حضوراکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو کوئی درخت لگائے، پھر اس کی نگرانی اور حفاظت کرتا رہے، حتیٰ کہ درخت پھل دینا شروع کردے، اور اگر اس درخت کا کوئی نقصان ہوجائے، تو وہ اس شخص کے لیے صدقے کا سبب بن جاتا ہے۔‘‘ اسی حوالے سے ایک اور موقعے پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ قیامت برپا ہو رہی ہو اور تمہیں درخت لگانے کی نیکی کا موقع مل جائے، تو فوراً یہ نیکی کر ڈالو۔ اس لیے تو کہا جاتا ہے کہ شجرکاری کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ہر ایک کی ذمّے داری ہے اور اپنی اس ذمّے داری کا احساس کرتے ہوئے ہر انسان کو اپنے حصے کا کم از کم ایک درخت تو ضرور لگانا چاہیے۔
جنگلات قدرت کا بیش بہا، انمول عطیہ ہیں، جو دنیا کے کُل رقبے کے ایک چوتھائی حصّے پر مشتمل ہیں۔ تاہم، بدقسمتی سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور دیگر کئی وجوہ کی بنا پر جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق، عالمی سطح پر جنگلات کی بے دردی سے کٹائی کے عمل میں 1852ء سے تیزی آئی اور کرئہ ارض پر موجود تقریباً آدھے ٹراپیکل جنگلات کاخاتمہ ہوگیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2030ء تک دنیا میں جنگلات کا رقبہ صرف 20فی صد تک باقی رہ جائے گا۔
جس کے نتیجے میں مختلف درختوں سمیت جانوروں اور پرندوں کی 80 فی صد انواع ناپید ہوجائیں گی۔ بلاشبہ، جنگلات کا ماحولیاتی اور حیواناتی زندگی کے ساتھ گہرا رشتہ ہے، مگر پھر بھی دنیا میں جنگلات کے کٹائو کا عمل جاری ہے، جس کی بڑی وجہ سرعت سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی ہے، جس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جنگلات کا بے دریغ کٹائو جاری ہے۔ جس کے باعث نہ صرف ماحول بلکہ انسانوں اور جانوروں کی حیاتیاتی تنوّع پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
آج دنیا بھر میں اس امر کا بر ملا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ برق رفتار ترقی کے ساتھ آ لودگی کا جو زہر آہستہ آہستہ کرئہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور یہ محض درختوں اور پودوں کی کٹائی کے سبب ہے۔ جس جگہ درخت جتنے زیادہ ہوں گے، وہاں کی آب وہوااُتنی ہی صاف وشفّاف ہوگی۔
قدرت نے درختوں میں جو اوصاف رکھے ہیں،ان کی بناء پر وہ فضائی آلودگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔عام طورپر جنگلات میں اوسط درجۂ حرارت 4سے 10ڈگری سینٹی گریڈ تک اور کم سے کم درجۂ حرارت منفی 6سے منفی 10ڈگری سنٹی گریڈتک رہتا ہے ۔جنگلات میں دوسرے قطعاتِ ارضی کی نسبت بارش بھی زیادہ برستی ہے۔ اسی لیے محض ایک درخت لگانے سے بھی حیاتیاتی تنوّع میں اضافہ ہوتا ہے۔ اُس ماحول کے لیے ضروری جان دار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ذیلی پودے، کیڑے مکوڑے، چرند پرند اور رینگنے والے جانور ماحول کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، ایک درخت سے خارج ہونے والی آکسیجن کی مقدار 36ننھے منّے بچّوں کے لیے کافی ہوتی ہے ۔
درخت یقیناً برکت کی علامت اور اہم قومی دولت ہونے کے ساتھ انسانی زندگی کے لیے اَن گنت فوائد کے حامل ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں، ہوا کو صاف کرتے ہیں۔ ان سے خارج ہونے والی آکسیجن زمین پر موجود جان داروں کے سانس لینے کا ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف سایہ اور ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں، بلکہ توانائی اور پانی بھی بچاتے ہیں۔ درختوں کے تنَوں سے حاصل شدہ لکڑی سے صنعتی مصنوعات، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ یہ ادویہ سازی میں بھی کام آتے ہیں۔ زمین کی زرخیزی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ماحول کو خوش گواراور صحت افزا رکھتے ہیں۔ زمین سے نمی جذب کرکے ماحول میں پھیلاتے ہیں، جو انسانوں اور دیگر جان داروں کے لیے صحت بخش ہے۔ انسانوں کو خوراک اور روزگار فراہم کرتے ہیں،ان سے جانوروں اور پرندوں کو خوراک اور پناہ گاہیں میسّر آتی ہیں۔ یہ زمینی کٹائو اور سیلابوں کو روکتے ہیں، بدلتے موسموں کا عندیہ دیتے ہیں، بچوں کو بنفشی شعائوں سے بچاتے ہیں۔ ان کے نظارے سے مریض جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ ان سے حاصل شدہ لکڑی کو ایندھن کے طورپر بھی استعمال میں لایا جاتاہے اور ان سے دل کش، خوب صورت تفریح گاہیں میسّر آتی ہیں، نیز ان کی ہریالی زمین کی خوب صورتی دوبالا کرتی ہے۔
پاکستان دنیا کے اُن دس ممالک میں شامل ہے، جو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں مون سون کی ہوائیں کم ہو رہی ہیں۔ زرعی پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے ۔موسموں کی شدت وحدّت بڑھتی جا رہی ہے اور جنگلات کے کٹائو کی وجہ سے جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب غیرانسانی حیات کی 105اقسام معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان میں 103اقسام کے جانور، جن میں 23اقسام کے ممالیہ ، 25اقسام کے پرندے،10اقسام کے رینگنے والے جانور ، 30اقسام کی مچھلیاں ،15اقسام کے حشرات الارض اور 2اقسام کے پودے شامل ہیں۔
جنگلات کو زمین کے پھیپھڑوں سے تشبیہ دی جاتی ہے، کیوں کہ یہ تازہ آکسیجن کی فراہمی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی مُلک کی معاشی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کے لیے اس کے 25فی صد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے، لیکن پاکستان میں صرف 4.8فی صد رقبے پر جنگلات موجود ہیں، جو ماحولیاتی بگاڑ کی بڑی وجہ ہے۔ جنگلات میں کمی کی وجہ سے ہر سال مٹّی کے تودے گرنے، تباہ کن سیلاب آنےاور درجۂ حرارت میں اضافے جیسے مسائل سامنے آرہے ہیں۔
دوسری طرف بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے صنعتیں بھی لگائی جارہی ہیں، جو ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے، جس کے باعث ملک میں 2.1فی صد سالانہ کے حساب ہر سال 42ہزار دو سو ایکڑ رقبہ جنگلات سے محروم ہوا ہے۔ یوں پاکستان دنیا کا آٹھواں بدقسمت ملک ہے، جہاں جنگلات کے رقبے میں سالانہ بڑی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
یاد رکھیں! اگر آپ فطرت کی دلآویز رعنائیوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے ماحول کو صاف، شفّاف اور خوش گوار، موسمی شدّت وحدّت، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ دیکھنا اور انسانی اور جنگلی حیات کی بقا کا سامان چاہتے ہیں۔ قدرت کے عطا کر میٹھے پھلوں آم، آڑو، آلوبخارے، سیب، کینو، کیلے، سیب، سنگترے، مالٹے، جامن، شہتوت، خوبانی، کھجور، لیچی، بیر و دیگر رنگارنگ خوش ذائقہ پھلوں سے لُطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔
دیودار، چیڑ، شیشم، کیکر، پاپلر، سفیدے، سیمل، ارجن، املتاس، فراش، سکھ چین، کچنار، کنیر، نیم اور پیپل وغیرہ جیسے خُوب صُورت گھنے درختوں سے استفادہ چاہتے ہیں، تو اپنے بام ودر، کوچہ وبازار، نگرنگر، کھیتوں، کھلیانوں، چراگاہوں، میدانوں، اسکولوں، کالجز، درس گاہوں، شفاخانوں، شاہ راہوں، دریائوں، ندی نالوں، نہروں، آب شاروں اور آب گاہوں کو اس زیورِ ارضی پیڑ، پودوں سے آراستہ کرنا ازحد ضروری ہے، کہ ان کے وجود ہی سے کرئہ ارض کے تمام جان داروں کی بقا مشروط ہے۔