• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم کے رائٹر،ڈائریکٹراورپروڈیوسرانتہائی تجربہ کاراوراپنے کام کے منجھے ہوئےلوگ تھے۔ رائٹرنے فلم کی کہانی اس بار سرکٹ میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی پرانی فارمولا فلموں سے ہٹ کرلکھی۔ پروڈیوسر نے اپنے دورکی سب سے مہنگی فلم بنانے کے لئےروپے پیسے کی پروا نہ کی اور بوریوں کے منہ کھلے رکھے۔ فلم کے ڈائریکٹرماضی میں بڑی سپرہٹ فلمیں دے چکے تھےاوروہ اپنی بنائی ہوئی ہر فلم کو لمبے عرصے تک پردہ اسکرین پرلگائے رکھنے کا ہنر جانتے تھے‘ لوگ بھی ان کی فلموں کے عادی ہوچکے تھے۔ نئی فلم وہ منفرد اندازمیں بنا رہے تھے اور فلم کا ہیرو بھی ہمیشہ کی طرح خود ہی چنا۔ ہیرو بھی وہ جوفلمی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی کسی اورمیدان میں سکہ جما چکا تھا۔ کیا بچے بڑے،لڑکے لڑکیاں،غریب امیرسب دیوانے تھے اس کے حسن اورشخصیت کے،مگر کچھ چاہنے والے یہ ضرور کہتے کہ اسے فلموں میں کام نہیں کرنا چاہئے، یہ گندا کام ہےاورصاف ستھرے لوگوں کواس سے دوررہنا چاہئے لیکن بڑی اسکرین پرآنے کے جنون میں مبتلا وہ پندرہ سالوں سے دربدرہورہاتھا،اپنا گھر بھی اجاڑبیٹھا،اسٹوڈیو کے کئی چکرکاٹے مگر کسی فلم ڈائریکٹرنے کوئی لفٹ نہ کرائی، اسی دوران اپنے وقت کے سب سے بڑے ڈائریکٹر سے وہ فلم کا ہیروبننے کا وعدہ لے بیٹھا اورڈائریکٹرصاحب کی تین سال تک خدمت بھی بجا لائی مگرڈائریکٹربہت سیانا نکلا، وقت آنے پر سرے سے ہی مکرگیا۔ پھرکیا تھا، وہ فلم انڈسٹری کے تمام ڈائریکٹرزاور پروڈیوسرز سے ہی ناراض ہوگیااور کئی سال تک اپنا غصہ ہرجگہ نکالتا رہا مگر حاصل کچھ نہ ہوا۔

فلم انڈسٹری میں اپنا نام بنانے کے لئے پندرہ سال تک خوار ہونے کے بعد اسے احساس ہوا کہ ڈائریکٹرز کا حقہ پانی بھرے بنا وہ کبھی فلم کا ہیرو نہیں بن سکتا۔ اس احساس کے بعد انڈسٹری کے سب سے بڑے ڈائریکٹر نے اس کے سرپردستِ شفقت رکھا کہ وہ اس ملک کی سب سے ہیوی بجٹ اور بڑی کا سٹ سے بننے والی فلم کا ہیرو ہوگا۔ یہ ڈائریکٹر بھی ماضی کے اسی ڈائریکٹرکے شاگرد تھے جنہوں نے ہیرو بنانے کے بہانے اپنی خدمت کروائی تھی۔ بڑے بینرکی اس فلم میں ملک بھرسے ساتھی فنکاروں کی تلاش شروع کردی گئی اور کچھ ہی دنوں میں انڈسٹری کے بڑے بڑے نام فلم کی کاسٹ میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ فلم کی شوٹنگ کا آغازہی ایک گرینڈ کیمرہ اوپننگ تقریب سے ہوا اوراس کے لئے لالی ووڈ یعنی ہیرو کے اپنے شہرلاہورکا انتخاب کیا گیا، پھرکیا تھا پروڈیوسرنے اپنے ساتھی انویسٹرزکے ذریعےعالی شان تقریب کا اہتمام کروایا اورملک بھرسے لوگ دیوانہ وارشریک ہوئے۔ فلم کی شوٹنگ کے آغازاورہرسین کو فلمانے کے لئے مختلف شہروں کی لوکیشنزپرایسی ہی پرکشش تقریبات سے دیگر فلمسازوں کی نیندیں حرام ہونا شروع ہوگئیں اور انھیں اپنا سرمایہ مستقبل میں ڈوبتا دکھائی دینے لگا۔ فلم کی شوٹنگ شروع ہوئے دوسال گزر چکے تھے۔ اسی دوران ایک اورماضی کے پرانے، کامیاب اورتجربہ کارہیرو کی فلم بڑی چالاکی سے قبل از وقت ریلیز کردی گئی جو پھرہٹ ہوگئی۔ دوسال سے بننے والی بڑے بینر کی فلم کے ہیروکا غصہ ایک بارپھردیکھنے کے لائق تھاکہ اسی پرانے ہیرو کی فلم پھرکامیاب ہوگئی اورمیری فلم کی شوٹنگ ہی مکمل نہیں ہو پارہی۔ یہ احساس فلم پروڈیوسراورڈائریکٹرکوبھی ہوگیا ، اس لئے رائٹرکی مدد سے فلم میں جلدی جلدی کئی طویل دورانیے کے نئے سین بھی شامل کئے گئے اور پھراس کی شوٹنگ کے کئی مشکل مراحل بھی آئے اورفلم کا شدت سے انتظارکرنے والے شائقین یہ سمجھتے رہے کہ فلم بس ابھی ریلیز ہوئی کہ ابھی،مگر فلم کومکمل ہونے میں مزید پانچ سال لگ گئے۔ اس دوران ڈائریکٹر نے مزید کئی مہنگےاورشوقیہ ساتھی فنکارکاسٹ کر کے انھیں بھی رول دے دیئے،اس تاخیرکے باعث فلم کی ہیروئین بھی ڈرامائی اندازمیں تبدیل ہوگئی جوفلم کے انتظار میں بیٹھے شائقین کے لئے مزید تجسس کا سامان تھا۔ پروڈیوسربھی توقع سے زیادہ پیسہ اس امید پرلگاتا رہا کہ فلم کی کھڑکی توڑکامیابی پرسارا سرمایہ سود سمیت واپس لوٹ آئے گا۔ فلم کی اتنی زیادہ مشہوری اورانتظارکے بعد شائقین کویقین تھا کہ یہ فلم ماضی میں دیکھی تمام فلموں سےزیادہ گلیمرائز اور سبق آموز ہو گی۔ آخروہ دن آ ہی گیا جس کا فلم کے ہیرو کو بائیس برس سے انتظارتھا۔ ہیرو کے ایسے نوجوان مداحوں کا بھی انتظارختم ہواجنہوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ سینما میں زندگی کی پہلی فلم وہ اپنے پسندیدہ ہیرو ہی کی دیکھیں گے۔ دھوم دھام سے ریلیزہونے والی اس فلم سےسینما مالکان کی بھی چاندی ہوگئی، ٹکٹیں بلیک ہوئیں،رش کودیکھتے ہوئے حریف فلمسازوں نے تو مارے حسد کے کہہ دیا کہ سینما کی ٹکٹیں ہی سیٹوں سے زیادہ فروخت کردی گئی ہیں۔ فلم بین ٹولیوں کی شکل میں اپنے یاردوستوں اورفیملی کےہمراہ پہلا شو دیکھنے وقت سے پہلے ہی سینما پہنچ گئے۔ فلم شروع ہونے سے قبل پردۂ اسکرین پرقومی ترانہ بجایا گیا جسے سب نے احتراماً کھڑے ہوکرسنا ،اس کے بعد منشیات کے استعمال کے نقصانات کے بارے آگاہی کے لئے اشتہارات چلائے گئے۔ سینما ہال میں بیٹھے بعض منچلے اورکھرانٹ شائقین نے سیٹیاں بجانا شروع کردیں تاکہ اب فلم بھی شروع کروجس کے لئے انھوں نے وقت اور پیسے خرچ کئے ہیں۔ فلم شروع ہوئی اور ہیرو کی پہلے سین میں دبنگ انٹری پرہرطرف تالیوں اورسیٹیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ سین تبدیل ہونے لگے مگرہرسین کے منظراور پس منظرمیں یکسانیت آنے لگی، ہیرو کی اداکاری ہرتبدیل ہوتے سین میں ایک سی لگنے لگی، ولن، ہیروکے دوست،سپورٹنگ کریکٹرزاورایکسٹرا سمیت تمام فنکاروں کی ایکٹنگ دیکھنے والوں کوبڑی ہی اوور لگنے لگی۔ ایک جیسی مماثلت رکھنے والے سین، ڈائیلاگ دیکھ اورسن کرہال میں بیٹھے شائقین بڑبڑانے لگے اورانھیں یوں لگنے لگا کہ یہ فلم تووہ پہلے بھی کئی باردیکھ چکے تھے،لوگ اب تو رائٹر اور ڈائریکٹرکوبھی کوسنے لگے کہ کیا چربہ فلم بنائی ہے، پھراچانک انٹرول کے لئے سینما ہال کی تیزروشنیاں جلنا شروع ہوگئیں جس سے سست اورجمائیاں لیتے فلم بینوں کوپوری آنکھیں کھولنے اوراپنےاردگرد بیٹھے لوگوں سے نظریں ملانے میں بھی دشواری ہونے لگی، اسی دوران ہال کی پچھلی سیٹوں سے اٹھتا شورہرطرف کانوں میں گونجنے لگا لیکن ایک اونچی آواز سب کوضرورسنائی دی ’’اوئے یہ فلم تو ڈبہ نکلی‘‘۔

تازہ ترین