سعودی عرب 20 لاکھ مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے. یہاں مسلم دنیا کی مقدس مساجد اور شہر ہیں۔ مملکت کا محل وقوع اسٹراٹیجک نوعیت کا ہے۔ اس تناظر میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے ذریعے ملک کا نیا اقتصادی نظام ترتیب دیا ہے. سعودی عرب کو صحیح معنوں میں عربوں، مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں سے جوڑا ہے. وژن کے مطابق تقریبا 13 بڑے پروگرام روبہ عمل لائے جارہے ہیں ان میں معیار زندگی بہتر بنانے کے پروگرام بھی شامل ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ قائم کرکےبہت بڑا قدم اٹھایا ہے .یہ 300 ارب ڈالر سے زیادہ اثاثوں کا پروگرام ہے. ان کا پروگرام ہے کہ یہ دنیاکے بڑے ریاستی انویسٹمنٹ فنڈز میں سے ایک ہو. وہ اس فنڈ سے بوئنگ، فیس بک، سٹی گروپ، ڈزنی، بینک آف امریکہ اور بی بی کمپنی کو جوڑ رہے ہیں ۔ ولی عہد نےدنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی آرامکو کو سعودی شراکتی کمپنی میں تبدیل کرنے کا عندیہ 2016 میں دیا تھا۔
شروع میں اسے مہم جوئی سے تعبیر کیا گیا تاہم 2019ء ختم ہونے سے قبل ہی آرامکو کے حصص کا لین دین سعودی مارکیٹ میں شروع ہوگیا، 2018 میں سعودی فوجی مصنوعات تیار کرنے والی فیکٹریوں کی بنیاد بھی ڈالی.ان کا ہدف ہے کہ ملک کی 50 فیصد عسکری ضروریات اندرون ملک تیار کی جائیں گی۔ پوری دنیا اس وقت نئے کورونا وائرس کے بحران میں پھنسی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی معیشت پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوئے .کئ ممالک نے وائرس کے مقابلے سے ہاتھ اٹھا دیے ہیں۔ ایسے عالم میں انٹرنیشنل ادارے فچ نے اپریل میں رپورٹ جاری کی ،جس میںکہا سعودی معیشت لچکدار ہے۔
اقتصادی اصلاحات درست سمت میں جارہی ہیں اور نجی شعبے کی مدد کے ذریعے تمام اقتصادی شعبوں کو سہارادیا جارہا ہے جبکہ وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات تیزی سے نافذ کیے جارہے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ان دنوں بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اعلی رابطہ کمیٹی کی صدارت کررہے ہیں۔ حکومت نے وبا سے نمٹنے کے لیے 177 ارب ریال کے اقتصادی اور مالیاتی پروگرام دیے ہیں. یہ مملکت کی کل قومی پیداوار کا 9 فیصد ہیں. اس رقم میں سے 9 ارب ریال نجی اداروں کے سعودی ملازمین کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لیے مختص کیے گئے ہیں ۔