• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کو واپس لایا جائے گا، مریم نواز کا احتساب ہو گا اور شہباز شریف سے رقم واپس لی جائے گی۔۔۔۔ یہ وہ نعرے ہیں جو ان دنوں زبان زد عام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوامی مسائل بھی یہی ہیں؟ عوالم کا مسئلہ تو دو وقت کا کھانا، بجلی کا بل، گھر کا کرایہ، دوائیوں کی قیمت اور بچوں کی فیس ہے۔ جب تک اس کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہوں گی اس کو کیا پروا کہ کون جیل میں ہے اور کون ملک سے باہر ؟۔ یہ حکومتی زبان ہے جسے عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔ عام آدمی جو زبان سمجھتا ہے وہ یہ ہے کہ آٹا پینتالیس روپے کلو سے نوے روپے کلو ہو گیا ہے۔چینی جو پچاس روپے کلوملتی تھی وہ ایک سودس روپے فی کلو مل رہی ہے۔ادویات کا ماہانہ بجٹ آٹھ ہزار سے بیس ہزار روپے ہو گیا ہے۔ دو سال میں اسکول کی فیس سو گنا بڑھ گئی ہے۔ اس پرظلم یہ کہ صاحبانِ اقتدار ان حقائق کو پروپیگنڈا قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔اب کون ان کو جاکر یہ بتائے کہ نسرین بی بی نے دس سال کی محنت سے بیٹی کے جہیز کے لیے جو تین لاکھ روپے جوڑ رکھے تھے ان کی قدر بیٹھے بٹھائے ڈیڑھ لاکھ کے برابر رہ گئی ہے۔ اکرم صاحب نے پندرہ سال کی مشقت سے بیٹے کی تعلیم کے لیے جو پانچ لاکھ اکٹھے کیے تھے ان کی مالیت اڑھائی لاکھ روپے رہ گئی ہے۔بشیر صاحب نے دس مرلے کا گھر بنانے کے لیے تیس سال سے جو نوے لاکھ روپے جمع کیے تھے اب اس میں پانچ مرلے کا گھر بھی نہیں مل رہا۔ بلال صاحب نے اٹھارہ سو سی سی گاڑی خریدنے کیلئے جو چھبیس لاکھ روپے رکھے تھے اس میں اب تیرہ سو سی سی گاڑی بھی نہیں مل رہی۔ایک سپر سٹور کے مالک نے بتایا کہ انہوں نےاب سامان پر پرائس ٹیگ لگانا بند کر دیے ہیں، وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اب روزانہ ٹیگ لگائیں یا سامان بیچیں۔ ان مسائل کے حل کیلئے حکومت نے کیا پالیسی بنائی اور کیا حکمت عملی طے کی ہے کچھ علم نہیں بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت تصویر کا ایک رخ دکھا کر معاشی ترقی کے دعوے کر رہی ہے۔عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ ریکوڈک کے حوالے سے پاکستان کو جو اسٹے ملا ہے وہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگر کامیابی کے اس دعوے کو بھی مان لیا جائے تو کیا حکومت یہ بتا سکتی ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کو جو ممکنہ معاشی فوائد حاصل ہو سکتے تھے ،وہ حاصل کیے گئے ہیں یا نہیں؟ پچھلے سال حکومت یورو بانڈ جاری کرنا چاہتی تھی لیکن ریکوڈک منصوبے پر پاکستان کو جرمانے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ نتیجتاًبھاری شرح سود پر قرض لیا جس کی قیمت مہنگائی کی صورت میں عام آدمی نے چکائی۔ اس سال ریکوڈک کا فیصلہ پاکستان کے حق میں آنے سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھاہے لیکن حکومتی نظام یورو بانڈ جاری کرنے کے معاملے پر سست روی کا شکار ہے۔ جبکہ اس اقدام سے ڈالر کے ذخائر بڑھیں گے، شرح سود مزید کم کی جا سکتی ہے۔ مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے اور عام آدمی کو کسی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ روشن ڈیجیٹل اکاونٹس بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔وہ کوئی بھی ادائیگی آن لائن کر سکیں گے۔ لیکن اس ایشو پر بات نہیں ہو رہی کہ چند ماہ پہلے مناسب سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ایک بڑے بینک کے متعدد اکاونٹس کو ہیک کر لیا گیا تھا،جن کا ڈیٹا مبینہ طور پر ڈارک ویب پر بھی موجود تھا۔ کمزور سکیورٹی چیکس کی وجہ سے بین الاقومی ادائیگیوں کا عالمی ادارہ پے پال اور آن لائن خریداری میں دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ایمازون پاکستان نہیں آ پا رہا۔ ان حالات میں بیرون ملک پاکستانیوں کے اکاونٹس کی آن لائن ڈیجیٹل ٹرانسزیکشنز کا محفوظ ہونا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو عمومی شرح سود سے دو گنا زیادہ منافع دینے کی پیش کش سے ڈالرز کی ریل پیل ہونے کی نوید ہے۔سوال یہ ہے کہ آنے والے ممکنہ ڈالرز کی سرمایہ کاری کا کوئی لائحہ عمل طے کیا گیا ہے یا انھیں بھی سود کی ادائیگیوں میں استعمال کیا جائے گا؟زیادہ شرح سود پر فنڈ کی وصولی ایک طرح کی ہاٹ منی ہوتی ہے۔ ملکی حالات خراب ہونے پر رقم کا مطالبہ شدت اختیار کر جاتا ہے جوکہ ہر صورت واجب الادا ہوتی ہے۔ ان رقوم سے پاکستانی بیلنس شیٹ کی قرضوں والی سائیڈ بھاری ہو گی کیونکہ یہ کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے بلکہ قرض ہے جو بیرون ملک پاکستانی حکومت کو دیں گے۔حکومتی دعوی ہے کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ درآمدات میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے اور برآمدات نہیں بڑھیں۔ یعنی کہ آمدن نہیں بڑھائی گئی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ تین وقت کا کھانا چھوڑ کر دو وقت کر دیا جائے اور مہینے کے آخر میں تین کلو آٹے کی بچت کو بہترین پالیسی قرار دیا جائے۔ درآمدات کے حوالے سے حکومتی پالیسی شدت پسندانہ معلوم ہوتی ہے، اس میں توازن ضروری ہے۔ پاکستان مشینری، کیمیکل سمیت ہزاروں اشیا را مٹیریل کے طور پر درآمد کرتا ہے۔ مقامی سطح پر ان کی پروڈکشن تقریباً ناممکن ہے۔ اگر ایسی اشیا کی درآمدات رک گئیں تو مستقبل کا گروتھ ریٹ بری طرح متاثر ہو گا۔گزارش ہے کہ عوام کے سامنے پورا سچ رکھیں۔

تازہ ترین