• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

22؍ اکتوبر 2020ء سول سروس کیلئے سیاہ دن سمجھا جائے گا

اسلام آباد (انصار عباسی) جمعرات کی شام ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے اس نمائندے سے رابطہ کیا اور غمگین لہجے میں کہا، ’’جو کچھ آج نیب نے کیا وہ کئی سرکاری ملازمین کا قتل عام کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ سول سروس کیلئے موت کی گھنٹی ہے، اور اس صورتحال سے سرکاری ملازمین کا مورال مایوسیوں کی پستی میں چلا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چار وفاقی سیکریٹریز اور دو آئی جی پولیس، کیخلاف نیب نے ’’مشکوک الزامات‘‘ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ جب دی نیوز نے بیورکریسی کے کچھ دیگر سینئر افسران سے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے جمعرات کو کیے گئے فیصلوں کے حوالے سے رائے معلوم کرنے کیلئے رابطہ کیا تو ان کا رد عمل یکساں تھا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت کی فیصلہ سازی اور کام کاج کا عمل رک جائے گا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق سیکریٹری داخلہ اور صدر مملکت کے سیکریٹری شاہد خان کیخلاف ایک ایسے ’’جرم‘‘ کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جو کئی اداروں میں ایک معمول بن چکا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق، چیئرمین پولیس فاؤنڈیشن کی حیثیت سے شاہد خان کو پولیس فاؤنڈیشن ہاؤسنگ اسکیم میں چیئرمین این پی ایف کو ملنے والی مراعات کی اسکیم کے تحت ’’کمرشل پلاٹ‘‘ الاٹ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گریڈ 21؍ اور 22؍ کے ریٹائرڈ افسران کو کمرشل پلاٹس دینا تمام ڈی ایچ ایز میں معمول بن چکا ہے۔ آئی جی رینک کے ایک اور افسر رفیق بٹ کیخلاف بھی ریفرنس دائر کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے سابق سیکریٹری داخلہ شاہد خان کو پلاٹ الاٹ کیا تھا۔ 73؍ سیکورٹی گاڑیوں کی خریداری کے ریفرنس میں نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کچھ افسران کو بھی بطور ملزم نامزد کیا ہے۔ ان افسران میں ساسبق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری بھی شامل ہیں۔ وہ امریکا میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اسی ریفرنس میں سابق آئی جی پولیس پنجاب اور ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ اس ریفرنس میں وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ یہ سیکورٹی گاڑیاں غیر ملکی وفود کے استعمال کیلئے خریدی گئی تھیں۔ فواد حسن فواد، جو پہلے ہی دو سال نیب کی حراست میں گزار چکے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ کی چند سال قبل نیب کے ہاتھوں گرفتاری نے سویلین بیوروکریسی میں ہراسگی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بکتر بند اور بم پروف گاڑیاں دفتر خارجہ کی سفارش پر مہمان سربراہان مملکت اور سربراہانِ حکومت کے دورۂ پاکستان کے دوران استعمال کیلئے خریدی گئی تھیں۔ چونکہ یہ خریداری ہنگامی بنیادوں پر کی گئی تھی اسلئے یہ کام انٹیلی جنس بیورو کے ذریعے کیا گیا۔ ایک سینئر سرکاری عہدیدار جنہیں اس پورے کیس کا علم ہے، کہتے ہیں کہ یہ وہی گاڑیاں ہیں جو موجودہ وزیراعظم اور پاکستان آنے والے ہائی پروفائل لیڈرز استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم آفس میں یہ وی وی آئی پی گاڑیاں ’’ملٹری سیکریٹری‘‘ کے انتظامی کنٹرول میں ہیں جو اکثر حاضر سروس بریگیڈیئر ہوتا ہے۔ گاڑیوں کی ایلوکیشن، استعمال اور ان کی دیکھ بھال وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری کے کنٹرول میں ہے۔ آشیانہ کیس اور آمدنی سے زیادہ اثاثوں کے کیس میں پہلے ہی دو سال کی قید برداشت کرنے والے فواد حسن فواد کو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ اس کیس میں بطور ملزم شامل کر دیا گیا ہے۔ اِن ذرائع کا کہنا ہے کہ پلاننگ کمیشن کے ٹیکنوکریٹ آصف شیخ کو نارووال اسپورٹس سٹی ریفرنس میں سابق وزیر داخلہ اور سابق وزیر برائے پلاننگ اور نون لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کے ساتھ شریک ملزم کے طور پر ریفرنس میں شامل کیا گیا ہے۔ تین صوبائی سیکریٹری سطح کے افسران (دو کا تعلق پی اے ایس / ڈی ایم جی سے جبکہ ایک کا بلوچستان سول سروس سے ہے) کو بھی اختیارات کے ناجائز استعمال کے ریفرنس میں شامل کیا گیا ہے اور ان کا مقدمہ نیب عدالت کو بھجوا دیا ہے۔ دوستین جمال دینی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ٹیکنوکریٹ ہیں، انہیں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان رئیسانی کے ہمراہ ریفرنس میں بطور ملزم شامل کیا گیا ہے۔ صاف پانی اور سالڈ ویسٹ مینجمٹ کیس میں دو مرتبہ گرفتار ہونے والے وسیم اجمل کو دو مرتبہ عدالت سے ضمانت ملی اور نیب کیخلاف عدالت نے سخت ریمارکس دیے تھے۔ انہیں بھی ایک مرتبہ ریفرنس میں شامل کیا گیا ہے۔ اس مرتبہ انہیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے داماد عمران علی کے ساتھ شریک ملزم کے طور پر ریفرنس میں شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر چار وفاقی سیکریٹری، دو آئی جی پولیس، تین صوبائی سیکریٹریز کا معاملہ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے پراسیکوشن کیلئے بھیج دیا ہے اور ان کے ساتھ نواز شریف، احسن اقبال اور رئیسانی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے اقبال زیڈ احمد کیخلاف بھی ریفرنس کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال نجی کاروباری شخصیات کے گروپ کی قیادت میں آرمی چیف سے ملاقات کی تھی۔ جنرل باجوہ نے کاروباری افراد کو ملاقات کیلئے دعوت دی تھی تاکہ حکومت کو درپیش معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے سر جوڑ کر حل نکالا جا سکے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی بحث کی جا سکے کہ نیب کس طرح کاروباری افراد کو تنگ اور ہراساں کر رہا ہے۔ ایک سینئر ذریعے کا کہنا ہے کہ شاہد خان، اعزاز چوہدری اور آفتاب سلطان کو ڈی ایم جی، فارن سروس اور پولیس سروس میں مثالی کردار سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 22؍ اکتوبر 2020ء کو پاکستان کی سول سروس کا سیاہ دن سمجھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء سے 2018ء تک آفتاب سلطان کی زیر قیادت آئی بی نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی کمر توڑ دی اور ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیاں کیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کیا یہی طریقہ ہے جس میں قومیں اپنے ہیروز اور مثالی کرداروں کو انعام دیتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایک ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے جو نیب کے کام کاج کے طریقے پر نظر رکھے بصورت دیگر ملک کو سنگین نقصان کا اندیشہ ہے۔

تازہ ترین