمال کرنے چاہئے ہیں۔ بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری کے لئے ہمیں اپنی اقتصادی ترقی کی قربانی نہیں دینی چاہئے ہے۔
سندھ کے حوالے سے ترسیلی اور تقسیمی گیس کا نظام سوئی سادرن گیس کے پاس ہے اور اس کے گیس کے زیاں ہونے کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں جو رسمی طور پر 15 فیصد تک بتائے جاتے ہیں مگر تخمینہ اس سے زیادہ ہے اور اسی طریقے سے یہی صورت حال سوئی نادرن کی ہے اور ان دونوں کے نقصانات گیس ٖزیاں کے حوالے سے 20 فیصد تک ہیں ۔ اس زیاں کی وجہ سے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ہم LNG درآمد کر رہے ہیں اور ایک خاطر خواہ ذرمبادلہ سوئی سادرن گیس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بھی خرچ کر رہے ہیں۔بطور کل ان دونوں کمپنیوں نے اپنے ترسیلی اور تقسیم کے خدوخال کو تکنیکی اعتبار کے حوالے سے درست نہیں کئے ہیں ۔ عالمی بینک کے تخمینوں کے مطابق یہ نقصانات 3 فیصد تک بتائے جاتے ہیں۔
بتدریج بڑھتے ہوئے نقصانات اور سسٹم کے اوپر گرفت کا نہ ہونا اور روزانہ کی بنیاد پر مختلف گیس پریشر کنٹرول اسٹیشنز میں گیس فشار کا کم کرنا جیسی صورت حال ایک عام سی صورت حال اختیار کر رہی ہے۔ گیس کے پیداوار کرنے والی کمپنیاں جن کی ایک خاص تعداد ہے جن میں OGDCL بھی سرفہرست ہے۔ گیس پیداوار کرنے والے اداروں ، گیس مہیا اور ترسیل و تقسیم والے اداروں میں کوئی بھی رابطہ اس طرح سے نہیں ہے کہ باقاعدہ تکنیکی دیکھ بھال ، کم پیداوار کا ہونا وغیرہ کے اعداد و شمار وقت سے پہلے سائنسی اور تکنیکی بنیادوں کے اوپر ایک دوسرے کے ساتھ بانٹا جائے، جس کی وجہ سے ایک پلاننگ کے تحت گردشی بنیادوں پر مختلف سیکٹرز کو اس طرح گیس مہیا کی جائے جو ایک اچھے اعداد و شمار کے حوالے سے ہوں ۔
قومی مفادات ، برآمد ات اور مقامی مصرفی پیداوار کو بھی گیس کی کمی کو پورا کرنے اس طریقے سے بانٹا جائے کہ سب کے اوپر گیس کی کمی کو اطلاق ہو، جس کی وجہ سے شکایات کی صورت حال کو بھی بہتر کیا جا سکتا ہے اور نقصانات کے حوالے سے تمام سیکٹرز مساوی طور پر اثر انداز بھی ہو سکتے ہیں ۔ مگر سب سے بڑی جو خرابی نظر آرہی ہے کہ گیس فیلڈز کو دیکھ بھال کیلئے جب بند کیا جاتا ہے تو گیس کی کمی ہوتی ہے مگر اس میں پلاننگ کا فقدان ہے جو کہ گیس کی درآمدگی کی صورت میں پورا کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ وقت میں گیس کی پیداوار کو بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ تقریبا 4 مہینے پیداوار کی بندش اور آئندہ آنے والے وقت میں مجموعی صنعتی پیداوار میں 6 مہینے کے برابر پیداوار کا نقصان ہو چکا ہے۔ دوران Covid-19 جب گیس کا تقاصا کم تھا تو گیس پیداوار کرنے والی کمپنیوں کو کہا جاتا کہ وہ اپنے دیکھ بھال اسی دوران کر لیتے اور گیس فیلڈ ز کی پیداوار اور پیداوریت کو آئندہ آنے والے دنوں کیلئے تیار کیا جاتا تو شاید آج گیس کی کمی کے خراب حالات کو بہتر بنایا جا سکتا۔ 4 مہینے کافی تھے کہ پائپ لائنز کی وہاں پر مرمت کی جاتی جہاں پر بہت زیادہ گیس زیاں ہو رہی تھی ۔
اس طرح 5 فیصد زیاں کے حوالے سے نقصانات کی کمی موجودہ گیس کے بحران کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی تھی ۔ گزشتہ چند مہینوں سے گیس کے مہیا کرنے کی صورتحال کا ٹھیک نہ ہونا اور گاہ بگاہ گیس کی کمی ، فشار کا کم ہونا اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بالخصوص کراچی کی انڈسٹری کو بے تحاشہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے ، جس نقصانات کی شدت کو اس طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ صنعت ایک چوتھائی گیس سوئی سادرن گیس کے تقسیم کے نظام میں حصہ دار ہے ۔
گیس کی قیمتوں کا بڑھنا بھی مسابقانہ طور پر منفی عنصر ہے جو پیداواری لاگت کے اوپر آتا ہے جس کی وجہ سے مقامی پیداوار درآمدی اشیاء کے مقابلے میں مہنگی ہونے کی وجہ سے اپنی مسابقت کھو بیٹھتی ہے۔ اس وقت صورت حال کچھ ایسی ہے کہ حکومت کو فوری طور پر اس گیس کی کمی کو ایل این جی کے ذریعے پورا کرنا چاہئے اور مقامی گیس کی پیداور کی سطح کو واپس اپنی جگہ پر لانا چاہئے ورنہ Covid-19کے ساتھ ساتھ گیس کی کمی بھی معیشت اور بالخصوص صنعتی پیداوا ر کے اوپر مزید منفی اثرات مرتب کرے گی۔
چند سفارشات جو سامنے نظر آرہی ہیں ان میں GIDC کے تقاضوں کو انتظامی طور پر کم کیا جائے یا اس کے واپسی کے اقساط کے دورانئے کو بڑھایا جائے تاکہ درآمد شدہ LNG گیس کی بڑھی ہوئی قیمت کے اثرات کو بااحسن طریقے سے کم کیا جاسکے۔ گیس کی کمی صنعت کے علاوہ باقی تمام شعبوں کو بھی متاثر کر رہی ہے جس کی وجہ سے مسابقت کے حوالے سے ہماری اشیاء پیداوار اور خوردونوش اشیاء نیز صادرات بھی ایک عالمی مسابقے کی موجودہ رووش کے سامنے کمزور پڑ رہی ہیں ۔
یہ مسابقی کمزوری Covid-19 کی صورت میں مزید کمزور ہو رہی ہے کیونکہ دوسرے ممالک کی حکومتیں مارک اپ ریٹس کو صفر تک لا کر اور مزید مالی اقدامات کے ذریعے اپنے ملکوں میں پیداوار اور پیداوریت کے مسابقت کی فروغ کی ضرورت کو اولیت دے رہی ہیں۔ نیز گیس کے زیاں کے حوالے سے نقصانات بھی بتدریج کم کرنے کی ضرورت ہے جو گیس کی کمی کی صورتحال کو گیس کی نقصانات کم کرکے بہتر کرسکتی ہیں ۔ اس کے علاوہ بین الصوبائی تعلقات کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے جس میں ترسیلی نظام اور تقسیمی نظام کے لئے صوبائی حکومتوں کی طرف سے زمین کا مہیا کرنا بھی شامل ہے ۔
سیاسی طور پر سندھ کا یہ مطالبہ کہ آئین کے شق نمبر 158 کے تحت گیس کے مصرف کی اولیت کا اختیار اس صوبے کو ہوتا ہے جہاں سے گیس مہیا کی جارہی ہے،اس مسئلے کو بھی آئینی اصولوں کے تحت خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اس کے علاوہ اٹھارویں ترمیم کی شک نمبر 172 میں مزید ترمیمات کرکے صوبوں اور وفاق کے مابین گیس کو مشترکہ ملکیت کو بھی آئینی طور پر محفوظ کیا گیا ہے ۔ گیس پیداورا کرنے والی کمپنیاں اور گیس کی ترسیلی اور تقسیمی نظام کے حوالے سے کمپنیوں میں بالخصوص اٹھارویں ترمیم کے آئینی تقاضوں کے تحت صوبوں کو جہاں سے گیس مہیا ہوتی ہے ، کو گیس پیداوار اور گیس تقسیم کرنے والے اداروں میں بورڈ ڈائریکٹرز کی حیثیت سے گیس پیداوار کے اعداد کے مطابق صوبوں کو نمائندگی دی جانی چاہئے ہے تاکہ گیس سے متعلق درپیش مسئلے مسائل بورڈز میں حل کئے جائیں نہ کہ روڈ رستوں ، پریس کلب اور غیر ضروری طور پر دیئے گئے سیاسی بیانات کے تحت۔
سوئی سدرن گیس کو 1150 MMCFD تک گیس مہیا کی جاتی تھی ۔ عمومی طور پر 1050 MMCFD مہیا کی جارہی تھی جبکہ یہ مہیا کرنے کا کوٹہ 1100 MMCFD تک تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں 100 سے لیکر 200 MMCFD کی کمی ہو رہی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گیس فیلڈز میں بھی پیداوار کم ہو رہی ہے اور نیز باقی اسباب اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ صنعتی حصہ 350 MMCFD تک ہے جو صنعتی معیشت کو قومی دھارے میں جوڑتا ہے ۔ اعداد و شمار کی یہ صورتال کافی تشویش ناک ہے۔
مزید گیس کی بڑھتی ہوئی قلت کی شدت کو اس حوالے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ سوئی سدرن گیس ابھی سے ہی یہ اعلامیہ دے رہی ہے کہ موسم سرما میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کے لئے سی این جی مہیا نہیں کی جائے گی ۔ اس وقت ٹرانسپورٹ کے لئے جو سی این جی مہیا کی جا رہی تھی وہ بمشکل سوئی سدرن کو مہیا کی جانے والی گیس کا ڈھائی فیصد ہے ۔ اس کے علاوہ اس صورت حال میں ٹرانسپورٹ کو سی این جی مہیا نہ کرنا جبکہ CNG اور پیٹرول کے مابین نرخ میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں ہے ، سمجھ میں نہیں آتا۔ اس سی این جی کی بندش کی وجہ سے پیٹرول کے استعمال میں اضافہ ہوگا اور موسمی تبدیلی کے حوالے سے کئے گئے معاہدات کی ضرورت کے اجراء میں بھی کمی آئے گی اور یہ وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ یہ کیا فلسفہ ہے کہ ہم اپنے ماحولیات کو درست کرنے کے بجائے اس کو خراب کرنے کے امکانات کو تقویت دے رہے ہیں ۔
جاوید بلوانی
سابق چیئرمین، سائٹ ایسوی ایشن
پاکستان اپیرئل فورم کے چیئرمین،پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیف کوآرڈینیٹر و سابق چیئرمین محمد جاوید بلوانی نے بتایا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے،ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا ملک کے مجموعی ایکسپورٹ میںنصف سے ذیادہ حصہ ہے،اسی طرح زرمبادلہ کمانے میں ٹیکسٹائل سیکٹر سرفہرست ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر ملک بھر میں سب سے ذیادہ اربن روزگارخاص طرف پر خواتین اورغیر مراعات یافتہ طبقے کو ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح کراچی کی جنرل انڈسٹری کا بھی ملک کی معیشت میں کردار قابل ذکر ہے اور بلاشبہ کراچی ملک کا صنعتی و تجارتی حب ہے ۔
کراچی کی ایکسپورٹس و جنرل انڈسٹری کو گزشتہ کئی سالوں سے گیس کے مسائل کا سامنا ہے جس میں گیس کی بندش ، گیس پریشر میں کمی اور گیس کی فراہمی کا نہ ہو نا شامل ہیں جس کی وجہ سے ایکسپورٹس اور جنرل انڈسٹری کی پیداوار شدید متاثر ہوتی ہے۔قدرتی گیس کی فراہمی وفاق کے زیر انتظام معاملہ ہے جس کو اجاگر کرنے کے کیلئے کراچی کی انڈسٹریز گزشتہ کئی دھائیوں میں مختلف وفاقی حکومتوں کے سامنے معاملہ پیش کرتی رہی ہیں۔ مگر ان کی گزارشات اور سفارشات کو حقیقی معنوں میں اہمیت نہ مل سکی جس کی وجوہات بظاہر سیاسی نظر آتی ہیں۔ قدرتی گیس کا بحران آئندہ چند ماہ میں مزید سنگین ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کی نشاندہی وزیر اعظم پاکستان بھی کر چکے ہیں۔
کراچی کی صنعتوں کو گیس کے پریشر میں کمی کا گزشتہ 15سالوں سے سامنا ہے۔ اسی طرح گزشتہ کئی سال سے موسم سرما میں گیس کا بحران شدید ہو جاتا ہے مگر حکومت کی اس طرف کوئی حقیقی توجہ دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان میں گیس 1952میں دریافت ہوئی اور اسکی پیداوار کا آغاز1955میں ہوا۔ 1955سے قدرتی گیس حکومتی پالیسی کے مطابق صنعتوںکو سپلائی کی جاتی تھی۔کمرشل اور ڈومیسٹک صارفین کو ایل پی جی گیس سلنڈرز میں فراہم کی جاتی تھی۔یہ دور حکومت صدر ایوب خان کا تھا جس میں ملک میں اقتصادی اور صنعتی ترقی کا نیا باب رقم ہوا اور ملک میں بہت بڑی تعداد میں صنعتوں کا قیام عمل میں آیا اور ملک تعمیر و ترقی کی طرف گامزن ہو گیا۔ اس کے بعد جمہوریت آ گئی اورگیس سپلائی کی پالیسی میں تبدیلی کی گئی اور گیس برائے نام قیمت پر چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں فراہم کی گئی اور اس کے بعد غیر معقول ترجیحی بنیادوں پر ڈومیسٹک سیکٹر کو دی گئی۔حکومت کوگائوں دیہاتوں میں بائیو گیس متعارف کرانی چاہیئے اور کمرشل و ڈومیسٹک سیکٹر کو ایل پی جی گیس دینے چاہئے۔
حکومت نے 2011سے صنعتوں کو نئے مقامی قدرتی گیس کے کنکشن موخر کئے ہوئے ہیں اور نئے صنعتی گیس کنکشن دیئے نہیں جا رہے۔ اس کے برعکس جبکہ گیس کی قلت ہے ڈومیسٹک اور کمرشل گیس کنکشن دینے کا سلسلہ جاری ہے۔گائوں کے گائوں گیس کنکشن دینے کے علاوہ کراچی میں بنگلوں اور بلند وبالا عمارتوں میں ڈومیسٹک گیس کنکشنز دیئے گئے ہیں۔ دیگر ممالک میں جہاں گیس کے قدرتی ذخائر پاکستان سے ذیادہ بھی ہیں وہاں حکومتیں پہلے صنعتوں کو مقامی گیس فراہم کرتی ہیں جبکہ ڈومیسٹک اور کمرشل سیکٹرز میں ایل پی جی سپلائی کی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے اور قیمتی قدرتی گیس پہلی ترجیح پر ڈومیسٹک اور کمرشل صارفین کو دی گئی ہے جبکہ صنعتوں کو گیس سے محروم رکھا گیا ہے ۔
صرف آر ایل این جی کے صنعتی کنکشن دیئے گئے جبکہ ڈومسیٹک صارفین کو اب بھی قدرتی گیس کے کنکشنز دیئے جا رہے ہیں۔ 2011سے حکومتی کی پہلے ترجیح ڈومیسٹک سیکٹر پر مرکوز ہے اس وقت ڈومیسٹک کنکشنز کی تعداد 9,159,594 ہے جبکہ 2011میں تقریباً7,059,594 تھی ، اس دوران 21لاکھ ڈومسٹک گیس کنکشنز دیئے گئے۔ جبکہ صنعتی گیس کنکشنزتعداد 2011میں 10,935تھی اور اس وقت حالیہ تعداد 11,012 ، جن میں صرف 77صنعتی گیس کنکشنز کا اضافہ ہوا ہے۔
حکومت گیس پر گراس سبسڈی بھی دیتی ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہیے، ڈومیسٹک سیکٹر میں کروڑوں روپے کے بنگلوں اور فلیٹوں میں رہنے والے امراء کس طرح سبسڈی کے مستحق ہیں؟ دراصل سبسڈی تو ڈومیسٹک سکیٹر میں کم آمدنی والوں کے لئے متعین کی گئی تھی جن کے پاس گیس کنکشن ہی دستیاب نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس تو رہنے کیلئے ہی مناسب ٹھکانہ نہیں ہے۔ ڈومیسٹک پر سبسڈی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا حق ہے مگر ان کے پاس اپنے گھر ہی نہیں ہیںتو وہ گیس کا کنکشن لے کر کیاکریں گے؟ لہٰذا اس گمراہ کن سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے جس میں غریبوں کے نام پر امیروں کو نوازا جا رہا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمار ا ملک قرضوں پرچل رہا ہے اور سیاستدان گیس کے ڈومیسٹک کنکشنز پراپنی سیاست کو چمکانے میں مصروف ہیں۔
ہمارے حکمران سیاسی بنیادوں پر ملک کی قیمتی قدرتی گیس کو ڈومیسٹک اور کمرشل صارفین کی غیر تعمیر ی سرگرمیوں میں ضائع کر رہے ہیں۔ گھروں میں گیس کھانا بنانے کیلئے استعمال ہوتی ہے اور ماچس کی تیلی بچانے کی خاطر گیس کا چولہا بند نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح پورا سال گیس کے گیزر 24گھنٹے چلتے رہتے ہیں اور قیمتی قدرتی گیس بلامقصد ضائع کی جاتی ہے۔حکومت کو گیس کے استعمال کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی لانی چاہئے جو وقت کی اہم ضرورت ہے اور ملک کی قیمتی قدرتی گیس اور وسائل کو تعمیری سرگرمیوں میں استعمال کرنا چاہئے۔ گیس پر چلنے والے گیزرز کا استعمال حکومت کو ممنوع قرارد ینا چاہئے اور اس کے متبادل کے طور پر سولر گیزر متعارف کرائے جائیں۔
یو ایف جی یعنی اَن اکائونٹیڈ فار گیس جسے لائن لاسس بھی کہا جاتاہے۔ حکومت کو سالانہ بنیادوں پرلائن لاسس کی مد میں تقریباً 50ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ دیگر ممالک میں قدرتی گیس کے لائن لاسسز 1تا2فیصد تک ہیں جبکہ پاکستان میں گھریلو اور کمرشل سیکٹر میں لائن لاسسزکی شرح تقریباً 15تا17فیصد تک ہے اور صنعتوں میں تقریباً ۱یک فیصد ہے۔حکومت کراس سبسڈی کے تحت ان تمام لائن لاسس کو انڈسٹری کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔
اسی وجہ سے ہمار ا ملک ترقی نہیں کر رہا اور نئی صنعتوںکا قیام عمل میں نہیں آرہا۔ بلکہ چھوٹی صنعتوں کو گیس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مزکورہ صنعتیں بند بھی ہو رہی ہیں اور بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے ۔صنعتیں پاکستان میں حکومت سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتی ہیں۔ اگر ڈومیسٹک کنکشنز کو بند کر کے صنعتوں کی گیس فراہم کی جائے تو لائن لاسس ختم ہو جائیں گے، نئے صنعتیں لگیں گی اور روزگار کے مزید نئے مواقع میسر آئیں گے۔
کراچی ملک کا سب سے بڑا انڈسٹرئیل حب ہے۔کراچی اکیلے ملک کی مجموعی ایکسپورٹ کا 57فیصد ایکسپورٹ شیئر اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کا 54فیصد شیئرفراہم کرتا ہے۔ کراچی کی انڈسٹریز کو گیس فراہم نہ کرنے کا مطلب ملک کی مجموعی57فیصد ایکسپورٹ کو متاثر کرنا اور اس سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ اور ریوینیو کا نقصان ہے۔ان حالات میں جب کراچی کی صنعتوں کو گیس مطلوبہ مقدار میں دستیاب نہیں اور انڈسٹریز ملک کی مجموعی ایکسپورٹس کے لئے نصف حصہ فراہم کر رہی ہیں اگر وافر مقدار میں قدرتی گیس ملے ایکسپورٹس میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایک دن کی گیس کی تعطیل کی وجہ سے 14.28فیصد صنعتی پیداوار متاثر ہوتی ہے ۔صنعتوں کو ہفتہ میں ایک دن گیس نہیں دی جاتی۔ جبکہ ڈومیسٹک سیکٹر اور کمرشل سیکٹر میں بلاتعطل گیس سپلائی کی جاتی ہے۔جاوید بلوانی نے وزیر اعظم پاکستان کو اپیل کی کہ وہ فوری مداخلت کرتے ہوئے کراچی کی صنعتوں کو پہلی ترجیح پر بلا تعطل مقامی قدرتی گیس کی سپلائی یقینی بنانے کے احکامات جاری کریں۔اگر آج حکومت ڈومیسٹک اور کمرشل سیکٹر کو ایل پی جی پر شفٹ کر دے اور صنعتوں کوسال میں 365دن مقامی قدرتی گیس ایکسپورٹ انڈسٹریز کوفراہم کرے تو صنعتیں اپنی مکمل پیداواری صلاحیت کے مطابق 24گھنٹے چلیں گی ۔
اس سے حکومت کو لائن لاسس کی مد ہونے والا سالانہ 50ارب روپے کا نقصان نہ ہوگا بلکہ مزید ریوینیو صنعتوں سے حاصل ہوگا۔ کراچی کی ایکسپورٹ اور جنرل انڈسٹریز کو گیس ترجیحی بنیادوں پر ملنے سے نہ صرف ایکسپورٹس میں متوقع 10فیصد اضافہ ہو گا بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا، تجارتی خسارہ میں کمی آئے گی ، جی ڈی پی بڑھے گا اور نئی ملازمتیں بھی میسر ہوں گی۔ وقت کی اہم ضرورت ہے اور پاکستان کے مستقبل کیلئے ناگزیر ہے کہ بہترین منصوبہ بندی کے تحت ملک میں گیس کے نئے قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت کیلئے حکومت کے زیر نگرانی سرگرمیوں کو تیز کیا جائے۔
امتیاز شیخ
وزیرتوانائی، حکومت سندھ
وزیر توانائی سندھ امتیاز شیخ نے کہا ہے کہ سندھ مہنگی در آمدی ایل این جی خدید نہیں کرے گا۔ ضرورت سے زیادہ گیس موجود ہے مہنگی گیس خریداری سے قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے گا ۔ وفاق پورٹ قاسم تا پارک لینڈ سترہ کلومیٹر ایل این کی پائپ لائن بچھانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے لیے 13 کلومیٹر اسٹیل مل اور پورٹ قاسم کی زمین استعمال کی جائے گی جبکہ 4 کلومیٹر زمین ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے لی جائے گی,ریونیو ڈیپارٹمنٹ سندھ نے ایل این تی گیس پائپ لائن کے لیے 4 ایکڑ اراضی دینے کے لئے صوبائی کابینہ کو منظوری کے لئے بھیجا تھا جو کہ 30 ستمبر 2020 کو ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں 4 ایکڑ اراضی کی منظوری دے دی گئی ہے مگر صوبہ سندھ کا اصرار ہے کہ آرٹیکل 158 کے تحت سندھ کو قدرتی گیس استعمال کرنے کا آئینی حق ہے اور سندھ کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ گیس بھی موجود ہے۔
سندھ سے روزانہ 2300 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہورہی ہے جبکہ سندھ کو روزانہ 900 سے 1000 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے جبکہ صوبے کی ضرورت 1700 ایم ایم سی ایف ڈی ہے صوبہ سندھ ملکی گیس پیداوار کا %65 فیصد پیداوار دے رہا ہے 4 فیصد گیس پنجاب اور 31 فیصد گیس بلوچستان سے پیدا ہورہی ہے جبکہ گیس کا 50 فیصد استعمال صوبہ پنجاب کر رہا ہےایسی صورتحال میں سندھ کے صارفین کو زبردستی مہنگی ایل این جی لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ایل این جی خریدنے سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے گا ۔
وفاق نے کراچی سمیت پورے صوبے میں گیس قلت ایل این جی کےذریعے جبراً کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا ہے اگر آنے والے موسم سرما میں سندھ کو سندھ کے حصے کی گیس نہ ملی تو سندھ کا معاشی قتل تصور کیا جائے گا سندھ کی صنعت کا پہیہ بیٹھ جائے گا مزدوروں اور دہاڑی دار کے ساتھ صنعت کار بھی اس کا شکار ہوں گے،صوبے سے نکلنے والی قدرتی گیس صوبہ سندھ کے لیے کافی ہے مگر وفاق جبراً مہنگی درآمدی ایل این دینا چاہتا ہے جس سے گیس کے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوگا ، ایس ایس جی سی ایل بورڈ میں سندھ کی نمائندگی بھی شامل نہیں اگر دبائو کے ذریعے ایل این جی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔
وزیر توانائی امتیاز شیخ کا کہنا ہے کہ سندھ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے پاس صرف تین کلومیٹر رائٹ آف وے کا کیس التوا میں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ کمپنیوں نے گیس فیلڈ ایک ساتھ ہی مرمت کے لیے بند کی ہیں وفاق کو اس کا متبادل پلان منصوبہ بنانا چاہیے تھا وزیر توانائی سندھ کا کہنا ہے کہ عمر ایوب جس سترہ کلو میٹر کو جواز بنا کر گیس کا بحران سندھ حکومت پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں وہ سراسر غلط ہے کیونکہ اس وقت بارہ سو ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی پنجاب کونہیں جاری وفاقی حکومت زبردستی پانچ سو سے چھ سو ایم ایم سی ایف ڈی سندھ کے صارفین پر تھوپنا چاہتی ہے۔
پورٹ قاسم تا پاک لینڈ بتیس انچ قطر کی پائپ لائن پہلے ہی موجود ہے نئی لائین ڈالنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے سندھ میں گیس فیلڈز کو بند کر کے گیس کا مصنوعی بحران پیدا کیا جارہا ہے جس کی وجہ ایل این جی کی امپورٹ کا جواز پیدا کرنا ہے ، وزیر توانائی سندھ امتیاز شیخ نے بتایا کہ وفاق کو سندھ نے واضح کر دیا ہے کہ مہنگی ایل این جی سندھ کی عوام پر ظلم اور آئین کے آرٹیکل 158 کی خلاف ورزی ہے اور قائد حزب اختلاف سندھ اور پی ٹی آی کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے اپنے ضمیر کی آواز پر کراچی کے عوام کی مشکلات پر وزیر اعظم وزیر توانائی اور مشیر توانائی کو آئینہ دیکھایا تو اس کی پاداش میں ان سے استعفیٰ لے لیا گیا حقیقت یہ ہے کہ جو سچ بولے گا اور سچ کا ساتھ دے گا وہ موجودہ حکمرانوں کے عتاب کا سامنا کرے گا خواہ اس کی وابستگی حکمراں جماعت سے ہو قائد حزب اختلاف کا بیان وفاقی حکومت کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔