• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سات دہائیوں سے وطنِ عزیز میں مخالفین کا مقابلہ الزام تراشیوں سے ہی کیا جاتا رہا ہے۔ جب کوئی حکومت اپنے مخالفین سے زچ ہو جاتی ہے اور دلیل سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتی ہے تو پھر مخالفین سے جیلیں بھرنا شروع کر دیتی ہے۔ کوئی ثبوت یا بہانہ ہاتھ نہ آئے تو پھر بغاوت کا الزام لگا کر مقدمات قائم کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ کسی کو باغی قرار دینا انتہائی آسان مگر نہایت بھونڈا الزام ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں ،چاہے وہ سیاسی حکومتیں تھیں یا مارشل لاء حکومتیں، سب نے اپنے مخالفین پر بغاوت کے مقدمات قائم کیے اور انہیں پابند سلاسل کیا۔ مگر کوئی بھی حکومت انہیں سزا دلوانے تک قائم نہ رہ سکی اور نہ ہی کسی سیاسی شخصیت نے بغاوت کے الزام میں سزا پوری کی ۔ سیاسی کارکنوں کے لیے جیل یاترا اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے، جیلیں سیاسی جماعتوں کے ارکان کے لیے تربیت گاہیں خیال کی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود کہ جیل جانے سے سیاسی کارکن کا قدبڑھتا ہے، حکومتیں اپنے مخالفین کو جیل بھجوانے میں ذرہ برابر نہیں ہچکچاتیں۔جاوید ہاشمی پر جب مشرف نے مقدمہ بنایا اور جیل میں بند کیا تو اُنہوں نے جیل میں رہ کر ایک کتاب تصنیف کی جس کا ٹائٹل انہوں نے ’’میں باغی ہوں‘‘ رکھا ۔ دورِ جدید میں اگر چہ بہت سی چیزیں او ر روایات بدل رہی ہیں مگر حکومتی کارروائیوں اور طریقوں میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہو رہی، حکومتی اسٹائل وہی ستر سال پرانا ہے صرف چہرے بدلتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اگرچہ اپنے مخالفین کو نیب کے ذریعے سے ہینڈل کرنے کی سعی لا حاصل کی مگر ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق مخالفین کی سرگرمیاں مزید تقویت حاصل کر رہی ہیں ۔ اور اب اُنہوںنے پاکستان جمہوری تحریک یعنی پی ڈی ایم کے نام سے حکومت کے خلاف اتحاد بنا لیا ۔ جس میں جماعت اسلامی کے علاوہ حکومت کی مخالف تمام جماعتیں اکٹھی ہو گئیں اور حکومت گرانے کا اعلان کر دیا۔ لوگوں کو متحدکرنے کے لیے جلسوں کا اعلان بھی کر دیا گیا۔اس مر حلے پر اگر حکومت مخالفین کو کنٹرول کرنے کے لیے مقدمات درج نہ کرتی تو کیا کرتی؟لہٰذا فوری طور پر مسلم لیگ ن کے لیڈر محمد نواز شریف، اُن کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر اور دوسرے صفِ اول کے دیگر تمام لیڈرو ں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔مگر یار لوگوں کو معلوم نہیں کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت زیادہ پانی بہہ چکا ہے اب وہ چالیس سال پرانا دور نہیں، ٹیکنا لوجی کا دور ہے، میڈیا آزاد ہے، سوشل میڈیا بہت متحرک ہے ا ب ہر چیز کا جواب دینا پڑتا ہے۔ چنانچہ جب شور مچا تو یہ مقدمات واپس لے لئے گئے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے فرمایا کہ وزیراعظم کو نواز شریف کے خلاف بغاوت کے مقدے کا علم نہیں اور انہوں نے اس پر ناپسندگی کا اظہار کیا ہے ۔ یعنی ملک کے وزیراعظم کو ملک میںہونے والے واقعات کا علم نہیں جبکہ قتل ، ریپ اور اغواء کے واقعات میں پولیس درجنوں دن مقدمہ درج کرنے میں گزار دیتی ہے جبکہ بغاوت کا مقدمہ درج کرنے میں بڑی پھرتی کا مظاہرہ کیا گیا ۔ تین بار کے وزیراعظم ، دفاعی اداروں سے اعلیٰ ترین عہدوں سے ریٹائر ہونے والے افسران کئی کئی باروزیر رہنے والے سیاسی رہنمائوں کے خلاف جتنی عجلت میں مقدمہ درج ہوا، اس پر عقل حیران ہے ۔

ماضی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ جس حکومت نے بھی سیاسی رہنمائوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کیے وہ جلدی ختم ہو گئی ۔ وہ چاہے ایوب خان کی حکومت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت ، حیدر آباد میں ولی خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف چلنے والے مقدمۂ بغاوت کا کیا انجام ہوا وہ سب جانتے ہیں ۔ محمد نواز شریف نے خود اپنے دور حکومت میں نجم سیٹھی اور ملیحہ لودھی کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کئے، مگر کیا ہوا ۔ نجم سیٹھی پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بنے اور پھر کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا رہے جبکہ ملیحہ لودھی کو سفارت کاری کے اعلیٰ ترین مناصب ملے ۔وہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب بھی رہی ہیں۔ اس وقت بغاو ت کا الزام کہاں چلا جاتا ہے ۔ ملک میں شرح خواندگی بڑھ چکی ہے، لوگوں میں شعور کی سطح بلند ہو چکی ہے ۔ ہمیں اپنی آزادی کی قدر کرنی چاہئے ۔بغاوت ریاست کے خلاف ہوتی ہے حکومت کے خلاف نہیں۔ہم کو اپنے سیاسی زعماء کی قدر کرنی چاہئے۔ سیاسی حملوں کا جواب مدلل اندازمیںسیاسی میدان میں دینا چاہئے۔ ہم اگر خود کو نئی اقدار کا امین گردانتے ہیں تو اُن پر عمل کرنابھی ضروری ہے۔ نیب کی پکڑ دھکڑ کیا کم تھی کہ بغاوت کے مقدموں کا اندراج شروع کر دیا گیا جو کسی طور بھی حکومت وقت کے حق میں نہیں گیا۔

تازہ ترین