• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ڈی ایم نے جہاں ملک کے جمہوریت پسند حلقوں میں امید اور جوش و خروش کا تاثر پیدا کیا ہے، وہاں اسکے قیام سے حکمران طبقوں میںسراسیمگی پھیل گئی ہے۔ اتحاد کو عوام کی نظروں میں نیچا دکھانے کیلئے ایک پوری پروپیگنڈہ مشینری نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ شیخ رشید احمد ، فواد چوہدری، فیاض چوہان اور شہباز گل نے غدار، مودی کا یار ، نیپال میں خفیہ ملاقاتوں سے مزین نعروں کے تیر ونشتر چلانے شروع کر دیے ہیں جس سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ حکمران طبقوں کے پاس دلائل کی شدید کمی ہے۔پی ڈی ایم کے اتحاد کا اعلان ہوا ہی تھا کہ میڈیا پر داستانوں کی داستانیںمختلف رودادوں کے ساتھ سنائی جا رہی ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ آیا یہ مہم حقائق پر مبنی ہے یا نہیں اور یہ کہ ان حقائق کواس وقت منظر عام پر لانے کی کیا اشد ضرورت پیش آگئی ہے۔ پروپیگنڈہ سے تعلق رکھنے والے افراد اور ادارے اس عمل کو ریاستی مشینری کے ذریعے ملزم کو مجرم ثابت کرنے کاعمل کہتے ہیںمگر مشکل یہ ہے کہ یہ عمل اس وقت کامیاب ہوتا ہے جب سماجی حا لات بھی ایسے پروپیگنڈے کیلئے سازگار ہوںاور پروپیگنڈہ کرنے والوں پر عوام اعتماد بھی کرتے ہوں۔ پاکستان کے موجودہ حالات میںیہ دونوں شرائط پوری نہیں ہوتیں اور اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اب سیاسی شعور پنجاب تک پھیل گیا ہے جس کا سہرا نواز شریف کو جاتا ہے جس نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو پنجاب کے قرب و جوار میں پھیلادیا ۔ نواز شریف کی اے پی سی میں تقریر آئندہ آنے والے سیاسی کارکنوں کے لیے مشعل راہ ہوگی۔ ولی خان کہتے تھے کہ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل اور قوموں کے حقوق اس وقت ہی حاصل ہونگے جب پنجاب سے ارتقائی شعور اٹھ کر بولے گا۔اور اب جب کہ غداری کے القابات چھوٹے صوبوں سے ہوتے ہو ئے پنجاب تک پہنچ گئے ہیں اس لیے اب عوام بھی حقائق پیش کرنے والوں کے محرکات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پروپیگنڈہ مہم چاہے کتنی بھی منظم کیوں نہ ہو، اگر یہ غلط حلقوں کی طرف سے پیش کی جارہی ہوتو عوام اسے قبول نہیں کرتے بلکہ اس کا الٹا تاثر لیتے ہیں۔یہ مہم تحریک انصاف کو مزید سیاسی بیگانگی کا شکار کر دے گی اور آئندہ آنے والے مورخ تحریک انصاف کو’’ ـق لیگ ‘ ‘ اور ’’ باپ پارٹی‘‘ کے ساتھ کھڑا کر کے انکا تجزیاتی مطالعہ کریں گے کہ کس طرح ان پارٹیوں نے سویلین سپر میسی ، پاکستانی وفاقیت اور جمہوری تسلسل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

آج پی ڈی ایم کے اتحاد پر تاریخی ذمہ داری آن پڑی ہےکہ وہ ان گرتی ہوئی دیواروں کو آخری دھکا کیسے دیتے ہیں۔یاد رہے کہ کوئی بھی سیاسی جدوجہد صحیح حکمت عملی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ۔پی ڈی ایم کی قیادت کو اپنے پچھلے دو سالہ رویوں پر سنجیدگی سے خود تنقیدی کے عمل سے گزر کراپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگااور ایک نئے ولولے کے ساتھ میثاق پاکستان یا میثاق جمہوریت کا از سرنو احیا کرنا ہوگاتاکہ وہ عوام اور جمہوریت پسند قوتوں کے وسیع حلقوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو جائیں۔اتحادکی لیڈرشپ کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے اتفاق رائے سے کریں ، جہاں مکمل اتفاق نہیں ہو سکتا وہ اکثریت کے فیصلے کو بلا جھجک قبول کریں کیونکہ یہی جمہوری طریقہ کارہے۔اپنی تاریخی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے افہام و تفہیم اور دوستا نہ ماحول میںپارٹیوں کے اندرونی اختلافات کوبالائے طاق رکھ کر سویلین سپرمیسی کے اہداف کو پالیں کیونکہ اس کے بغیر نہ تومحکوم قوموں کوان کے حقوق ملیں گے ، نہ ہی مظلوم طبقات کی دادرسی ہوگی، نہ ہیومن رائٹس کی پاسداری ہوگی اور نہ ہی قانون اور آئین کو نافذ کیا جاسکے گا۔وکلاء تنظیموں نے پہلے ہی ایک قدم آگے بڑھ کرپی ڈی ایم کے سیاسی مطالبات کی کھل کر حمایت کی ہے۔ہمیں یورپی ممالک سے سبق حاصل کرنا ہوگا جنہوں نے میگنا کارٹا کے ذریعے 1215ء میں جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ میںفلاحی ریاست کا تصور منہ چڑھ کر بول رہا ہے، جہاں ریاست اور عوام کے درمیان رشتہ گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔یہی طریقہ کسی بھی قوم کی ترقی ، امن اور خوشحالی کا ضامن بن سکتا ہے جس کو حاصل کرنے کی تمام تر ذمہ داری پی ڈی ایم کی قیادت پر آن پڑی ہے تحریک انصاف کی حکومت اپنے غیر جمہوری ، غیر اخلاقی اور عوام دشمن طرزعمل کی وجہ سے عوام کی نظروں میں اپنا مقام کھو چکی ہے اور اسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہے کہ عوامی امنگوں کے اس دور میں عوام کی منشا اور انکی حمایت کے بغیر بھی کسی سیاسی نظام کو چلایا جا سکتا ہے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کو اس بات کا ادراک ہو جانا چاہئے کہ حقائق کسی حکمران کی مرضی اور انا کے مطابق نہیں ڈھلتے، وہ حقائق ہی رہتے ہیں۔اور یہ کہ کسی مضبوط ادارے ، قانونی ماہرین اور غیر آزمودہ مفروضوں کی آڑ لے کرقوم کو اس بحران سے نہیں نکالا جا سکتا۔

تازہ ترین