• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لڑائی شدت اختیار کررہی ہے۔

میرے ہم عصر پاکستانیوں کی تشویش یہ ہے کہ یہ لڑائی ایک فرد کی ایک ادارے کے خلاف ہے۔ یا اداروں کی اداروں کے خلاف۔ کیا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی ساری جماعتیں اس ادارے کی اسی شدت سے خلاف ہیں جیسے لندن میں ایک آرام دہ اپارٹمنٹ میں بیٹھے میاں صاحب۔

میں اللہ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف اب شفائے کاملہ سے نوازے گئے ۔ وہ بھی اب کسی عارضے کی شکایت نہیں کررہے ہیں۔ نہ ہی ان کی صاحبزادی ان کی صحت کے بارے میں کسی تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔

میں اس منظر نامے میں الجھا ہوا ہوں۔ پاکستان کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں سیاسی معاملات میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی روایت بہت پرانی ہے۔ اور اسی کشمکش میں ہم اپنا اکثریتی بازو کھوچکے ہیں۔ دشمن کو یہ کہنے کا موقع دے چکے ہیں کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے۔ اور اب بھی اس دشمن کے عزائم ہمارے عظیم وطن کے بارے میں بڑے جارحانہ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت پر جو بہیمانہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ پورے بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات جس طرح تنگ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو داخلی طور پر جس طرح کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ افغانستان میں جو صورتِ حال ہے ۔ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مشرقی اور مغربی سرحد سے ہونے والی ممکنہ یلغار کو روکنے کے لیے مشترکہ لائحۂ عمل تشکیل دیتیں۔ بظاہر تو ایسا کوئی بڑا تنازع رُونما نہیں ہوا۔ نہ ہی عمران حکومت نے ایسا کوئی بڑا غلط فیصلہ کیا ہے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اور ساری اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوکر تحریک چلانے نکل آئی ہیں۔ اگر عمران حکومت گر بھی گئی تو جو بھی حکومت قائم ہوگی اسے مغربی اور مشرقی سرحد سے یہی خطرات لاحق ہوں گے۔ اور ان کے مقابلے کے لیے اسے اسی فوج پر انحصار کرنا ہوگا۔ جس کے سربراہ اور دوسرے جنرلوں کے خلاف بیانیہ داغا جارہا ہے۔

میں تجزیے کی کوشش کررہا ہوں کہ یہ بیانیہ کس حد تک نظریاتی۔ کتنا ذاتی۔ اور کس حد تک مالیاتی ہے۔ میاں صاحب کو خود یہ کشف بڑے برسوں کے بعد ہوا تھا کہ وہ نظریاتی ہوگئے ہیں۔ کیا پنجاب پہلی بار نظریاتی ہوا ہے؟ 1970کے انتخابات میں جب پنجاب نے ایک بالکل نئی پارٹی کو اپنی اور قومی اسمبلی کی چابیاں دے دی تھیں تو کیا وہ پنجاب نظریاتی نہیں تھا۔اس پارٹی میں اس وقت تو واقعی بہت سی نظریاتی شخصیتیں شامل تھیں۔

پہلے جب ایسی آوازیں سرحد سے۔ بلوچستان سے ۔ سندھ سے اٹھتی تھیں تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے باچا خان۔ خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی۔ خان عبدالصمد اچکزئی کو بلوچی گاندھی اور جناب جی ایم سید کو سندھی گاندھی کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں ان دنوں بھی سوچتا تھا کہ پنجاب میں کسی لیڈر کو یہ رتبہ کیوں نہیں مل سکا ہے؟ اب جو بیانیہ وائرل ہورہا ہے ۔ پھر مجھے خوف آرہا ہے کہ کہیں میاں صاحب کو مقتدر حلقے پنجابی گاندھی کے لقب سے نہ نواز دیں۔

خان عبدالغفار خان۔ خان عبدالصمد اچکزئی۔ اور محترم جی ایم سید۔ سب کو تاریخ نے اور سب نے تاریخ کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ جغرافیے نے ان کے اثر و رسوخ کے علاقے کی گواہی دی ہے۔ سب نے پہلے انگریز کی جیلیں دیکھیں۔ پھر اپنوں کی۔ سیاستدانوں کی بھی اور جنرلوں کی بھی۔ ان کے علاقوں میں محرومیاں بھی تھیں، نا انصافیاں بھی اور یہ سب ملکی اور بین الاقوامی معاملات کا۔ سازشوں کا۔ معاہدوں کا ادراک بھی رکھتے تھے۔ کتابوں کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ خود بھی تحریر میں اظہارِ خیال کرتے تھے۔ مرکز اور پنجاب ان کا ہدف ہوتے تھے اور وہ جبر و استبداد کا ذکر پوری دلیلوں کے ساتھ کرتے تھے۔

ان سب کے مالی حالات بہت ناگفتہ بہ رہے ہیں، ان کے بڑے بڑے بنگلے۔ فارم ہائوس، شوگر ملز نہیں تھیں۔ان کے قریبی رفقا بھی ایسی ہی معاشی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے خلاف مقدمات بھی بغاوت۔ حق گوئی کے قائم ہوتے تھے۔ یا انہیں پبلک سیفٹی میں نظر بند رکھا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں کرپشن اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار۔ منی لانڈرنگ کے مقدمات نہیں تھے۔ وہ غریبوں۔ محنت کشوں کی اپنے حقوق کے لیے عالمی جدو جہد کا حصّہ تھے۔ انہیں بین الاقوامی تنظیمیں اپنے اجلاسوں میں مدعو کرتی تھیں۔

اب منظر نامہ ملکی ہو یا بین الاقوامی بالکل بدل گیا ہے۔ طبقاتی جدو جہد ختم ہوگئی ہے۔ اگر چہ طبقات اسی طرح مسائل میں مبتلا ہیں۔ سرمایہ داروں جاگیرداروں سے زیادہ طاقت ور ٹھیکیدار ہوگئے ہیں۔ اب وسائل پر قبضہ ’’اربن مافیاز‘‘ شہری مافیائوں کا ہے۔ ادارے بھی قبیلے بن گئے ہیں۔ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ پھر ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ موجودہ کشمکش کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ عمران حکومت اور پی ڈی ایم کے لیڈر سب استحصالی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے ۔میاں صاحب جس نظریاتی جنگ کا عَلم لے کر اٹھے ہیں۔ کیا اس کا تقاضا نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کوئی حبیب جالب ہو۔ حسن ناصر ہو۔ گل خان نصیر ہو۔ مختار رانا ہو۔ کیا وہ نظریاتی جنگ بیرون ملک بیٹھ کر ہی لڑیں گے؟ دوسری طرف ان کے ارد گرد بڑے روایتی جاگیردار بھی نہیں ہیں۔ صرف وہ لوگ ہیں جو 1977کے بعد دولتمند ہوئے ہیں۔ کیا وہ اس بیانیے کے مضمرات سے آشنا ہیں؟ یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وقتی ابال ہے؟ کیا وہ اس جنگ کے آخر تک ان کا ساتھ دیں گے؟ یہ بھی فکر طلب امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پہلے چھوٹے صوبوں سے زیادہ مزاحمت ہوتی رہی ہے۔ پنجاب سے پہلی بار ہونے والی مزاحمت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کیا وہی حکمت عملی اختیار کرے گی یا اس کے اقدامات مختلف ہوں گے؟آئین کا تقاضا ہے اور جمہوری تہذیب کی ضرورت بھی کہ سب ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں۔ اس کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کو پہلے ادارہ بننا ہوگا۔ موروثیت ختم کرکے جمہوریت لانا ہوگی اور اپنی تنظیم کو ملک گیر بنانا ہوگا۔ موجودہ تحریک مسلم لیگ(ن) کو مزید پنجابی پارٹی اور پی پی پی کو مزید سندھی پارٹی بنارہی ہے۔

تازہ ترین