• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر خواتین ہارمونز کی خرابی کا شکار کیوں؟

صحت مند طرزِ زندگی اختیار نہ کرنے کے سبب ہونے والے سنگین نقصانات میں سے ایک خواتین کے ہارمونز کا عدم توازن بھی ہے۔ اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر تین میں سے ایک خاتون ہارمونز کی خرابی سے دوچار ہے۔

ہارمونز کی خرابی کی علامات:

ہارمونل توازن بگڑ جانے کی عام علامات میں موٹاپا، خاص طور پر Central Obesity (جس میں پیٹ اور کولھوں پر چربی کا تناسب بڑھ جاتا ہے)، ماہ واری کا نظام بگڑ جانا، دورانِ ماہ واری کم یا زیادہ خون کا اخراج، اکثریت میں پیٹ کے نچلے حصّے میں درد کی شکایت بڑھ جانا، بالوں کا جھڑنا، ہونٹوں کے اوپری حصّے اور تھوڑی پر سخت بالوں کا نمودار ہونا، جِلد چکنی ہو جانے کے نتیجے میں دانے، کیل مہاسے نکلنا اور گردن کی پشت کا رنگ بتدریج گہرا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

علاوہ ازیں، انڈوں کی افزائش بھی متاثر ہوتی ہے جوحمل ٹھہرنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ تب ہی بظاہر صحت مند نظر آنے کے باوجود خواتین ایک طویل عرصے تک ماں بننے سے محروم رہتی ہیں، پھر اکثریت ٹونے ٹوٹکے آزمانے کے چکر میں وہ دورانیہ، جب ہارمونز کا توازن درست کیا جاسکتا ہے،حالانکہ یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے۔

بعض خواتین میں انڈوں کی افزائش میں پیدا ہونے والی خرابی کے باعث حمل ٹھہر تو جاتا ہے، مگر مدّت پوری نہیں کرپاتا اور یوں میچور ہونے سے پہلے ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اسے بیماری جان کر علاج کروانے کی بجائے عمومی طور پر توہمات کا سہارا لیا جاتا ہے۔

ہارمونز کے عدم توازن کی وجوہات:

سونے، جاگنے کے اوقات میں تبدیلی:

قدرت نے ہمارے جسم کا نظام سورج اور چاند کے نظام سے مربوط کیا ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو قدرتی طور پرجسم میں اسٹریس ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے جو زندگی کی بھاگ دوڑ اور جسمانی مشقّت کے لیے توانائی فراہم کرتے ہیں۔ سورج غروب ہونے کے بعد ہلکی تاریکی چھا جائے، تو ریلیکسنگ ہارمونز جو طبّی اصطلاح میں میلاٹونن ہارمونز کہلاتے ہیں۔

ایک منّظم نظام کے تحت جسم میں ہونے والیدن بھر کی ٹُوٹ پھوٹ کی مرمت کا کام شروع کردیتے ہیں، رات گئے روشنی میں جاگنے اور سورج نکلنے کے بعد دیر تک سوتے رہنے کی وجہ سے کئی ہارمونل مسائل پیدا ہوتے ہیں۔نیز، حمل نہ ٹھہرنا یا پھر ضایع ہوجانا بھی اِسی ہارمونل ڈس بیلسنگ کا نتیجہ ہے۔

سہل پسندی:

وہ خواتین زیادہ تر گھروں کے کام نہیں کرتی ہیں اور ایسی ملازمت کرتی ہیں جس میں بیٹھ کر کرنے کا کام زیادہ ہو تو اُن میں ہارمونز کے مسائل پائے جاتے ہیں کیونکہ اُن کی جسمانی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں جسم کے پٹّھے فعال نہیں ہوپاتے اور وہ بنیادی کیمیائی مادّے، جو جسم میں ہارمونز کی افزائش کنٹرول کرتے ہیں متاثر ہوجاتے ہیں، نتیجتاً انسولین ہارمون کی حسّاسیت کم ہوجاتی ہے، وہ زنانہ ہارمونز پر اثر انداز ہونے لگتی ہے اور رزلٹ ہارمونز کے عدم توازن کی صُورت نکلتا ہے۔

ذہنی تناؤ:

اسٹریس یا ذہنی تناؤ جہاں کئی بیماریوں کو جنم دیتا ہے، وہیں ہارمونز کی خرابی کا بھی باعث بنتا ہے۔

کاربوہائیڈریٹس کا زائد استعمال:

ہمارے جسم کو کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چکنائی، وٹامن، نمکیات اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس غذا میں یہ تمام اجزاء صحیح مقدار میں موجود ہوں، اسے متوازن غذا کہا جاتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی غذا میں ناصرف کاربوہائیڈریٹس کا استعمال خطرناک حد تک بڑھا لیا ہے بلکہ کھانے کے اوقات بھی تبدیل کردیے ہیں، جس کے نتیجے میں ہارمونز کی خرابی اور ذیابطیس لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ماحولیاتی اثرات:


موجودہ دور میں ہمارے ارد گرد کے ماحول میں بڑھتے ہوئے زہریلے مادّے یا ٹاکسنز بھی ہارمونل توازن بگڑ جانے کا سبب بن رہے ہیں۔

وٹامن ڈی کی کمی:

دُنیا بھر میں کی جانے والی متعدّد تحقیقات میں اس بات کے شواہد سامنے آئے ہیں کہ وٹامن ڈی کی کمی بھی ہارمونز کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔ نیز، خواتین سے متعلقہ دیگر کئی طبّی مسائل کو بھی جنم دے سکتی ہے۔

موروثیت:

بعض اوقات ہارمونز کی خرابی والدین سے بھی بچّوں میں منتقل ہوجاتی ہے، لہٰذا جن بچّوں کے والدین میں ہارمونز کی خرابی کا مسئلہ رہا ہو، انہیں چاہیے کہ اپنی اور اپنے بچّوں کی صحت پر خاص توجّہ دیں۔ مثبت اور سادہ طرزِ زندگی اپنائیں، تاکہ جس قدر ممکن ہو، اس خرابی کو اپنی اگلی نسل میں منتقل ہونے سے روکا جاسکے۔

اگر ہارمونز کی خرابی کا بروقت علاج نہ کروایا جائے  تو بچّہ دانی کے سرطان کے امکانات بھی خاصے بڑھ جاتے ہیں۔ 

یاد رہے کہ  شعبۂ طب میں موٹاپے، ذیابطیس اور بلند فشارِ خون کےامراض کے مجموعے کو بچّہ دانی کے کینسر کا پیش خیمہ تصوّر کیا جاتا ہے چونکہ موجودہ دور میں منفی طرزِ زندگی کے باعث خواتین میں ہارمونل عدم توازن کی شرح میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے، تو ضرورت اس امر کی ہے کہ احتیاطی تدابیر بروقت اختیار کی جائیں۔

تازہ ترین