گزشتہ دو سال سے ملک میں مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن وزیراعظم نوٹس لینے اور وزرا بیانات دینے تک ہی محدود رہے۔ وزیراعظم عمران خان اب تک مہنگائی پر گیارہ نوٹس لے چکے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی نتائج سامنے نہیں آسکے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی وزیراعظم نے نوٹس لیا تو مہنگائی نے کیا کم ہونا تھا وہ اشیاء ہی نا پید ہو گئیں۔اب خدا خیر کرے وزیراعظم نے ایک بارپھرنوٹس لیا ہے۔مہنگائی پر قابو پانے کے لئے وزیراعظم نے پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس کو متحرک کر کے اختیارات دینے کا اعلان کیا ہےجو نا قابل فہم ہے۔کیونکہ حکومتی مشینری اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ادارے موجود ہیں۔ ٹائیگر فورس کو نہ تو آئینی طور پر اور نہ ہی قانونی طور پر اس طرح کے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ دکانوں اور گوداموں کو چیک کر سکیں یا تاجروں سے پوچھ گچھ کر یں۔
اس کے علاوہ کیا ایسے اقدامات سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے، جب بجلی اور گیس کے نرخوں میں روز بروز اضافہ خود حکومت کرتی ہو؟پٹرول اور ڈیزل کے نرخ بڑھتے ہی جاتے ہوں تو باقی تمام چیزوں پر تو خود بخود اثر پڑتا ہے۔اس کے علاوہ چینی اور گندم پہلے یہ کہہ کر بر آمد کی گئی کہ ملکی ضرورت سے زیادہ ہیں۔اب چینی اور گندم کو در آمد کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک میں قلت ہو گئی ہے۔یہ کیا تماشا ہے؟ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے وزیراعظم کو چینی اور گندم کے وافر ذخائر کی موجودگی کا بتایا اور اضافی گندم اور چینی کو بر آمد کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ پھر وزیراعظم کو ان اشیاء کی قلت کا بتا کر درآمد کرنے کی اجازت بھی لے لی۔وزیراعظم نے ان لوگوں کے خلاف نوٹس کیوں نہیں لیا۔ایسے افراد کے خلاف تو سخت کارروائی ہونی چاہئے تھی۔بجلی اور گیس کے بارے میں غلط اعداد و شمار بتا کر ان کے نرخ بڑھانے والے بھی تو حکومت کا اہم ترین حصہ ہیں۔یہی کچھ کورونا کے دوران ہوا، جب پٹرولیم مصنوعات ٹکہ سیر ہو گئی تھیں تو ان کی درآمد روک دی گئی تھی پھر یکدم قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔ان سے بھی کسی نے پوچھ گچھ کی نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔کرے کوئی بھرے کوئی کے مصداق اب عوام اور چھوٹے تاجر ہی نتائج بھگتیں گے۔کیا ہر مشکل اور مہنگائی بھگتنے کے لئے عوام ہی ہیں؟یہ تمام وہ سوالات ہیںجو عوام حکمرانوں سے کر رہے ہیں اور ظاہر ہے جواب بھی حکمران ہی دے سکتے ہیں۔اب عام آدمی کو ریلیف چاہئے۔ادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کرنے کا فائدہ کن کی جیبوں میں جا رہا ہے، یہ بھی حکومت ہی کو معلوم ہوگا؟غریب آدمی کے لئے پہلے دو وقت کی روٹی کھانی مشکل ہو رہی تھی اب تو ایک وقت کی روٹی بھی نا ممکن ہو رہی ہے۔اور یہ سب ان عام لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے جن کی 65فیصد تعداد خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین اور سفید پوش لوگ تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔اور جو لوگ کرایہ کے مکانوں میں رہتے ہیں ان کا حال اور بھی ابتر ہے۔وہ مکان کا کرایہ دیں،بجلی گیس کے بڑھتے ہوئے بل ادا کریں،گھر میں کوئی بیمار ہو اس کے لئے دوا خریدیں،بچوں کی اسکول فیس اور دیگر اخراجات پورے کریں یا روٹی کھائیں،کوئی بھی حکومتی بقراط محدود آمدنی میں ان اخراجات کا حل تو بتائے۔
پی ڈی ایم کا جلسہ
پی ڈی ایم نے پہلا جلسہ 16اکتوبر کو گوجرانوالہ میں کرنے کا نہ صرف اعلان کیا ہے بلکہ اس کے لئے بھرپور تیاریاں بھی کر رکھی ہیں۔جس دن آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس دن 16اکتوبر اور جمعہ کا دن ہوگا۔دعا ہے کہ پی ڈی ایم کا جلسہ خیر و عافیت سے منعقد ہو۔لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت بظاہر اجازت دے کر بھی جلسہ نہیں ہونے دے گی یا اس جلسہ کو ناکام بنانے کے لئے وہی پرانے ہتھکنڈے استعمال کرے گی جو ملک میں اختیار کئے جاتے رہے ہیں حالانکہ اقتدار میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی اپوزیشن کے جلسوں کو کسی بھی طرح روکنے کے خلاف آواز بلند کرتی رہی۔لیکن اب جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت ہے تواپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کے لئے سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ینگ ڈاکٹرز نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کر رکھی ہے کہ کورونا کی وجہ سے جلسوں پر پابندی عائد کی جائے۔بتایا جا تا ہے کہ سڑکیں بند کرنے کے لئے ہر تھانے کے ایس ایچ او کو چالیس کنٹینرز جمع کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں تاکہ سڑکیں بند کی جا سکیں۔
بعض اہم رہنمائوں کو گھروں تک محدود رکھنے کے لئے اقدامات کا بھی امکان ہے۔بڑے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اپوزیشن جماعتوں کے سرگرم کارکنان کو گرفتار کرنے کا بھی سنا ہے، اس لئے بعض اہم رہنمااور کارکنان رو پوش ہو رہے ہیں۔مختصر یہ کہ حکومت ہر طریقہ سے پی ڈی ایم کا گوجرانوالہ کا جلسہ روکنے یا ناکام بنانے کے لئے سرگرم عمل ہےجبکہ پی ڈی ایم ہر حال میں یہ جلسہ منعقد کرنے کے لئے پوری تیاریوں کے ساتھ میدان میں ہے۔اگر صورتحال یہی رہی تو حالات خراب ہونے اور پھر خراب تر ہوتے چلے جانے کا خدشہ ہے۔یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ حکومت کیوں پی ڈی ایم کے جلسے روکنا چاہتی ہے؟پی ڈی ایم کے ذرائع کے مطابق جلسے تو ابتدا ہیں، وہ تو انتہا تک جانے کی تیاریاں کر چکے ہیں۔ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے زور پر اپوزیشن کو زیادہ عرصہ نہیں دبایا جا سکتااور اگر مہنگائی کے مارے عوام بھی سڑکوں پر آگئے تو پھرکیا ہوگا؟ملک کا نقصان نہ ہو یہی دعا ہے۔