• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:پرویز فتح۔۔۔ لیڈز
وطن عزیز کی99فیصد آبادی کو اس بات کی خبرنہ ہوگی کہ پاکستان کے زیرانتظام علاقے گلگت بلتستان میں ہزاروں شہری احتجاج کررہے ہیں ۔ یہ اپنے پیاروں کی رہائی اور جھوٹے و بے بنیاد مقدمات کا خاتمہ کرکے انقلابی رہنما بابا جان، افتخار حسین، علیم خان اور ان کے دیگر11ساتھیوں کی باعزت رہا ئی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے عوام نے ہندوستان کے بٹوارے کے بعد کشمیر کے راجہ سے لڑ کر آزادی حاصل کی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا جب کہ ہندوستان کشمیر کے ساتھ گلگت بلتستان کو بھی ایک متنازع علاقہ قرار دیتا ہے۔ پاکستان نے پہلے اس کا الحاق آزاد کشمیر کے ساتھ کردیا جو بعدازاں معاہدہ کراچی کے تحت پاکستان کے انتظام والے کشمیر (آزاد کشمیر) کی انتظامیہ نے پاکستان کے حوالے کردیا اور1970ء سے شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جانے لگا اوراسے طویل عرصہ تک FCRنامی قانون کے تحت ہی چلایا گیا اور یہاں کے عوام کو نہ ہی پاکستانی قانون کے تحت حقوق و تحفظ ملا اور نہ ہی آزاد کشمیر کے تحت جوFCRقانون ان پر لاگو کیا جاتا تھا وہ انگریز سامراج نے اپنے برصغیر پر تسلط کے دوران قبائلی علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے2009ء میں اصلاحات کرکے کچھ قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی یہاں کے شہریوں کو پاکستان کے دستور میں دئیے گئے حقوق نہ مل سکے اور آج بھی یہاں کے شہریوں کی دستوری و سماجی صورت حال کا تعین نہ کیا جاسکا۔ ایک طرف وہ تنازع کشمیر کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ان کی پاکستانی انتظام والے کشمیر والی بھی حیثیت نہیں ہے۔بابا جان کا تعلق ایک محنت کش گھرانے سے ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ ایک روشن خیال وسیع النظر ذہن کے مالک تھے اور مظلوم، و محکوم اور پسے ہوئے عوام کا دکھ برداشت نہیں کرپاتے تھے۔ ذاتی مطالعہ، سیاسیات، سماجی علوم پر دسترس حاصل کی تو ایک انقلابی کارکن بن گئے۔ جنوری2010ء میں موسمیاتی تبدیلیوں اور ہنزہ کے علاقہ میں لینڈ سلائیڈنگ نے پاکستان میں ایک ہلچل مچا دی اور ہنزہ لینڈ سلائیڈنگ ملکی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں خبروں کا مرکز بنا رہا۔ البتہ اس بات کی کسی کو فکر نہ ہوئی کہ یہاں کے عوام پر کیا قیامت گزری۔ لینڈ سلائیڈنگ سے دریائے ہنزہ بند ہوگیا اور پیچھے ایک بہت بڑی جھیل بن گئی جس کو سیرو تفریح کے شوقین سیاح عطاء آباد جھیل کے نام سے جانتے ہیں۔ اس جھیل کے بننے سے ہنزہ کے علاقہ کے بے شمار گائوں صفہ ہستی سے مٹ گئے۔ ہزاروں گھرانوں کے گھربار، مویشی، زرعی زمین کا نام و نشان میں بھٹکتے رہے۔ جس شاہراہ قراقرم کا پاکستان کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے معاشرتی علوم میں بڑے فخر سے ذکر کیا جاتا ہے، اس ہائی وے کے ذریعے پاکستان سے رابطہ تک ٹوٹ گیا۔حکومت اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے مالی معاونت کا اعلان کیا گیا، لیکن وہ چند سو خاندانوں کو ہی مل سکا جن کی مقامی انتظامیہ تک رسائی تھی۔ غریب، مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں تک کوئی معاونت نہ پہنچ پائی۔ مجبور و بے کس لوگ مظاہرے کرنے لگے جو بعدازاں پرتشدد مظاہروں کی شکل اختیار کرگئے۔ بابا جان اور ان کے ساتھیوں نے بڑی کوشش کی کہ مظاہرے پرامن رہیں اور بھرپور آواز اٹھاکر غریب اور بے سہارا لوگوں کو چھت دلوانے کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ انہوں نے بڑے منظم طریقے سے اس حقوق کی تحریک کو پرامن رکھنے کی کوشش کی لیکن اشرافیہ اور مقامی انتظامیہ کے نمائندوں کوئی رعایت اور مالی اعانت نہ دینے کا تہیہ کرلیا اور اس آگ کو بھڑکا کر کچلنے کو ترجیح دی۔ یہ بات اب عیاں ہوچکی ہے کہ11اگست2011ء کو علی آباد کے علاقے میں پولیس نے غیر مسلح اور پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلا دی جس سے بہت سے لوگ زخمی ہوگئے اور ایک22سالہ نوجوان افضل بیگ اور اس کا والد شیر اللہ بیگ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ بابا جان تو اس روز مظاہرے میں شریک بھی نہ تھے۔ البتہ اس کے بعد بابا جان اور ان کے ساتھیوں نے بھرپور مظاہرے کیے اور مطالبہ کیا کہ ذمہ دار انتظامیہ کے خلاف مقدمہ بنایا جائے۔ ایک غیر جانبدار ٹریبونل بناکر سارے واقعے کی تحقیقات کی جائے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ انہوں نے عطاء آباد جھیل کے متاثرین کی بحالی کی جدوجہد بھی جاری رکھی، یہی اس کی سیاست کا مظہر تھا۔ پولیس نے الٹا بابا جان اور ان کے درجن بھر ساتھیوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات بناکر ان ساتھیوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات بناکر ان پر بے پناہ تشدد کیا۔ حتیٰ کہ ان کے زخموں کا علاج بھی نہ کرایا گیا۔ نومبر2012ء میں بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں نے باہمی انضمام سے عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی تو بابا جان کو اس کا نائب صدر منتخب کرلیا۔ بعد ازاں 2015ء میں گلگت بلتستان میں انتخابات ہوئے تو بابا جان نے جیل سے ہی عوامی ورکرز پارٹی کے ٹکٹ پر ان انتخابات میں حصہ لیا۔ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ان انتخابات کی مہم تو بابا جان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے کی وجہ سے نہ چلا سکے لیکن پھر بھی وہ دوسرے نمبر پر آئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ 2016ء میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بابا جان کے کاغذات مسترد کردئیے۔ اس کے خلاف اپیل کی تو وہ بھی خارج کردی گئی اور بابا جان کو انتخابی سیاسی سے باہر کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بابا جان کو گرفتار کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، انتخابات میں شرکت پر پابندی لگائی گئی تو ن لیگ کی حکومت تھی۔ گو تحریک انصاف اس سارے عمل میں بابا جان کی رہائی اور جھوٹے مقدمات کے خاتمہ کا مطالبہ کرتی تھی، مگر ان کی حکومت آئی تو بھی بابا جان کی گلگت بلتستان میں ریویو پٹیشن کوسردخانے میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی اور نہ ہی سیاسی قیدیوں سے متعلق رویے میں تبدیلی آئی، بلکہ ملک بھر میں مقدمات ہوئے نیب کے ذریعے بلیک میلنگ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ ملک بھر کا میڈیا تو ایسے خاموش ہے جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ رولنگ الیٹ کے سیاسی رہنما اپنے مقدمات کے بارے میں تو بہت چیختے ہیں، مجال ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ایک لفظ کہا ہو کہ ملکی شہری بالخصوص بابا جان اور گلگت بلتستان کے دوسرے سیاسی اسیروں کے خلاف دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات تسلیم کیے جائیں اور انہیں رہا کیا جائے۔ کوئی نہیں کہے گا کہ بدنام زمانہ شیڈول4کے تحت گرفتار ہونے والے اور لاپتہ ہونے والے شہریوں کو بازیاب کرائو،۔ 73برس سے جاگیردار، وڈیرے، قبائلی سرداروں سے لے کر کرپٹ سرمایہ داروں اور لینڈ مافیا سے لے کر بیورو کریسی تک سب بیدردی سے لوٹ رہے ہیں اور وطن عزیز کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جھوٹ اور منافقت تمام حدیں عبور کرچکی ہے۔ یہ وہ تاریک راستے ہیں جو ہم پر مسلط کردیے گئے ہیں اور عام عوام اور شہریوں کو ریاست پاکستان سے دور کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ ہو یا میڈیا، وزیراعظم، وزرا ہوں یا دانشور، تجزیہ کار ہوں یا مولوی سب کے سب بالادست حکمرانوں اور افسر شاہی کی طرف دیکھتے ہیں کہ کیا کچھ کہنے یا سننے کی اجازت ہے۔ ظلم، جبر اور استحصال کا یہ کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا جارہا ہے۔ اگر تھوڑی سی بھی رولنگ ایسٹ میں انسانیت بچی ہوتی تو بھلا پرامن احتجاج پر بابا جان اور ان کے درجن بھر ساتھیوں کو انسداد دہشت گردی کے تحت عمر قید کی سزا نہ سناتے۔ کوئی تو ایسا ہوتا جو کہتا کہ یہ زیادتی ہے، بعض لوگوں سے میں نے خود سوشل میڈیا پر کمنٹ سنے ہیں کہ بابا جان علیحدگی پسند نیشنلسٹ ہے۔ چھوٹی قومیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ناانصافیوں کی مخالفت ضرور کرتے ہیں اور ان کو برابری اور شہری آزادیاں دینے کے لیے باہر بھی نکلتے ہیں لیکن وہ علیحدگی پسند کبھی نہیں ہوتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نئی سرحدیں کھینچنے سے ان کا استحصال اور بھی بڑھ جائے گا اور مقامی اشرفیہ کے مظالم اور بھی بڑھ جائیں گے، جیسا کہ قائداعظم کے پاکستان میں73برس سے ہورہا ہے۔ لہٰذا ہم ترقی پسند کہ بابا جان اور ان کے ساتھی اپنی ہی سرکار کی ناانصافیوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ ایک انتہائی غریب، محنت کش گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے خطے کے انسانوں کی زندگی میں بہتریاں لانے کے خواب دیکھتے ہیں اور ان کے لیے ہی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن کبھی چلتی ہے، پھر لمبے عرصے کے لیے سرد خانوں میں ڈال دی جاتی ہے۔ اہل اقتدار، سول و ملٹری سے درخواست ہے کہ بابا جان اور ان کے ساتھیوں سمیت تمام سیاسی اسیروں، صحافیوں اور حقوق کے لیے جدوجد کرنے والوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات واپس لیے جائیں۔
تازہ ترین