پی ڈی ایم نے حکومت مخالف جلسوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، نہ جانے حکومت اُس پر کیوں بوکھلا سی گئی ہے۔ گوجرانوالہ جلسے میں میاں صاحب کی وڈیو لنک سے شعلہ بیانی اور کراچی جلسے پر ’’کیپٹن صفدر ایشو‘‘ کے حوالے سے جو کچھ ہوا، اُس کے ردِعمل میں وزیراعظم کا اپنی ’’ٹائیگر فورس‘‘ سے خطاب کا انداز اِسی کا عکاس تھا۔ یہ ردِعمل فقط وفاقی حکومت کی طرف سے تو ضرور ہونا چاہئے تھا، وزیراعظم کی جانب سے نہیں۔ دوسری جانب میاں صاحب جو ماشاء اللہ مکمل تندرست اور سیاسی طور پر چارجڈ نظر آئے، نے لندن میں اپنے محفوظ ابلاغی مورچے سے جو گولہ باری کی، وہ اُن کے شدید ڈپریشن کو ڈائیگنوز کرگئی۔ وہ جتنی محفوظ جگہ سے مخاطب تھے، اُتنے ہی بےقابو اور اُن کا خطاب اتنا ہی غیرذمے دارانہ تھا۔ ناچیز کی رائے میں اِس کا تجزیہ بھی بڑی صحافتی بےاحتیاطی کے زمرے میں آئے گا کہ ایسے سیاسی ابلاغ کا زیادہ فری کوئنسی میں فالو اپ جاری جمہوری و سیاسی عمل کے لئے بھی مناسب نہیں کہ اِس سے سیاسی انتشار کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ الیکشن 77میں کھلی اور بدترین ملک گیر دھاندلی کے خلاف متحدہ اپوزیشن ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ نے جو تحریک چلائی، وہ اتحاد کے مطالبات کو نہ ماننے کی ضد پر جلد ہی ’’تحریک نفاذ نظام مصطفیٰ‘‘ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اِسے میں نے بڑے پیشہ ورانہ جذبے سے رپورٹ کیا۔ چار سال سے عملی صحافت سے وابستگی پہلے ہی تھی، یوں آٹھ نو سال کی نیوز رپورٹنگ میں جلسے جلوسوں، تحریکوں کا مطالعہ و مشاہدہ اور اِس کا پیشہ ورانہ اظہار میرا ایریا آف انٹرسٹ بن گیا، جو طویل ٹیچنگ کیریئر میں بھی روزنامہ جنگ سے مسلسل وابستگی میں قائم رہا اور یہ (انٹرسٹ) مختلف النوع صحافتی اصناف کی شکل میں تادم پورا ہو رہا ہے۔ کوئٹہ جلسہ حاضری کے حوالے سے بھرپور اور جوش و خروش کا حامل تھا۔ اِس کا قومی مزاج ملک بھر کی اپوزیشن جماعتوں کے پرچموں سے بہت واضح تھا۔ بہت خوشی ہوئی کہ برسوں کے بعد کوئٹہ میں پورے ملک کا اتنا بڑا نمائندہ جلسہ ہوا۔ انتخابی مہمات میں کوئٹہ میں قومی جماعتوں کے جلسے تو صوبائی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہوتے رہے لیکن ایک ہی قومی اتحادی فورم سے اتنے بڑے اور پُرجوش جلسے نے واضح کردیا کہ شکر الحمدللہ، صوبے میں دہشت گردی کے واقعات تعداد اور حجم میں کم تر ہونے (اگرچہ دشمن پورا زور لگا رہا ہے کہ یہ جاری رکھے جائیں) کے بعد اب بلوچستان مرکزی سیاسی دھارے میں آگیا ہے کہ جلسہ سیریز کے وہ قائدین جو سیاسی و صحافتی حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں، سب کے سب موروثی سیاسی لیڈر ہیں۔ خصوصاً تینوں چوٹی کے رہنما مولانا مفتی محمود کے سیاسی وارث مولانا فضل الرحمٰن، محترمہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری، عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے محمود اچکزئی، عطاء اللہ مینگل مرحوم کے سردار اختر مینگل تاہم اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی جو ولی خان مرحوم کے صاحبزادے ہیں، اُن کی جگہ اُن کے برادر نسبتی امیر ہوتی تقاریر کر رہے ہیں لیکن اصل قائد تو اسفند یار ولی ہی ہیں، پھر نظریہ پاکستان کے بڑے علمبردار اور اتحادِ پاکستان کے مرحوم نقیب رہنما مولانا شاہ احمد نورانی کے صاحبزادے اویس نورانی، جنہوں نے ایسا کفر بولا کہ پوری قوم چند لمحے کے لئے سکتے میں آگئی۔ اویس نورانی کی حاصل کی گئی غیرمعمولی توجہ تو چند گھنٹوں کے بعد ہی اُن کے اپنے ہی ٹویٹ سے کافور ہو گئی لیکن یہ بھی عجب تھا کہ قائدینِ جلسہ میں سے کسی ایک بشمول مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز کے، نے بھی تو نوٹس نہیں لیا کہ یہ کیا ہو گیا؟ اویس نورانی سے بات کرکے خود ہی کھڑے ہو کر واضح کر دیتے یا کرا دیتے کہ یہ اُن کے شریک ساتھی سے سہواً ہو گیا۔ سلپ آف ٹنگ تھی، لیکن یہ خاموشی بھی انتہا کی غیرذمے دارانہ اور سخت قابلِ تنقید ہے۔ جہاں تک اِس جلسہ سیریز سے قومی سیاست پر اپنے بزرگوں کے اجتماعی وزن سے بہت ہلکی بچونگڑا اجتماعی قیادت (بشمول مولانا کی بھرپور دنیا دار) کی مکمل اجارہ داری کا تعلق ہے، اُس سے ہماری جمہوریت کے ارتقا کا پول جس طرح کھل رہا ہے، وہ ہر حقیقی سیاسی و جمہوری شعور کے حامل شہری کو پریشان کردینے والا ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ نوجوان اور آنے والی نئی نسل کو یہ ہرگز قبول نہیں ہوگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس کی بڑی وجہ اسٹیٹس کو میں دولت گردی کا رنگ بھی ہے، جو اِس صورت کو مزے لوٹنے والے پارٹی بزرگوں کے لئے قابلِ قبول بناتی ہے۔ جاری جلسہ سیریز کا پُرامن ہونا اور حکومت کا اُنہیں کھلے دل سے اجازت دینا، جاری سیاسی عمل کی مثبت علامتیں ہیں۔ باقی حکومت کے جعلی ہونے ، وزیراعظم کے سلیکٹڈ اور مستعفی ہونے کا مطالبہ، یہ ہماری تقریباً ہر اپوزیشن کی مشترکہ زبان ہوتی ہے کہ اپوزیشن تو ہوتی ہی بےرحم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پر جو غیرمعمولی گولہ باری ہو رہی ہے وہ لوپروفائل میں روایتی تھی لیکن اِن جلسوں اور جس انداز و زبان میں ہو رہی ہے وہ بھی بہت غیرذمے دارانہ طرز عمل ہے، خصوصاً سلامتی سے متعلق امور اب جتنی اہمیت اختیار کر رہے ہیں، اُس میں ہماری اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا عوام پر اِس کا کوئی اثر نہیں ہوگا یا اُلٹا ہوگا، ن لیگ کے پانچ اراکینِ صوبائی اسمبلی (وہ بھی سنٹرل پنجاب سے) کا جو ردِعمل آیا، اُس سے اِس کا واضح اندازہ ہوتا ہے۔