• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ستمبر میں آئندہ دو ماہ کیلئے جس مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا تھا، اُس میں شرح سود سات فیصد کی سطح پر برقرار رکھے جانا بلاشبہ معیشت کی قابلِ اعتماد صورتحال کی علامت ہے۔ 2020میں گزشتہ سال کے مقابلے میں مالیاتی خسارے میں کمی، ترسیلاتِ زر میں اضافہ، اس سال جون اور اُس کے بعد سے معاشی شرح نمو میں آنے والی بہتری، ملک میں کووڈ کے کیسوں میں کمی، لاک ڈائون میں نرمی، تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں اضافے سمیت حکومت، اسٹیٹ بینک اور دیگر پالیسی سازوں کی سطح پر جو فیصلے کئے گئے اُن کے اچھے نتائج کا اندرون ملک ہی نہیں، عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا گیا۔ مہنگائی میں اگرچہ اضافہ ہوا ہے مگر درحقیقت اس کے پیچھے ڈالر کی قدر میں تشویشناک حد تک اضافہ ایک بڑا سبب ہے، اِن حالات میں موجودہ صورتحال کسی حد تک قابلِ فہم ہے۔ انہی حالات کے تناظر میں گزشتہ دو سال کے عرصہ میں ڈالر کی قدر پاکستانی روپے کے مقابلے میں 121روپے سے بڑھ کر جب گزشتہ 27اگست کو اپنی انتہا یعنی 168.43تک پہنچ گئی تھی تو اس امکان کو تقویت ملتی دکھائی دے رہی تھی کہ یہ دسمبر تک 200روپے کی حد کو چھو لے گا تاہم جمعرات کے روز جو حوصلہ افزا صورتحال سامنے آئی ہے اس کے تحت اس روز اس کی قدر گزشتہ پانچ ماہ کی نچلی ترین سطح پر آکر 162.80روپے ہو گئی ہے جو یقیناً ملکی معیشت میں بہتری کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے بعض ملکوں اور اداروں کے اندازے غلط ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو ڈالر کو 200روپے تک دیکھنا چاہتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس سے پاکستانی معیشت دیوالیہ ہو جائیگی۔ امریکی کریڈٹ ریٹنگ کے ادارے نے اس حوالے سے 2020-21سے متعلق جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق اندازہ ہے کہ اس سال دسمبر تک ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں قیمت 163روپے رہے گی تاہم اس کے ساتھ ہی اگلے سال کے اختتام تک یہ قدر 173روپے کی سطح کو چھو لینے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے اسی ادارے نے اس سے قبل انتہائی تشویشناک رپورٹ یہ جاری کی تھی کہ بھارت سمیت بعض ممالک پاکستانی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کیلئے اس سال دسمبر تک ڈالر کو 200روپے تک دیکھنا چاہتے ہیں تاہم چین سمیت بعض قریبی دوست ممالک کے تعاون نے صورت حال کو بگڑنے سے بچا لیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں قوم کی توجہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کی حوصلہ افزا صورت حال کی طرف مبذول کرائی ہے جس کے تحت اسٹیٹ بنک اب تک 21ہزار سے زیادہ یہ اکائونٹ کھول چکا ہے۔ آج ملک میں مہنگائی کی جو صورت حال ہے اس کے پیچھے بھی گزشتہ دو برسوں کے دوران ڈالر کی قدر میں ہونے والا کم و بیش 50روپے کا اضافہ ہے حکومت اس کے خلاف جو مہم چلا رہی ہے بلاشبہ یہ اپنی جگہ ناگزیر ہے اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہو گا کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے ڈالر کے مقابلے میں روپےکی قدر واپس لانے میں مدد ملے۔ موجودہ صورتحال کے مطابق بعض عالمی ادارے اس سال دسمبر کے بعد ڈالر کی قیمت کو جلد ہی بلندی کی سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہاں دو عوامل کارآمد ثابت ہوں گے ایک یہ کہ حکومت ان اداروں کے دبائو میں آکر از خود ڈالر کی قیمت نہ بڑھائے دوسرا یہ کہ حکومت کو اپنے وسائل میں اضافہ کرنا ہوگا جن میں نئی سرمایہ کاری، تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش، زرعی پیداوار میں اضافہ، بجلی کی پیداوار کا انحصار تیل کی بجائے ہائیڈرو سسٹم کی طرف کیا جائے۔ واضح رہے کہ ڈالر کا ریٹ مارکیٹ کی طلب و رسد سے بڑھتا ہے لہٰذا ضروری ہو گا کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جس سے اس کے ریٹ کمی کی طرف مائل ہوں۔

تازہ ترین