سندھ کے مختلف اضلاع میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں خاص طور پر اغواء برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں میں اضافہ، حکومت سندھ اور پولیس دونوں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ آخر اب تک بد امنی کے جن کو بوتل میں بند کیوں نہیں کیا جا سکا۔ یُوں تو سندھ کے متعدد اضلاع بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، لیکن سندھ کا تیسرا بڑا اہم تجارتی شہر سکھر اس حوالے سے زیادہ متاثر دکھائی دیتا ہے۔ شہر سمیت ضلع بھر میں امن و امان کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے، اغواء برائے تاوان کی سنگین وارداتوں کے ساتھ چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث عوام خاص طور پر تاجر برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔
موٹر وے سمیت دیگر علاقوں سے اغواء ہونے والے 6 مغویوں کو دو ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بازیاب نہیں کرایا جاسکا، اغواء کی وارداتوں کا گورنر سندھ نے بھی نوٹس لے لیا اور چند روز قبل آئی جی سندھ مشتاق مہر سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے دو ماہ قبل سکھر موٹر وے سے ڈاکووں کے ہاتھوں سیاسی کارکن کے ساتھی سمیت اغواء اور مغویوں کی عدم بازیابی پر تشویش کا اظہار کیا اور آئی جی سندھ کو مغویوں کی جلد باحفاظت بازیابی کے احکامات دیے، لیکن اس کے باوجود سکھر پولیس مغویوں کو بازیاب کرانے میں تاحال ناکام ثابت ہوئی ہے۔
شہر سمیت ضلع بھر میں صورت حال اس قدر خراب ہے کہ ہر ماہ درجنوں موٹر سائیکلیں اور 40 سے 50 موبائل فون چوری ہوتے ہیں یا چھین لیے جاتے ہیں اور گھروں، دوکانوں میں چوری کی وارداتیں بھی سامنے آتی ہیں، لیکن پولیس کی جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کمزور ہونے کے باعث چور اور ڈاکو رات کی تاریکی کے ساتھ اب دن دیہاڑے وارداتیں کررہے ہیں اور امن امان کی صورت حال کو برقرار رکھنا پولیس کے لیے چیلنج بنتا دکھائی دے رہا ہے، اب ڈاکو چور گھروں میں گھس کر ڈکیتی کررہے ہیں، ایسی ہی ایک واردات گذشتہ دنوں تھانہ راو شفیع اللہ ( بی سیکشن ) کی حدود گنجان آبادی والے علاقے اسٹیشن روڈ سے متصل ٹکر محلے میں ہوئی، جہاں 5 نامعلوم مسلح ڈاکو افتخار راجپوت نامی شخص کے گھر میں دن کے وقت گھسے اور اسلحے کے زور پر گھر میں موجود اہل خانہ کو یرغمال بنالیا۔
ڈاکووں نے گھر سے طلائی زیورات، نقدی اور دیگر قیمتی سامان لوٹا اور فرار ہوگئے۔ ڈاکوؤں کی جانب سے کی جانے والی ڈکیتی کے دوران خوف کے باعث گھر میں موجود 2 خواتین بے ہوش بھی ہوئیں، اس سلسلے میں معلوم ہواہے کہ مذکورہ گھر میں ایک خاتون لیکچرار جس کی تنخواہ حال ہی میں آئی تھی، وہ بھی ڈاکوؤں نے لوٹ لی اور گھر میں ٹیوشن پڑھانے کے ذریعے حاصل ہونےوالی ماہانہ فیس کی مد میں جو رقم گھر میں جمع تھی، وہ بھی ڈاکو لے اڑے۔ پولیس کے مطابق 5 مسلح ڈاکو 7 تولہ سونا اور 3 لاکھ روپے نقدی و دیگر قیمتی سامان لوٹ کر فرار ہوگئے۔
پولیس نے رپورٹ درج کرکے ملوث ملزمان کی گرفتاری کی کوششیں شروع کردی ہیں،لیکن اس واردات میں بھی پولیس ملزمان تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ ایک اور واردات میں ڈاکو روہڑی کے نواحی علاقے علی واہن سے 15 لاکھ روپے مالیت کی 6 بھینسیں، باڑے کے چوکیدار کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ لے گئے۔ ایک اور واردات میں ڈاکو رات گئے دبر کے علاقے سے گل حسن نامی شخص کی لاکھوں روپے مالیت کی 5 بھینیسں لے کر فرار ہوگئے ۔
ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصرکی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے شہریوں خاص طور پر تاجروں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ضلع میں موٹرسائیکل اور موبائل فون چوری اور چھینے جانے کے مسلسل بڑھتے ہوئے واقعات پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک ماہ میں سکھر کے مختلف تھانوں سمیت پنوعاقل، روہڑی، سدوجہ، ٹھکراٹو، جھانگڑو، و دیگر تھانوں کی
حدود میں جرائم جن میں درجنوں موٹرسائیکل اور موبائل فون چوری یا چھینے کی وارداتیں شامل ہیں۔ ان میں اکثر واقعات کی تھانے میں رپورٹ بھی درج نہیں ہے۔ عام طور پر لوگ موبائل فون، پرس یا چوری اور ڈکیتی کی واردات کی رپورٹ پولیس میں درج کرانے تھانے ہی نہیں جاتے اور چوری ڈکیتی کے واقعات جو رونما ہوتے ہیں۔ ان کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی بلکہ ایک پرچے پر لکھ کر رکھ لیا جاتا ہے، کیوں کہ اگر ہر واقعہ کی پولیس ایف آئی آر درج کرئے تو اس کی رپورٹ ایڈیشنل آئی سکھر ریجن اور آئی جی سندھ تک جاتی ہے۔
اس لیے بالا افسران سے جرائم کی وارداتوں کو پوشیدہ رکھنے کے لیے صرف ’’این سی‘‘ نام کی ایک رپورٹ درج کرکے متاثرین کو تسلی دی جاتی ہے کہ جلد ہی ان کی چوری برآمد کرلی جائے گی اور یُوں ہر ماہ ہونے والی چوری اور ڈکیتی کی درجنوں وارداتیں آئی جی سندھ سمیت پولیس کے بالا افسران سے پوشیدہ رہتی ہیں اور ہر جگہ امن ہی امن، چین ہی چین دکھائی دیتا ہے، جب کہ صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے سندھ پولیس کی جانب سے بھی ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں تو کی جارہی ہیں، لیکن اس کے باوجود سکھر میں امن و امان کی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔
پولیس کی ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کمزور ہونے کے باعث اغوا برائے تاوان سمیت ڈکیتی، چوری ودیگر اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیشنل ہائی وے اور لنک روڈ پر بھی لوٹ مار اور رہزنی کی وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ ضلع سکھر جہاں اگر ماضی کے چند برسوں پر نظر ڈالی جائے، تو اس وقت کے ایس ایس پی تنویر حسین تنیو اور امجد احمد شیخ نے اغواء برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں پر نا صرف قابو پایا، بلکہ چوری، ڈکیتی لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم کا خاتمہ یقینی بنایا۔ آج بھی وہی پولیس کے وسائل ہیں، اس کے باوجودجرائم کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر کامران فضل جو کہ ماضی میں ڈی آئی جی سکھر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی جانب سے ریجن کے تمام ضلعی پولیس افسران کو امن و امان کی فضاء بحال رکھنے اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سختی سے ہدایات دی گئی ہیں اور کئی اضلاع میں صورت حال بہتر بھی ہوئی ہے، لیکن سکھر جو کہ ریجن کا اہم ترین ضلع اور تجارتی حب ہے اس ضلع میں جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ اس وقت بھی ڈاکوؤں کے چنگل میں 6 سے زائد افراد موجود ہیں، جنہیں 2 ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پولیس بازیاب نہیں کراسکی ہے۔
6 مغویوں میں سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے کارکن رفیق چاکرانی اور ان کا ساتھی بھی شامل ہے، جنہیں مسلح ڈاکوؤں نے سانگھڑ سے ناران کاغان جاتے ہوئے سکھر کے نزدیک موٹر وے سے اغوا کیا تھا، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گورنر سندھ کی جانب سے سانگھڑ کے سیاسی کارکن رفیق چاکرانی کے اغوا کا نوٹس لیا گیا اور اس حوالے سے گورنر نے آئی جی سندھ مشتاق مہر سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے سیاسی کارکن کے اغوا پر تشویش کا اظہار کیا، اغوا کاروں کےخلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایات دیتے ہوئے رفیق چاکرانی و دیگر مغویوں کی جلد از جلد با حفاظت بازیابی کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی دی تھیں۔
مگر گورنر سندھ عمران اسماعیل کا نوٹس لیے جانا بھی بے سود ثابت ہوا اور پولیس کسی بھی مغوی کو بازیاب نہیں کراسکی ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ فنگشنل کے صوبائی رہنماء اور ضلعی صدر سید شفقت شاہ بھی مغویوں کی بازیابی کے لیے متعدد مرتبہ پولیس کے بالا افسران سے ملاقاتیں کرچکے، لیکن پولیس کی جانب سے جلد بازیابی کی یقین دہانی کرادی جاتی ہے، لیکن پولیس تاحال مغویوں کو بازیاب نہیں کراسکی۔ ایک جانب ضلع بھر میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کردیا ہے، تو دوسری جانب شہر کی گنجان آبادی والے علاقوں سمیت ضلع بھر میں ڈاکوؤں، جرائم پیشہ اور عناصر کی کاروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں، جس کی واضح مثال ڈاکوؤں کی جانب سے مختصر عرصے میں جرائم کی بڑی وارداتیں انجام دینا ہے۔
ڈاکو اور جرائم پیشہ عناصر ڈکیتی، چوری، رہزنی، لوٹ مار کی وارداتیں انجام دے رہے ہیں، مگر پولیس نہ تو ملزمان کو گرفتار کررہی ہے اور نہ ہی مسروقہ سامان کی برآمدگی کو یقینی بنایا جارہا ہے، جس کے باعث عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر مذہبی و تجارتی تنظیموں، شہری و سماجی حلقوں نے بھی جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور پولیس کی گرفت دکھائی دینے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آل سکھر اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹریز کے بانی و قائد حاجی محمد ہارون میمن ، صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ذاکر بندھانی، جمعیت علماء اسلام سٹی سکھر کے امیر مفتی سعود افضل ہالیجوی سمیت دیگر کا کہنا ہے کہ شہر سمیت ضلع بھر میں چوری ڈکیتی لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں روکی جائیں، بدامنی کی لہر نے تاجروں اور شہریوں کو غیر محفوظ بناکر رکھ دیا ہے، پولیس صرف چین کی بانسری بجارہی ہے، تاجر و شہری لٹ رہے ہیں، کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ ایک روز قبل لاہور کے ایک تاجر سے نیم کی چاڑی پر ایک لاکھ روپے سے زائد کی رقم چھین لی گئی، دو موٹرسائیکل سوار ملزمان نے اسلحے کے زور پر واردات کی اور فرار ہوگئے۔ متعلقہ تھانے میں رپورٹ کے باوجود تاحال ملزمان کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔