بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنےمکروہ اقدامات کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے اسے بھارتی ریاست کا مستقل حصہ بنا لیا۔ اقوام متحدہ جس پر ہم گزشتہ72سال سے تکیہ کئےبیٹھے تھے اس کی جنرل اسمبلی کی گزشتہ ہفتے کی روئیداد سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی کشمیر سے متعلق تقریر کی حمایت میں دنیا سے صرف ایک ملک ترکی کے صدر کی صدا ہی بلند ہو سکی ۔گزشتہ برس بھارت کی جانب سے جموں کشمیر سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کا ہم بروقت ادراک کر سکے نہ ہی کوئی موثر حکمت عملی اختیار کی گئی بلکہ اب گلگت بلتستان سے متعلق بھی حکومت کی جانب سے ایسی ہی تجاویز آ رہی ہیں جیسے اقدامات بھارت نے اٹھائے ہیں ۔گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی تجاویزچین کی حمایت سے سی پیک پر کام شروع ہونے کے ساتھ ہی آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب خاص طور پر بھارت کی جانب سے آنے والی ان اطلاعات سے کہ بھارت اپنی مرکزی پارلیمنٹ میںگلگت بلتستان او ر آزاد کشمیر کے نام پر ’’خالی سیٹیں ‘‘مختص کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ ان علاقوں کو بھی اپنا آئینی حصہ بتا سکے۔سی پیک کے منصوبہ پر عملدر آمد مشکل بنا سکتا ہے ۔اس پس منظر میں یہاں یہ تجاویز گردش کر رہی ہیں کہ گلگت بلتستان بشمول آزادکشمیر پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے انہیں پاکستان کا عبوری صوبہ بنا دیا جائے۔
ان تجاویز پر عمل کریں تو ان کے منفی پہلو بھی پیش نظر رکھنے چاہئیں۔سب سے پہلا اعتراض یہ ہو گا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس جموں وکشمیر کے اپنے مقبوضہ حصہ کو اپنا آئینی حصہ بنا دیا ہے تو پاکستان نے اپنے زیر انتظام علاقوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کر کے بھارتی اقدامات کو جوازفراہم کردیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کے بغیر ہی پاکستان میں شامل کر کے ان قراردادوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔اس طرح دنیا میں مسئلہ کشمیر پر وکالت کرنے کا اخلاقی جواز ختم ہو جائے گا۔
اب نئی صورت حال میں جہاں ان علاقوں کی آئینی حیثیت کا کوئی حل دھونڈنا ہے وہاں پر ان علاقوں کے عوام کو ان تمام حقوق کی ضمانت بھی ہونی چاہیے جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے تحت اس کرہ ارض پر پیدا ہونے والے کسی بھی انسان کو حاصل ہیںاور ان لوگوں کو ان بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت آئین پاکستان میں ملنی چاہئے۔راقم کی رائے ہے کہ اگر ان علاقوں کی موجودہ حیثیت کو بدل کر پاکستان میں شامل کرنا ناگزیر ہو تو اس کیلئے درج ذیل اقدامات عمل میں لائے جانے ضروری ہو ں گے:۔
1۔گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت ’’معاہدہ کراچی ‘‘کی مرہون منت ہے۔جو حکومت پاکستان ،آزادکشمیر حکومت اور آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس (جو اس وقت آزادکشمیر کی واحد سیاسی جماعت تھی )کے مابین عمل میں آیا تھا ۔یہ ایک قسم کا سوشل کنٹریکٹ تھا اوراس معاہدہ کراچی میں تبدیلی کیلئے بھی تینوں فریقوں گلگت بلتستان اسمبلی ،آزادکشمیر اسمبلی اور حکومت پاکستان کے درمیان ایک نئے سوشل کنٹرکٹ پر دستخط ہونے ضروری ہیں ۔جس میں ان علاقوں اور حکومت پاکستان کے درمیان نئے سرے سے حقوق و فرائض کا تعین ہو۔
2۔بین الاقوامی طور پر اپنی بہتر پوزیشن رکھنے کیلئے مقبوضہ جموں وکشمیر کیلئے بھارت کی طرح کے اقدامات کرنے سے گریز کیا جائےاور انہیں صوبائی درجہ، چاہے عبوری ہی کیا جائے، دینے کے بجائے دونوں خطوں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو بین الاقوامی قوانین کے تحت ریاست پاکستان کی( Protectorate State)قرار دیا جائے جس کے تحت حکومت پاکستان کا اقتدار اعلیٰ ان ریاستوں پر قائم رہے اور یوں ان کی ’’خصوصی نیم خود مختارانہ حیثیت‘‘ بھی قائم رہے گی ۔
3۔ ان ریاستوں سے ان کی مجوزہ حیثیت میں حکومت پاکستان معاہدہ کرے جن میں ان علاقوں کے معاشی اور سیاسی حقوق کی ضمانت ہو جو بین الاقوامی حقوق کے چارٹر کے تحت دنیا کے انسانوں کو حاصل ہیں۔نیز ریاست پاکستان کے مالی ومعاشی وسائل میں ان ریاستوں یا لوگوں کا جو حصہ بنتا ہے اس میں انہیں منصفانہ طور پر ادائیگی کو یقینی بنایا جائے ۔
4۔اس نئے بین الریاستی معاہدے کو آئین پاکستان کا حصہ بنایا جائے اور متعلقہ ریاستوں کے آئین میں بھی انہیں شامل کیا جائے اور یہ پرویژن بھی رکھی جائے کہ ان معاہدات پر عملدرآمد میںاگر کوئی مسئلہ پیدا ہو گا تو سپریم کورٹ آف پاکستان کو اختیارِ سماعت اور تصفیہ کا آئینیحق حاصل ہو گا ۔اگر ان خطوں اور حکومت پاکستان کے درمیان یہ نیا سوشل کنٹریکٹ ہو تا ہے اور آئین پاکستان میں اس کا اندراج ہو جاتا ہے تو ان خطوں کو صوبائی درجہ دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سی پیک کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے اور پاکستان کو بھارت کی طرز پر اقدامات کر کے بھارت کی سطح پر آنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔