• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعمیرات میں جہاں کسی بھی عمارت کی ظاہری خوبصورتی کا خیال رکھا جاتا ہے، وہیں اس کی بنیادی اور ڈھانچہ جاتی مضبوطی بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔ کسی بھی گھر، بنگلے، اپارٹمنٹ یا عمارت کے لیے اس کی بنیادوں سے لے لر آخری اینٹ کی چنائی تک پائیداری و مضبوطی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس بات کی اہمیت کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ غیر معیاری مٹیریل سے بنی عمارتیں دیکھتے دیکھتے کیسے ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔

ماضی کی مغلیہ اور انگریز ادوار کی عمارتوں کو دیکھا جائے تو وہ آج بھی اپنی پائیداری اور مضبوطی کے حوالے سے معیار مانی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تعمیر میں معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا گیا تھا۔اس حوالے سے پہلی صدی قبل مسیح کے رومن مصنف، ماہر تعمیر، سول انجینئر اور ملٹری انجینئر مارکَس وِٹروویئس پولیو نے اپنی کتاب ’ڈی آرکیٹیکچورا‘ میں بھی تعمیرات کے بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالی ہے جن میں مضبوطی واستحکام، کارآمد و قابل استعمال اور خوبصورتی ودلکشی شامل ہیں۔

ڈھانچے اور بنیاد کی مضبوطی

جب کوئی مکان تعمیر کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیاجاتا ہے کہ وہ کس قسم کی زمین پر بن رہا ہے۔ اگر زمین ناقص ہے تو مسالا مضبوط رکھا جاتا ہے اور بنیاد ڈالنے سے پہلے کم از کم بیس فٹ گہرائی میں گڑھا کھودا جاتا ہے۔ اسے مضبوط اور پائیدار پتھروں سے بھرا جاتا ہے تاکہ اس کے نیچے کی زمین کا تعمیراتی ڈھانچے پر اثر نہ پڑے اور اگر آپ کثیر المنزلہ مکان بنانے کے خواہاں ہیں تو مضبوط بنیا د اسے سہارنے میں ممد و معاون ہو۔ 

اس کے بعد مرحلہ آتا ہے بنیاد ڈالنے کا، جس میں بٹومن (تار کول کی طرح کا مادہ) کی زیادہ مقدار اور سریے کا استعمال اسٹرکچر کو پائیدار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے تو دیواریں اٹھاتے وقت استعمال کیے جانے والے بلاکس اور اینٹوں کی ہموار چنائی اہم ہوجاتی ہے۔

ہر اینٹ کو درست جگہ بٹھانا بھی فنِ تعمیر کا کمال شمار ہوتا ہے۔ آجکل انہیں اسمبل بھی کیا جاتا ہے یعنی پلرز اور محرابوں کے ڈھانچے الگ الگ بناکر پھر مکان پر نصب کیے جاتے ہیں۔ ان تمام امور میں اس کلیے کو اوّلیت دی جاتی ہے کہ مکان کے ڈیزائن کی خاطر بنیاد کی مضبوطی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

روشنی اور ہوا کیلئے گنجائش

یہ وہ بنیادی اصول اور ضابطہ ہے جس کا خیال کسی بھی عمارت کے تعمیراتی مٹیریل کواستعما ل کرتے وقت رکھا جاتا ہے۔ بظاہر ہوا اور کشادگی تجریدی الفاظ ہیں جن کا کوئی ٹھوس وجود نہیں لیکن اگر ان لوازم کا خیال نہ رکھا جائے تو چاہے کتنی بھی ٹھوس بنیاد پر کوئی مکان ایستادہ ہو، اسے آپ نمی کے باعث بوسیدگی کے اثرات سے نہیں بچاسکتے۔ اس لیے کسی بھی مکان کے ڈیزائن میں کشادگی کے ساتھ کھڑکیوں اور گیلریوں کا دانشمندانہ استعمال اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ بند گھر نہ صرف حبس اور گھٹن کا باعث بنتا ہے بلکہ کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کو بھی دعوتِ عام دیتا ہے۔ 

کھڑکیوں اور روشن دانوں کا ایک دوسرے کے مقابل ہونا ڈیزائن کا لازمی جزو ہونا چاہیے۔ کھڑکیاں اس انداز سے نصب کی جائیں کہ مکان کے کسی بھی کمرے، باورچی خانے اور غسل خانے میں ہوا کے گزر میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ آجکل المونیم کی نفیس کھڑکیوں اور روشن دانوں کی تنصیب کا رواج ہے لیکن جو سماں لکڑی کی کھڑکیاں باندھتی ہیں اس کا نعم البدل کوئی نہیں۔

آج جب پوری دنیا کو ماحولیاتی آلودگی اور بلند درجہ حرارت کا سامنا ہے تو ایک بار پھر ٹھنڈی تاثیر رکھنے والی لکڑی کی تعمیرات سامنے آرہی ہیں۔ ماہرینِ تعمیرات اب لکڑی، المونیم اور اسٹیل کے حسین امتزاج سے تعمیر سازی پر دھیان دے رہے ہیں، جس میں کرسٹل کے استعمال کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے، ساتھ ہی پتھر کے استعمال پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ پوری دنیا میں سبز مکانات کا تصور ہی اس فلاسفی پر مبنی ہے کہ ہوادار گھر کے بغیر ہمارا جینا محال ہے۔

خوبصورتی ودلکشی

مضبوطی وسہولت کے ساتھ اگر عمارت خوبصورت اور دلکش نہ ہو تو عمارت کی دیگر خوبیاں جیسے مضبوطی وغیرہ بے معنی ہوجاتی ہیں۔ آرکیٹیکچرل ڈیزائن میں جمالیاتی ذوق آشکار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوبصورتی و دلکشی کے تیسرے سنہری اصول کے ساتھ پہلے دو بنیادی اصول مل کر عمارت سازی کے فن کو تکمیل کا درجہ دیتے ہیں۔ بدنما عمارت چاہے کتنی ہی مضبوط وکارآمد کیوں نہ ہو، دیکھنے والی نظروں کو نہیں بھاتی۔ فطرت میں خوبصورتی ودلکشی کے بغیر کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ دنیا بھر میں ایسی کئی عمارتیں موجود ہیں، جو خوبصورتی اور منفرد طرزِ تعمیر کے باعث لوگوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ 

دنیا کے ہر کونے میں منفرد طرزِ تعمیرات کا رجحان زور پکڑگیا ہے۔ عمارت کا طرزِ تعمیر اسے وہ خوبصورتی و دلکشی عطا کرتا ہے، جس کی آغوش میں مضبوطی بھی ہوتی ہے اور مکینوں کے لیے کشادگی بھی۔ اس طرح مضبوطی، سہولت اور خوبصورتی کے امتزاج سے تعمیرشدہ عمارتیں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں اوروہ ان سے دلی لگاؤ محسوس کرتے ہیں۔

تازہ ترین