• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے ایک طاقتور جرنیل پرویزمشرف نے 12اکتوبر 1999 کو ایک منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ گوکہ پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت پر کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے الزامات عائدکئے تھے۔ یوں تو پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ 65سالہ زندگی میں پاکستان کے حصے میں جمہوریت یا جمہوری ادوار کم ہی آئے ہیں اور زیادہ فوجی ادوار ہی رہے ہیں۔ پرویزمشرف غالباً چوتھے ڈکٹیٹر ہیں۔اس سے قبل ایوب خان، جرنل یحییٰ ، جرنیل ضیاء الحق بھی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوتے رہے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گزشتہ جمہوری ادوار کے خاتمہ کا جواز بھی جمہوری حکومتوں کی کرپشن بھی بنا ہے۔ جو کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی شہید قائدبے نظیربھٹو کے بنائے ہوئے صدر پاکستان سرار فاروق لغاری تو سویلین تھے۔ جنہوں نے بینظیر کی حکومت کا تختہ اس لئے الٹ دیا کہ ان کی حکومت پر بھی انہوں نے کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے تھے وہ تو کوئی فوجی ڈکٹیٹر نہیں تھے۔ محمدخان جونیجو کی حکومت کا تختہ اور شہید قائد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بھی کرپشن کی بھی بنیاد بناکر چلتی کی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں گوکہ بہت کم عرصہ جمہوری ادوار رہے لیکن اتنی قلیل مدتوں میں بننے والی جمہوری حکومتیں جن میں پاکستان کے سویلین صدر غلام اسحاق خان نے پاکستان پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت اور محمد نوازشریف کی جمہوری حکومت کا خاتمہ بھی کرپشن کو بھی جواز بناکر کیا۔ یوں پاکستان میں کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہ کرسکی۔ اکیسویں صدی میں پاکستان میں دو اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں جن میں پہلی بار کرپشن میں مفاہمتی پالیسیوں پر مبنی اور فرینڈلی اپوزیشن کی بنیاد پر ایک ہینگ پارلیمنٹ نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی اوردوسرا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ڈکٹیٹر (فوجی جنرل) کو گرفت میں لیا گیا۔ معروف اینکر پرسن سے لے کر گاؤں کے نورامصلی تک سبھی کہہ رہے ہیں کہ پرویزمشرف نے پاکستان آکر یہاں موجود دہرے قانون کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ جس طرح غریب شہریوں کے لئے یہاں تعلیم کا میعار کچھ اور امیروں وڈیروں کے لئے معیار تعلیم کچھ اور ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اچھو مراثی، چھیدے تیلی کا پر قومی اسمبلی کا ممبر یا CSPآفسر تو کجا سرکاری کلرک بھی نہیں بن سکتا۔بالکل اسی طرح ایک عام شہری کو چوری کے الزام میں پکڑ کر تھانے میں انہی حوالات کے ننگے فرش پر سلایاجاتا ہے اور چھترول اور تھانیدار جی اور سپاہی جی کی غلیظ مغلظات، تھپڑوں ، گھونسوں، لاتوں سے اس کا استقبال کیاجاتا ہے بلکہ منہ زور تھانیدار جی تو سربزم ہی اس غریب کے کپڑے اتروادیتا ہے جبکہ ایک قومی مجرم کو جیل کی ہوا بھی کھانا نہیں پڑتی۔ اس کے گھر کو ہی تمام آسائشوں سمیت سب جیل کا درجہ دے دیاجاتاہے اور پھر یار لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے۔ موصوف کو باعزت ریمنڈڈیوس کی طرح ملک سے فرار کروادیاجائے گا۔
بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔ سابق صدرجنرل پرویزمشرف جنہوں نے پاکستان آکر غلطی کی اور یا پھر اسے مکافات عمل کہہ لیں وطن واپس آچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بھی طاقتور ممالک سمیت بعض اسلامی ملکوں سے کوئی گارنٹی لی ہو۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے امریکہ تو ہے ہی بے وفا۔ 1970میں ان کے بحری بیڑے کے انتظار میں ہم نے آدھا پاکستان گنوادیا۔گارنٹی تو اس نے ضیاء الحق مرحوم کو بھی دی تھی۔ پھر ان کے ساتھ کیا ہوا گارنٹی تو پرویزمشرف کو NROمیں بھی دی گئی تھی کیا ہوا صدر صاحب چلتے بنے۔ بہرحال :
ان درختوں پر بچھاہے باہتر سانپوں کا جال
ان گھنی چھاؤں کے نیچے بے خبر سویا نہ کر
سوال پیدا ہوتا ہے کہ من مرضی کی اس پارلیمنٹ کا احتساب کون کرے گا۔ ان کی لوٹ مار سے خزانے کو کیسے محفوظ کیاجاسکے گا۔ صدر کے پاس اختیارات نہیں اور فوج کے تمام راستوں کو پرویزمشرف کی شکل میں بند کردیا گیا ہے۔ پاکستان کا پورا ماضی گواہ ہے کہ پاکستان کی ہر جمہوری حکومت کاخاتمہ خواہ وہ فوجی ڈکٹیٹر نے کیا ہو اور یا پھر سویلن صدور نے کیا کرپشن ہی جواز بنا ہے۔ جمہوریت میں اپوزیشن ہی حکومت پر ننگی تلوار ہوتی ہے اور پھر گزشتہ پانچ سال کی طرح پھر فرینڈلی اپوزیشن بنتی رہی کھاؤ اور کھانے دو کی پالیسی اپنائی گئی تو پھر پاکستان اور پاکستان کے کروڑوں عوام کا کیا ہوگا۔ میاں شہباز شریف اکثر سچ ہی کہا کرتے ہیں کہ پاکستان میں آج علی بابا چالیس چوروں کی حکومت ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے پاکستان کی جمہوریت اور مغرب کی جمہوریت کے بیچ کم ازکم پانچ صدیوں کا فاصلہ ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کا سفر ایک عام انسان کے اختیار سے باہر ہے جبکہ سیاسی شعبدہ باز نودولتیے، جاگیردار، سرمایہ دار ،سمگلرز مافیا اور سیاسی دکانداروں کے لئے پارلیمنٹ اور جمہوریت ایک بہترین بزنس ہے جسے آسانی سے ختم نہیں کیاجاسکتا اور اگر چیک اینڈ بیلنس کے تمام راستوں کو بند کردیا گیا تو پھر ایک خونی انقلاب پاکستان کے درپر دستک دیتا ضروری سنائی دے سکتا ہے ، ذرا سوچئے۔
تازہ ترین