• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیشنل بریسٹ کینسر فائونڈیشن‘‘ کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں اکتوبر کا پورا مہینہ ’’بریسٹ کینسر آگہی‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہر سطح تک مرض سے متعلق معلومات عام کرنا ہے کہ اگر خدانخواستہ کوئی خاتون اس مرض کا شکار ہوجائے، تو ابتدائی مرحلے ہی میں، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فوری معالج سے رابطہ کرلیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 83,000خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں، جب کہ40ہزار سے زائد لقمۂ اجل بن جاتی ہیں۔عموماً بریسٹ کینسر کی شرح اُن خواتین میں بُلند ہے،جوسن ِیاس ( مینوپاز)کی عُمر میں داخل ہوچُکی ہوں،لیکن اب کم عُمر لڑکیاں بھی اس مرض کا شکار ہورہی ہیں۔واضح رہے کہ دُنیا بَھر میں خواتین میں ہونے والے کینسرز میں بریسٹ کینسر سرِفہرست ہے۔

ہمارے جسم میں ایک منظّم طریقے سے نئے خلیات بنتے اور پُرانے ختم ہوتے رہتے ہیں،لیکن جب جسم کے کسی بھی حصّے میں خلیات کا توازن بگڑجائے تو وہاں اضافی خلیات رسولی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جسے سرطان کہا جاتا ہے۔بریسٹ، جسم کا ایک ایساحصّہ ہے، جس میں چربی کے ساتھ نالیاں (Ducts) اور لوبز (Lobes) پائی جاتی ہیں، جب ان نالیوں یا لوبز کے ٹشوز میں کسی بھی وجہ سے خلیات کی غیر معمولی اور بے ترتیب افزایش ہونے لگے، تویہ عمل بریسٹ کینسر کا محرّک ثابت ہوتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی واضح علامت گلٹی ہے،مگر ضروری نہیں کہ ہر کیس میں پہلےگلٹی ظاہر ہو یا ہر گلٹی سرطان کی ہو،لہٰذا مستند تشخیص کے لیے معالج سے رابطہ ضروری ہے۔ تاہم،بریسٹ کینسر کی دیگر علامات میں بغل میں گلٹی، نِپل سےخون یا رطوبت کا اخراج، نِپل اندر دھنس جانا، خلیات سے چپک جانا،بریسٹ میں درد، رنگت بدل جانا اور کھال میں نارنگی کے چھلکے کی طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ بننا،جو طبّی اصطلاح میںPeaud Orange کہلاتا ہے،شامل ہیں۔عام طور پرابتدا میں گلٹی میں درد محسوس نہیں ہوتا، مگر جوں جوںحجم بڑھتا جاتاہے، درد محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنے مرض سے اُس وقت تک لاعلم رہتی ہیں، جب تک اس میں درد نہ ہو۔ 

بعض اوقات گلٹی بریسٹ کی بجائے بغل کے غدود ایگزیلری نوڈز(Axillary Nodes) میں بن جاتی ہے۔اصل میں رسولی بریسٹ کے اندر ہی بننا شروع ہوتی ہے، مگر محسوس نہیں ہوپاتی یا یہ بھی ممکن ہے کہ سرطان جسم کے کسی اور حصّے کا ہو اور بغل کے غدود تک پھیل کر گلٹی کی صُورت ظاہرہو ۔واضح رہے کہ جب سرطان جسم کے کسی اور حصّے سےشروع ہوکر بغل کے غدود تک پھیل جائے تو طبّی اصطلاح میں اسےمیٹااسٹیٹک کینسر (Metastatic cancer)کہا جاتا ہے۔ 

چوں کہ زیادہ تر کیسز میں سرطان کے خلیات بریسٹ سے نکل کر لمف کے ذریعے بغل کے غدود میں جمع ہوکر گلٹی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں،چناں چہ ضروری ہے کہ خواتین بریسٹ اور بغلوں کا خود باقاعدہ معائنہ خود کریں اور اگر معمول سے ہٹ کر کوئی علامت محسوس ہو، تو معالج سے رابطے میں بالکل تاخیر نہ کی جائے۔

ہمارےیہاں بریسٹ کینسر میں اضافے کی دو اہم وجوہ ہیں۔ اوّل معلومات کا فقدان کہ اکثر خواتین گلٹی محسوس کرتی ہیں، لیکن معلومات نہ ہونے کے سبب توجّہ نہیں دیتیں۔ دوسری جو بہت اہم وجہ ہے، وہ یہ کہ ہمارا معاشرہ آج بھی قدامت پسند ہے، خواتین علامت ظاہر ہونے کے باوجود معالج سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیںاور اسی تاخیر کے سبب قابلِ علاج مرض بھی لاعلاج ہوتا ہے۔یاد رکھیں، کینسر کی تشخیص جس قدر جلد ہوگی، پیچیدگیوں کے امکانات اُتنے کم سے کم ہوں گے۔

بریسٹ کینسر پر کی جانے والی مختلف تحقیقات کے مطابق اس مرض کے امکانات اُن خواتین میں زیادہ بڑھ جاتے ہیں، جن کی عُمر پچاس سال سے زائد ہو یا ماہ واری بندہوچُکی ہو۔ علاوہ ازیں،گیارہ سال کی عُمر سے قبل ماہ واری آ نے اور والدہ، بہن، خالہ،نانی، دادی وغیرہ کو یہ مرض لاحق ہونے کے سبب بھی مرض لاحق ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نیز،40سال یا اس سے زائد عُمر میں پہلا حمل ٹھہرنا، بانجھ پَن، مانع حمل ادویہ، موٹاپا، غلط رہن سہن اور غیر متوازن غذائوں کا استعمال وغیرہ بھی محرّکات بن سکتے ہیں۔

اگرکوئی خاتون گلٹی محسوس کرے،تو فوری طور پر فیملی فزیشن سے رجوع کرے، افاقہ نہ ہونے کی صُورت میں انکولوجسٹ سے رابطہ کیا جائے، تاکہ گلٹی کا اصل مقام، حجم، نوعیت اور شدّت وغیرہ سے متعلق درست جانچہوسکے۔ تشخیص کے لیے میموگرافی اور الٹراسائونڈ تجویز کیے جاتے ہیں، جنہیں اسکریننگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ میموگرافی بریسٹ کا ایکس رے ہے، جو بریسٹ میں موجود چھوٹی سے چھوٹی گلٹی بھی ظاہر کردیتا ہے، جب کہ الٹرا سائونڈ کے ذریعے بھی ہر قسم کی رسولیاں تشخیص کی جاسکتی ہیں۔ اگر مریضہ کی عُمر چالیس سال سے کم ہو تو الٹرا سائونڈ، جب کہ بڑی عُمر کی خواتین کے لیے میموگرافی تجویز کی جاتی ہے۔تشخیص کے اگلے مرحلے میں ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کے ذریعے یہ جانچا جاتا ہے کہ سرطان جسم میں کس حد تک پھیل چُکا ہے۔

تاہم، حتمی تشخیص کے لیے بائیوآپسی ہی کروائی جاتی ہے۔ اصل میں بائیوآپسی کے ذریعے کئی طرح کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔جیسے گلٹی سرطان زدہ ہے بھی یا نہیں یا پھر کینسر کی کون سی قسم ہے وغیرہ وغیرہ۔ نیز، اسی رپورٹ کے ذریعے ای آر (ER)، پی آر (PR)، ہر ٹو نیو(HER 2 NEU)اورریسیپٹر اسٹیٹس کا بھی پتا چلتا ہے اور ان ہی معلومات کی بنیاد پر علاج کا طریقۂ کار تجویز کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ ہارمون ریسیپٹر اسٹیٹس کہلاتا ہے، جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ آیا ہارمونل تھراپی کے ذریعے سرطان مزید بڑھنے سے روکا بھی جاسکتا ہے یا نہیں۔ اگر ریسیپٹر ٹیسٹ پازیٹو ہو تو پھر ہارمونل تھراپی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

اگر ای آر اسٹیٹس پازیٹو ہو، تو طبّی اعتبار سے یہ ایک اچھی علامت تصوّر کی جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ مریضہ کی عُمر، سرطان کی قسم، ٹیومر کا پھیلائو اور سرطان کا ہارمونل اسٹیٹس بھی بےحد اہمیت رکھتا ہے۔نیز،کئی ٹیسٹ مالیکیولر لیول کے بھی کروائے جاتے ہیں،جو خاصے منہگے ہوتے ہیں، لیکن ان تمام ٹیسٹس کی رپورٹس کی روشنی میںانکولوجسٹ اور اس کی ٹیم یہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ سرطان علاج کےبعدمکمل طور پر ختم ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اگر علاج کے بعد سرطان مکمل طور پر ختم ہونے کے زیادہ امکانات پائے جائیں، تو طبّی اصطلاح میں اسے"Good Prognosis" کہتے ہیں، جب کہ اگر مریضہ کی عُمر کم ہو، ای آر ہارمونل اسٹیٹس نیگیٹو ہو یا پھر سرطان بہت زیادہ پھیل چُکا ہو، تو علاج کروانے کے باوجود مرض دوبارہ لاحق ہوسکتا ہے تو اسے"Bad Prognosis"کہا جاتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی کچھ اقسام شدید نوعیت کی، تو بعض کی نوعیت درمیانی اور معمولی ہوتی ہے۔ ایک قسم طبّی اصطلاح میں Ductal کہلاتی ہے،جو سب سے عام ہے۔ اگرسرطان کی یہ قسم صرف لوبز میں موجود ہو(طبّی اصطلاح میں اِسےLobular Carcinoma in Situکہتے ہیں)اور بروقت تشخیص ہوجائے تو اس کا باآسانی علاج ممکن ہے۔تاخیر کی صُورت میں یہInvasive Carcinomaمیں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ سرطان اب بریسٹ کی نالیوں سے نکل کر جسم کے دیگر حصّوں میں پھیلنا شروع ہوچُکا ہے۔ سرطان کی ایک قسم Triple-Negative Cancerہے،جس میں تمام ہارمونل ریسیپٹر نیگیٹو ہوتے ہیں۔ 

ٹرپل نیگیٹو کینسر انتہائی مختصر عرصے میں دماغ تک پھیل جاتا ہے۔ یہ اس قدر شدید نوعیت کاہوتاہے کہ ہارمونل تھراپی بھی اسے مزید بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔ سرطان کی ایک اور قسمInflammatory Breast Cancerہے، جس میں بعض اوقات کوئی گلٹی محسوس نہیں ہوتی، بلکہ سرطان کے خلیات بریسٹ کی کھال اور لمفیٹکس میں سرایت کرکے لمف کا بہائو روک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے بریسٹ متوّرم ہو کر سُرخی مائل ہوجاتی ہے اور شدید درد بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کا سرطان خطرناک ثابت ہوتا ہے۔بریسٹ کی ایک اور بیماری جوMastitis کہلاتی ہے،اس کی بھی علامات تقریباً انفلیمیٹری بریسٹ کینسر سے ملتی جُلتی ہیں،مگر اس کا علاج اینٹی بائیوٹکس کے ذریعےکیا جاتا ہے۔ سرطان کی تمام اقسام کا علاج بروقت نہ ہو تو یہ خطرناک حد تک دماغ، پھیپھڑوں اور جگر میں پھیل جاتا ہے۔ چوں کہ سرطان کا علاج انتہائی منہگا ہے، اِسی لیے انکولوجسٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسا طریقۂ علاج تجویز کریں، جو کم سے کم اخراجات میں بہتر نتائج کا حامل ہو۔

سرطان کا علاج اس کی قسم اور مراحل کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ اگر سرطان کی گلٹی حجم میں چھوٹی اور صرف بریسٹ تک محدود ہو یا صرف قریبی غدود تک پھیلی ہو، تو اسے اسٹیج وَن یا ٹو میں شمار کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کسی دوسرے غدود میں، جو بریسٹ سے ذرا فاصلے پر ہو یا جسم کے کسی اورعضو تک پھیل جائے، تو یہ تیسری یا چوتھی اسٹیج کہلاتی ہے۔بریسٹ کینسر کا حتمی علاج سرجری ہے۔ تاہم، بعض کیسز میں صرفLumpectomy کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض میں بریسٹ ریمو وکردی جاتی ہے۔ یاد رہے، بریسٹ کینسر کی سرجری جس قدر جلدہوگی، نتائج اُتنے ہی بہتر ملیں گے اور دوبارہ سرطان بننے کے امکانات بھی کم ہوں گے۔ 

لیکن اگر سرطان جسم کے کسی دوسرے حصّے تک پھیل جائے، تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ اس صُورت میں آپریشن کرنا خاصا مشکل امر بن جاتا ہے۔ واضح رہے، اگر مریضہ کی عُمر کم یا ٹیومر کا حجم چھوٹا ہے، تو زیادہ تر سرجنزLumpectomy تجویز کرتے ہیں۔اسے"Breast Conservative Surgery"بھی کہا جاتا ہے۔ اس طریقۂ علاج میں بریسٹ سے صرف ٹیومر نکالا جاتا ہے، جب کہ Mastectomy میں پوری بریسٹ ہی ریمو وکردی جاتی ہے۔ ان دونوں آپریشنز میں بغل کے غدود کا کچھ حصُہ نکال کر بائیوآپسی کروائی جاتی ہے ،تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ آیا سرطان بغل کے غدود میں پھیلا ہوا ہے یا نہیں۔ کیوں کہ اگر سرطان بغل کے غدود تک پھیل جائے تو پھر کیموتھراپی کی جاتی ہے۔ 

یاد رکھیے، بریسٹ کینسر کے علاج میںمیں سب سےضروری سرجری اور اس کے بعد شعاؤں سے علاج ہے۔ اگر سرطان آئی آر پازیٹیو ہو تو ہارمونل دوا تجویز کی جاتی ہے، جو تقریباً دس سال تک باقاعدگی سے استعمال کرنی پڑتی ہے۔ گرچہ یہ دوا دوبارہ مرض لاحق ہونے کے امکانات کم کردیتی ہے، مگر طویل عرصے تک دوا استعمال کرنے کے نتیجے میں بچّے دانی کے سرطان کےخطرات بڑھ جاتےہیں۔ اگراس دوا کے استعمال سے ماہ واری زیادہ آئے یا کوئی غیر معمولی علامت ظاہر ہو تو فوراً معالج سے رابطہ کیا جائے۔

اگرHer 2 Neu Positive cancer ہو، تو پھر Herceptinکے انجیکشنز لگائے جاتے ہیں۔ اگر گلٹی کا حجم خاصا بڑا ہو، تو سرجری سے پہلے کمیوتھراپی تجویز کی جاتی ہے، تاکہ حجم کم ہونے پر سرجری کی جاسکے۔بعد ازاں، شعاؤں کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ کیموتھراپی سے قبل معالج کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کہیں مریضہ دِل کے کسی عارضے یا ذیابطیس کا شکار تو نہیں۔کیوں کہ ان عوارض کے سبب کیموتھراپی کی ادویہ کی ڈوز بہت احتیاط سے دی جاتی ہے۔ کیموتھراپی کے بعد عموماً پیچش، الٹیاں ہوسکتی ہیں یا خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔

یہ سب وقتی ضمنی اثرات ہیں،جن سے مریضہ اور اس کے اہلِ خانہ کوپہلے سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔چوں کہ علاج کے بعد مرض لوٹ آنے کے خطرات رہتے ہیں، اس لیے معالج سے لازماً رابطے میں رہا جائے۔ عمومی طور پر تجویز کردہ علاج مکمل ہونے کے بعد مریضہ کا دو ہفتے بعد معائنہ کیا جاتا ہے، اگر حالت اطمینان بخش ہو تو پھر مہینے میں ایک بار، اس کے بعد تین سال تک ہر تین سے چھے ماہ بعد ایک بار اور پانچ سال بعد سال میں ایک بار معائنے کے لیے بلوایا جاتا ہے۔

چوں کہ اِمسال کورونا وائرس کے سبب معالجین کو کئی پیچیدہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، تو اس ضمن میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ مثلاً معالجین، طبّی عملہ اور مریض، خاص طور پر جن کی کیموتھراپی ہورہی ہو(کیوں کہ مریضوں کی وقتی طور پرقوّتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے) پی پی ای استعمال کریں،بُلند فشارِ خون اور ذیا بطیس سے متاثرہ مریضوں کی خاص دیکھ بھال کی جائے، آپریشن تھیٹر میں کم سے کم وقت میں سرجری مکمل کی جائے،ممکن ہوتو مریضہ کی بریسٹ کاسمیٹک سرجری یاNipple Reconstructionبعد میں کردی جائے۔ وہ مریض جو کورونا وائرس کی وجہ سے سرجری نہیں کرواسکتے، ان کے سرطان کا ہارمونل اسٹیٹس جانچا جائے، پازیٹو ہونے کی صُورت میں اورل ہارمونل دوا تجویز کی جائے۔

بریسٹ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین روزمرّہ معمولات میں تبدیلی لائیں۔مثلاً ورزش کومعمول کا حصّہ بنالیا جائے، صحت و صفائی کا خاص خیال، وزن کنٹرول میں رکھیں،بچّے کی پیدایش سے لے کر مقررہ مدّت تک لازماً اپنا دودھ پلائیں، متوازن غذا خاص طور پر تازہ پھل اور سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں،وہ خواتین جن کی عُمر40 سال سے زائدہو، سن یاس کی شکار ہوں اور جن کی فیملی ہسٹری میں بریسٹ کینسر پایا جاتا ہو،ہر چھے ماہ بعد میموگرافی کروائیں اورخود بھی باقاعدگی سے بریسٹ اور بغلوں کا معائنہ کرتی رہیں، تاکہ اگر کوئی گلٹی یا زخم محسوس ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کیا جاسکے۔

ریڈی ایشن کیا ہے؟

یہ ایکس رے مشین سے خارج ہونے والی مخصوص شعاؤں کا علاج ہے،جس سے کسی قسم کا درد نہیں ہوتا،البتہ دورانِ علاج تھکاوٹ ،بھوک کم لگنے اور بریسٹ کی کھال میں سُرخی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔دوران علاج بریسٹ اور سینے کا خاص خیال رکھا جائے، ڈھیلے ڈھالے ملبوسات استعمال کیے جائیں، ایسے لباس کے استعمال سے گریز کریں، جس سے رگڑ لگنے کا اندیشہ ہو۔ 

جس جگہ ریڈی ایشن کی جارہی ہو، وہاں کی جِلد خشک نہ رہنے دیں، کوئی موئسچرائزنگ لوشن یا ہلکا سا تیل لگا کر رکھیں۔ کیوں کہ خشکی کے سبب جِلد پھٹ جاتی ہے یا جگہ جگہ سے اکھڑنے لگتی ہے،جب کہ شعاؤں کے منفی اثرات بھی مرتّب ہوسکتے ہیں۔ اگر جِلد میں سُرخی محسوس ہو یا کھال اُتر رہی ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ریڈی ایشن کے علاج کے دوران ہفتے میں ایک بار اپنے معالج سے معائنہ کروائیں، جب کہ علاج مکمل ہونے کے بعد بھی فالو اپ جاری رکھیں۔

دورانِ حمل بریسٹ کینسر تشخیص ہوجائے تو…؟؟

حمل کے دوران بریسٹ کینسر تشخیص ہونا ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس طرح کے کیسزمیں دو باتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ایک تو علاج کا طریقۂ کار ایسا ہو، جس سے مرض ختم ہوجائےاور مزید نہ پھیلے۔دوم، بچّے کی صحت پرعلاج کے ضمنی اثرات مرتّب نہ ہونے پائیں۔ زیادہ ترکیسز میں سرجری کو ترجیح دی جاتی ہے، بشرطیکہ سرطان جسم کے باقی حصّوں تک پھیلا ہوا نہ ہو۔ اور زچگی کے بعد علاج کے باقی مراحل پورے کیے جاتے ہیں۔موجودہ دَور میں کیموتھراپی کی ایسی جدید ادویہ دستیاب ہیں، جو حمل کے دوران دی جاسکتی ہیں۔

تاہم،کیموتھراپی تب ہی تجویز کی جاتی ہے، جب حمل کی مدّت بارہ ہفتے سے زائد یعنی تین ماہ ہو، کیوں کہ ان تین ماہ کے دوران حمل میچور ہورہا ہوتا ہے۔ دورانِ حمل بریسٹ کینسر کی وجہ سے جن خواتین کی جان کو خطرہ ہو یا کسی بھی وجہ سے سرجری نہ ہو پائے، تو پھر کیموتھراپی بہت احتیاط سے دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے ضمنی اثرات حمل پر مرتّب ہوسکتے ہیں۔بعض اوقات تو حمل تک ضایع ہوجاتا ہے۔ تاہم، ڈاکٹرز کی اوّلین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ حمل کے دوران صرف سرجری کی جائے کہ ریڈی ایشن زچگی کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔

(مضمون نگار، ضیاء الدین یونی ورسٹی اسپتال کے شعبہ انکولوجی سے منسلک ہیں)

تازہ ترین