یہ نہایت تشویشناک امر ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا ہے۔ افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں فورسز پر بڑھتے حملے، گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے پے در پے دو دھماکے، بلوچستان میں کچھ روز قبل ہونے والا دھماکہ، ایک ماہ قبل کراچی میں ممتاز عالمِ دین مولانا عادل کو فائرنگ کرکے شہید کیا جانا اور اب پشاور میں گزشتہ روز مدرسہ میں ہونے والا بم دھماکہ اِس بات کا عین ثبوت ہیں کہ وطن عزیز کو داخلی استحکام سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تصادم کی جانب دھکیلنے کی بھی بھرپور مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پشاور رنگ روڈ پر دیرکالونی میںواقع مدرسہ جامعہ زبیریہ میں بم دھماکے میں طلبہ سمیت 8افراد جاں بحق جبکہ 2اساتذہ سمیت 112 زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے وقت درس حدیث جاری تھا ، نامعلوم شخص مدرسے میں آیا اور طلباکے قریب بیگ رکھا ، جیسے ہی وہ اپنے جوتے لینے کے بہانہ باہر نکلا دھماکا ہوگیا۔بتایا گیا ہے کہ یہ امپرووائزڈ ایکسپلوزو ڈیوائس دھماکا تھا جس میں 5 سے 6کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔ پختونخوا حکومت کی جانب سےشہدا ءکے لواحقین کیلئے 5 لاکھ اور زخمیوں کیلئے 2 لاکھ روپے امداد کا اعلان کیاگیا ۔جبکہ صدر عارف علوی،وزیر اعظم عمران خان ،وفاقی وزرا سمیت اپوزیشن رہنمائوں نے بھی واقعہ کی شدید مذمت کی ہے ۔پشاور دھماکے کو رواں سال کا سب سے بڑا اور انتہائی افسوسناک واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد یہ دوسرا حملہ ہے جس میں دہشت گردوں نے بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہی ہے کہ گزشتہ تین چار دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے ہزاروں جانوں کا خراج دینے کے باوجود ہم اب تک اس عفریت سے جان نہیں چھڑاسکے۔ضروری ہوگیا ہے کہ داخلی سیکورٹی کو یقینی بنانے کیلئے ہر ادارہ اپنی اپنی ذمہ داریاں کما حقہ پوری کرے ، صرف مذمت کرنےسے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔