امریکا کی ایک ماہر صحت و غذائیت کا کہنا ہے کہ کیٹو ڈائٹ جلد وزن کم کرنے کے لیے بہترین ہے لیکن اس کے جسم میں دیرپا منفی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ ہماری صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کیٹو ڈائٹ سے وزن کم کرنا پہلی مرتبہ سن 1924 میں متعارف کیا گیا تھا۔ اُس وقت کیٹو جینک فوڈ مرگی کے مریضوں کو پڑنے والے دورے کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ جس کے بعد سن 1970 کی دہائی میں کیٹو ڈائٹ سے وزن کم کرنے کو مقبولیت ملی۔
امریکا میں رہنے والی ماہر خوراک و غذائیت ’سارا ہیمڈان‘ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی کو کیٹو جینک خوراک استعمال کرنے کا مشورہ نہیں دیتیں کیونکہ اس کے جسم میں دیرپا منفی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ کیٹو جینیک فوڈز سے صحت کو لاحق ہونے والے خطرات کو مفید خیال نہیں کرتیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ کیٹو فوڈز کے استعمال سے دیگر خطرناک بیماریوں کے ساتھ ساتھ جگر اور گردے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
سارہ کا کہنا ہے کہ وہ وزن کم کرنے کے لیے طویل دورانیے کے مؤثر اور محفوظ طریقوں کو انسانی صحت کے لیے بہتر خیال کرتی ہیں کیونکہ یہ فوری نہیں ہوتے مگرصحت کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہوتے۔ معالجین کا کہنا ہے کہ جلد وزن کم کرنے سے انسانی جسم کے بعض اعضاء پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
کیٹو جینک ڈائٹ کیا ہے؟
کیٹو جینک ڈائٹ ایک ایسی خوراک ہے جس میں چکنائی کی مقدار بہت زیادہ اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ اس ڈائٹ میں تقریباً 70 فیصد چکنائی، 25 فیصد پروٹین اور تقریباً 5 فیصد کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں۔
انسانی جسم شکر یا گلوکوز سے توانائی پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے کئی اتھلیٹس یا وزن کم کرنے کے خواہشمند افراد ورزش کے بعد خالی پیٹ یا بھوکا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں جسم اندرونی چربی کو استعمال کر کے توانائی حاصل کرتا ہے۔
ایسا مسلسل کرنے سے انسانی جسم میں موجود کیٹو کے استعمال کا عادی ہو جاتا ہے اور اس تبدیلی کو کیٹوسِس (Ketosis) کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انسانی جسم کا انحصار اب انسانی جسم میں پائی جانے والی چربی پر منتقل ہو گیا ہے یعنی جسم توانائی شکر سے نہیں بلکہ چربی سے حاصل کرتا ہے۔ کیٹوسِس کا عمل دو سے چار دنوں میں شروع ہو جاتا ہے۔
کیٹو جینک ڈائٹ کا مطلب یہ بھی ہے کہ بدن میں کاربوہائیڈریٹ رکھنے والی خوراک صرف پچاس گرام تک محدود کر دی جائے۔ پچاس گرام سے جسم کو صرف دس کیلوریز ملتی ہیں اور بقیہ نوے فیصد کیلوریز پروٹین اور فیٹ یا چربی سے حاصل کی جائے۔
دوسری جانب ماہرین غذائیت نوجوانوں کے سوا 2 سو سے سوا 3 سو گرام کاربوہائیڈریٹس کو جذب کرنے کو صحت مند خیال کرتے ہیں۔ اتنے کاربوہائیڈریٹس ایک کیلے اور ایک کپ اُبلے چاولوں میں ہوتے ہیں۔ یہ انسانی جسم میں 45 سے 60 فیصد کیلوریز کے مساوی ہے۔ اس سے زیادہ کاربوہائیڈریٹس موٹاپے کا باعث بنتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کیٹوجینک فوڈ وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور اس سے خون میں موجود شکر کی سطح کم ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ توانائی حاصل کرنے کے لیے شکر سے چربی کی جانب منتقلی سے فلو کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور اسے کیٹو فلو کہتے ہیں۔ اس دوران سردرد، متلی اور تھکاوٹ بھی محسوس کی جاتی ہے۔ کیٹو فلو نقصان دہ نہیںہوتا اور دو تین ہفتوں میں جسم کی حالت بہتر ہو جاتی ہے۔
بعض اوقات انسانی مسلز یا پٹھوں میں کھچاؤ اور سانس لینے میں دقت بھی محسوس ہوتی ہے۔ بعض میڈیکل ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ کیٹو جینیک ڈائٹ خون میں کولیسٹرول کی زیادتی کا باعث بھی بنتی ہے۔اس کے علاوہ جسم میں سوزش پیدا کرنے کے امکان کوبھی بڑھا دیتی ہے۔
سارا ہیمڈان نے مزید کہا کہ سوزش کے امکانات بڑھنے سے دل کا عارضہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ اُن کے مطابق ایسی خوراک چھوڑنے کے بعد سائیڈ ایفیکٹس میں ذیابیطس کے ساتھ ساتھ موٹاپا بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت گردے کے عوارض کے علاج میں کیٹو جینیک ڈائٹ کے فائدہ مند ہونے پر بھی تحقیق جاری ہے۔