’’انٹر نیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن‘‘کے تحت ہر سال14نومبر کو دُنیا بَھر میں ’’عالمی یومِ ذیابطیس‘‘منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اِمسال یہ دِن "Diabetes: Nurses Make The Difference" تھیم کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔اصل میںیہ تھیم منتخب کرنے کا مقصد ہر سطح تک ڈائی بیٹیز اسپیشلسٹ نرسز کےاہم کردار کے بارے میں شعور اُجاگر کرنا ہے ،جو ذیابطیس سے متاثرہ مریضوں کی تیمارداری کرتی ہیں۔
ایک حکایت ہے کہ مشہورِ زمانہ بادشاہ، سکندرِ اعظم کی بعد از تلاش بسیار آبِ حیات کے چشمے تک رسائی ہوگئی، لیکن قصداً سیراب نہ ہوا کہ وہاں جسے بھی آبِ حیات پیے دیکھا، وہ طویل عرصے سے زندہ تو تھا، لیکن معذوری و محتاجی کی زندگی بسر کررہا تھا۔ چناں چہ فیصلہ کیا کہ ایک مختصر صحت مند زندگی، طویل مگرلاچار زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ ہر بندہ بشر کی یہی تمنّا ہوتی ہے کہ جتنی بھی زندگی ہو، صحت کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ معذوری، محتاجی اورہر طرح کی بیماری سے محفوظ رکھے۔
اس لیے یہ مشہور کہاوت ہے کہ ’’صحت بڑی دولت ہے۔‘‘لیکن اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چُرائی جاسکتیں کہ جہاں کچھ حوادثِ زمانہ، معروضی حالات انسان کی صحت متاثر کرتے ہیں، وہیں بعض امراض بھی ایسے ہیں کہ اگراُن کے معاملے میں مناسب احتیاط نہ برتی جائے،تونہ صرف زندگی کا دورانیہ کم کردیتے ہیں، بلکہ کئی پیچیدگیوں، معذوریوں سے بھی دوچار کردیتے ہیں ۔ ذیابطیس کا شمار بھی ایسے ہی عوارض میں کیا جاتا ہے۔ نیز، اس عارضے سےصرف متعلقہ فرد ہی نہیں، مریض کے اہلِ خانہ، عزیزو اقارب بھی ذہنی، جسمانی و معاشی طور پر متاثر ہوسکتے ہیں۔
2015ء میں415ملین افراد(41کروڑ50لاکھ)اس عارضے کا شکار تھے اوریہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر مرض کی شرح اسی طرح بڑھتی رہی، تو 2040ء تک یہ تعداد642ملین(64کروڑ20لاکھ)تک پہنچ جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ پچھلے عشرے سےیہ اضافہ ترقّی یافتہ مُمالک کی نسبت کم یا درمیانی آمدنی والے مُمالک ہی میں دیکھنے میںآرہاہے۔ بین الاقوامی ذیابطیس فیڈریشن (IDF) کے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں ذیابطیس کے پھیلائو اور مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دوسرے نمبر پر تھا۔
اِسی فیڈریشن کے نویں مجلّےکے مطابق 2019ء میں19ملین پاکستانی ذیابطیس کا شکارتھے اور آبادی کے لحاظ سے یہ شرح 17.1 فی صد تھی، جو بہرحال بہت زیادہ ہے۔ مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان اس مرض سے متاثرہ دس مُمالک میں سرِفہرست ہے۔ اور یہ بھی المیہ ہے کہ ان 19ملین مریضوں میں سےتقریباً نصف کے قریب(5.8ملین)افراد میں مرض تشخیص ہی نہیں ہوپاتا ۔ واضح رہے کہ دُنیا بَھر میں بھی ذیابطیس میں مبتلا ہر دو میں سے ایک فرد کا مرض تشخیص نہیں ہو پاتا۔اور بر وقت تشخیص نہ ہونا ہی علاج و احتیاط میں تاخیر کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں پیچیدگیوں اور مسائل کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ایک مقامی طبّی ادارے "Diabetes Prevalence Survey Of Pakistan" کے ایک سروے کے مطابق ہمارے یہاں ذیابطیس ہونے سے پہلے والی کیفیت میں، جسے انگریزی میں’’ Pre Diabetes‘‘کہتے ہیں،قریباً10.91 فی صد افراد مبتلا ہیں۔گرچہ طرزِزندگی میں تبدیلی کی وجہ سے اب کم عُمر اور ہر عُمر کے افراد ذیابطیس کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن 51سے60سال کی عُمر کے افرادمیں یہ شرح خاصی بُلند ہے۔
یاد رکھیں، بڑھتی عُمر، وزن کی زیادتی خاص طور پر سینٹرل اوبیسٹی یعنی زیادہ بڑھا ہواپیٹ، فیملی ہسٹری میں ذیابطیس کا شامل ہونا،طرزِزندگی میں تبدیلی، سہل پسندی اور ورزش کا فقدان وغیرہ ذیابطیس کی بڑھتی ہوئی شرح کےبنیادی اسباب ہیں۔ نیز، جس معاشرے میں ذیابطیس سے متعلق معلومات، شعور و آگاہی کا جس قدرفقدان ہوگا، مرض کی شرح میں اضافے اور پیچیدگیوں کے امکانات بھی اُتنے ہی زیادہ پائے جائیں گے۔
ذیابطیس کی پیچیدگیوں سے جسم کا کوئی عضو اور نظام محفوظ نہیں رہتا۔ مناسب نگہداشت اور دیکھ بھال نہ کرنے کے سبب گُردوں کے مسائل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں،خاص طور پر اگر مریض تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہو، غذا متوازن نہ ہو، نمک کا استعمال زیادہ ہو، ورزش نہ کرتا ہو، وزن زائد ہو ، دِل کے امراض یا خاندان میں گُردوں کی بیماری ہو۔ 2019ء میں کیے جانے والے ایک تجزیے کے مطابق پاکستان گُردوں کے امراض میں مبتلا ایک کروڑ70 لاکھ مریضوں کی تعداد کے ساتھ عالمی سطح پر آٹھویں نمبر پر ہے،جس کی بڑی وجہ ذیابطیس اور بُلند فشارِخون ہے۔
ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میںہر10لاکھ میں سے ایک سو افراد کے گُردے مکمل طور پر ناکارہ ہوجاتےہیں، جس کی بنیادی وجہ بھی ذیابطیس ہی ہے۔ہمارے یہاں ہر سال تقریباً 20,000 افراد گُردے ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے لقمۂ اجل بنتے ہیں۔پھرذیابطیس کے مریضوں میں امراضِ قلب، فالج اور دِل کے دورے کے امکانات عام افراد کے مقابلے میں 2سے4 گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ذیابطیس کا دورانیہ جتنا طویل ہو گا،یہ مسائل اتنےہی زیادہ ہوں گے۔
ذیابطیس میں مبتلا بالغ افراد میں فالج اورہارٹ اٹیک اموات کی سب سے بڑی وجہ گردانے جاتے ہیں،جب کہ امراضِ قلب سے ہلاکت کا خدشہ2 سے4گنا زیادہ ہوتا ہے۔ تقریباً68فی صد وہ افراد ،جن کی عُمر 65سال یا اس سے زائد ہو ،اُن میں اموات کی وجہ مختلف قسم کے امراضِ قلب ہی ہیں۔ 2012ءکے ایک تجزیئے کے مطابق ذیابطیس کے شکار65 فی صد افراد میں دِل کا دورہ موت کا باعث بنتا ہے، جب کہ 16فی صد میں فالج ۔
برطانیہ جیسے ترقّی یافتہ مُلک میں بھی ذیابطیس کا عارضہ ہر ہفتے 530 افراد میں ہارٹ اٹیک اور 680 میں فالج کا موجب بنتا ہے۔ ایک اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ فالج کا حملہ کم عُمری میں ہوتا ہے، بہ نسبت اُن افراد کے جن کو ذیا بطیس نہ ہو۔ خاص طور پر جن افراد میں خون میں شکر کی مقدار متوازن نہ ہو، فالج کے دورے کے بعد صحت یابی کا عمل نہ صرف سُست پڑجاتا ہے، بلکہ شرحِ اموات کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ یاد رہے،پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے250فالج کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ان تمام ترمسائل، پیچیدگیوں اور ہلاکت آفرینیوں کے باوجود ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اگر ذیابطیس کا اچھی طرح علاج کروائیں، نگہداشت کریں، خون میں شکرکی مقدار متوازن رکھیں، تمباکو نوشی ترک کر دیں،بُلند فشارِخون پر کنٹرول رہے، وزن بڑھنے نہ دیں، خون میں چکنائی کی مقدار نارمل رکھیں، پیٹ کی چربی کم کریں، ورزش کریں اور مناسب نیند لیں، تو فالج اور دِل کے دورے کےامکانات کم ہو جاتے ہیں۔ذیابطیس سے دماغی صلاحیتیں، افعال بھی متاثر ہوتے ہیں، خصوصاً ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مبتلا20سے40فی صد افراد میں خون کی شریانیںمتاثر ہوجاتی ہیں، خاص طور پر جن افرادمیں خون میں شکر کی مقدار متوازن نہ ہو( یعنی بڑھتی رہتی ہو )اُن میں یہ اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔مثلاً:
٭یادداشت متاثر ہونا: الزائمر ایک دماغی مرض ہے، جس میں روزمرّہ کے معمولات انجام دینا، چلنا پھرنا اور باتیں کرنا مشکل امر بن جاتا ہے۔اِسی طرح ڈیمینشیا(Dementia) کےمرض میں بھی دماغی صلاحیتیں متاثر ہوجاتی ہیں۔ یاد رہے، الزائمر لاحق ہونے کی بڑی وجہ ڈیمینشیا ہے۔ہر وقت تھکاوٹ، کم زوری کا احساس غالب رہتا ہے۔ مریض اکثر اپنے معالج سے یہ فرمایش کرتے نظر آتے ہیں کہ’’ ڈاکٹر صاحب! کوئی طاقت کی دوا بھی لکھ دیں، بہت کم زوری محسوس ہوتی ہے۔‘‘مزاج میں چڑچڑا پَن آجاتا ہے۔سوچنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ گھبراہٹ، بے چینی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ مایوسی، قنوطیت (Depression) کی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے۔
٭قوّتِ سماعت کی خرابی: چوں کہ ذیابطیس کا عارضہ دماغی رگوں اور خون کی شریانوں کو متاثر کرتا ہے،لہٰذا سُننے کی صلاحیت متاثر ہونے کا امکان عام افراد کے مقابلے میں دگنا ہوجاتا ہے۔
٭دانتوں کے امراض: اگر خون میں شکر کی مقدارغیر متوازن ہو(زیادہ رہتی ہو)،تو دانتوں کے امراض کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ عموماً مریض کامنہ خشک رہتا ہے، مسوڑھوں کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں،بلکہ بدتر ہو جاتی ہیں، منہ میں فنگل انفیکشن بھی ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں چھالے ہو جاتے ہیں اور دانت گرنے، جھڑنے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
٭ امراض چشم:خون میں اگر شکر کی مقدار مقررہ کردہ حدود سے تجاوز کر جائے،تودیکھتے ہوئے دھندلا پن محسوس ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میںیہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ایسی صُورت میں کبھی کوئی نیا چشمہ یا عینک نہ خریدی جائے، جب تک خون میں شکر کی مقدار متوازن نہ ہو جائے۔سفید موتیا بھی جلد لاحق ہوسکتا ہے اور کیفیت بھی عام افراد کے مقابلے میں جلدی خراب ہوجاتی ہے،جب کہ کالے موتیا (Glaucoma) کے امکانات عام افراد کی نسبت بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ عمومی شکایات میں سردرد، دھندلا نظر آنا، آنکھوں سے پانی آنا، دائرے نظر آنا وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں کیے گئے ایک تجزیے کے مطابق ذیابطیس اور آنکھوں کی بیماری (Diabetic Retinopathy)کی شرح تمام اقسام کی ذیابطیس میں مجموعی طور پر 28.76 فی صد ہے۔ اس عارضے کے نتیجے میں بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔ بعض کیسز میں ضایع بھی ہوجاتی ہے۔ تاہم، خون میں شکر کی مقدار متوازن رکھی جائے، بُلند فشارِخون، بلڈپریشر اور خون میں چکنائی کی مقدار پر کنٹرول رہے تو ان مسائل سےبچا جاسکتا ہے۔
٭ خواتین کی صحت کے مسائل:خواتین میں دِل کے امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات چار گنا بڑھ جاتے ہیں، جب کہ مَردوں میں یہ خدشات دوگنا زیادہ پائے جاتے ہیں اور مَردوں کے مقابلے میں خواتین یہ امراض زیادہ پیچیدہ ثابت ہوتے ہیں۔ نیز، دیگر طبّی مسائل لاحق ہونےکے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ مایوسی یا ڈیپریشن بھی زیادہ ہوتا ہے۔ زچّہ و بچّہ کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ہرسات میں سے ایک حمل اور زچگی ذیابطیس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ اگر دورانِ حمل خون میں شکر کی مقدار متوازن نہ رہے، تو بچّے میں پیدایشی نقائص ہوسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ زندگی تک خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
٭ پیروں کے مسائل:ذیابطیس سے متاثرہ تقریباً آدھے مریضوں میں اعصابی رگیں متاثر ہو جاتی ہیں، جسے طبّی اصطلاح میں"Diabetic Peripheral Neuropathy" کہتے ہیں۔ مرض کے دورانیے کے ساتھ اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دورانِ خون اور خون کی شریانیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں، اِسے طبّی اصطلاح میں"Peripheral Vascular Disease" کہتے ہیں۔ گرچہ جسم کا کوئی بھی حصّہ اس سے متاثر ہو سکتا ہے، لیکن ٹانگیں اور پاؤںزیادہ متاثر ہوتے ہیں اور پیروں میں دردمحسوس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔پیرپر چوٹ لگ جائے، کٹ جائے، جل جائے، پتا نہیں چلتا ۔
پیروں میں جلن اور سنسناہٹ کا بھی احساس ہوتا ہے۔نیز، پیروں میںزخموں کے امکانات بھی خاصی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عالمی سطح پر ہر تیس سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی فرد اپنی ٹانگ یا پیر سے محروم ہورہاہے۔ ذیابطیس سے متاثرہ افراد میں ٹانگ کٹنے کے امکانات عام افراد کے مقابلے میں دس گنا زیادہ پائےجاتے ہیں اور تقریباً پندرہ فی صد اس عارضے میں مبتلا افراد میں کبھی نہ کبھی پیروں کے مسائل میں مبتلا ہونے کا امکان رہتا ہے۔
٭جِلدی امراض : ٹانگوں کی جِلد پر بھورے رنگ کے دھبّے (Patches) پڑ جاتے ہیں، جنہیں طبّی اصطلاح میں "Diabetic Dermopathy" کہتے ہیں۔گرچہ یہ غیر معمولی اور بدنُما دکھائی دیتے ہیں، لیکن بے ضرر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پھوڑے پھنسیاں، زخم (Carbuncle Cellulitis) اور کئی اور جِلدی امراض بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
٭ نظامِ ہضم، معدے اور جگر کی خرابی :ذیابطیس میں مبتلا مریضوں کو کبھی دست ہوجاتے ہیں، تو کبھی قبض۔کبھی پیٹ میں بھاری پَن کااحساس ہوتا ہے،توکبھی مروڑاُٹھتے محسوس ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اجابت پر کنٹرول نہیں رہتا۔ متلی اور قے بھی ہو سکتی ہے۔ نظامِ ہضم میں خرابی کی وجہ سے خون میں شکر کی مقدار اور توازن بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
٭مثانے کے مسائل:مرض کنٹرول نہ ہونے کی صُورت میں پیشاب کی زیادتی، رات کو پیشاب کے لیے اُٹھنا، بار بار مثانے میں سوز ش جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
٭جوڑوں، پٹّھوں کےامراض:ذیابطیس سے متاثرہ افراد میں جوڑ وں، پٹّھوں کے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بازو اُٹھانے، چلانےاور ہلانے میں دشواری ہوسکتی ہے، جسے طبّی اصطلاح میں "Frozen Shoulder" کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ذیابطیس سے متاثرہ مَرد و خواتین دونوں ہی ازدواجی مسائل کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ اس عارضے کی وجہ سے مختلف اقسام خصوصاً بڑی آنت،خواتین میں ماہ واری بند ہونے کے بعد بریسٹ کینسر (Postmenopausal Breast Cancer)، لبلبہ،بچّہ دانی،، جگر اور مثانے کے سرطان کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، البتہ ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مثانے کے غدود کے کینسر کے امکانات میں خفیف سی کمی بھی واقع ہوجاتی ہے۔
قصّہ مختصر ، ذیابطیس ایک ایسا عارضہ ہے، جس میں احتیاط نہ برتی جائے، تو جسم کا ہر عضو، حصّہ، نظام (یعنی سَر سے پیر تک) متاثر ہوسکتا ہے۔ نیز، طرزِ زندگی بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ 2015ء میں اس کی وجہ سے عالمی سطح پر اموات کی تعداد 50لاکھ تھی اور خدشہ ظاہر کیا گیا کہ 2025ء تک یہ تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ ہو جائے گی، جب کہ پاکستان میں اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی تعداد سالانہ نوّے ہزار ہے، جس میں اکثریت خواتین کی ہے۔2010ء میں برطانیہ میں پیش کی گئی ایک مشاہداتی رپورٹ کے مطابق(جو "diabetes uk" کے نام سے کی گئی)ذیابطیس ٹائپ وَن میں عام افراد کے مقابلے میں عُمر کی کمی 20سال تک ہو سکتی ہے، جب کہ ذیابطیس کی زیادہ مروّجہ قسم ٹائپ ٹو میں زندگی کی کمی کا دورانیہ دس سال تک ہو سکتا ہے۔ ذیابطیس کی وجہ سے پچاس سال کی عُمر والوں میں زندگی کا دورانیہ 8.5 سال تک کم ہو سکتا ہے، بہ نسبت عام افراد کے۔
اگر ساٹھ سال کی عُمر میں ذیابطیس لاحق ہوجائے، تو زندگی کے دورانیے میں کمی 5.4 سال ہوگی، جب کہ 90سال کی عُمر میں ہونے کی صُورت میں یہ فرق ایک سال کا ہوتا ہے۔ اگر بیس سال کی عُمر میں ذیابطیس ٹائپ ٹو ہو جائے، تو حیات کے دورانیے میں دس سال تک کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ذیابطیس کی وجہ سے عرصۂ حیات میں کمی کی وجوہ وہ پیچیدگیاں، مسائل ہیں، جن کا پہلے ذکرکیا جا چُکا ہے۔ تاہم، بسا اوقات کچھ ہنگامی مسائل جیسا کہ خون میں شکر کی مقدار کا خطرناک حد تک کم ہوجانا (Hypoglycemia) اور خون میں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی شکر کی مقدار کی وجہ سے تیزابی کیفیات ڈی کے اے (DKA:Diabetic ketoacidosis) اور ایچ او این کے (HONK:Hyperglycaemic hyperosmolar non-ketotic coma) بھی ناگہانی اور قبل از وقت موت کا سبب بن سکتےہیں۔
اگر مرض بروقت تشخیص ہوجائے اور تاخیر کیے بغیردرست علاج شروع کردیا جائے اور مرض سے متعلق معلومات بھی ہوں تو ذیابطیس کے ساتھ بھی ایک بَھر پور اور طویل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔نیز، مرض کے بڑھتے ہوئےرجحان اورشرح پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے اور اسےپری ڈائی بیٹیزکے مرحلے میں بھی روکا جا سکتا ہے۔
ذیابطیس سے تخفّظ کے لیے ضروری ہے کہ اپنا وزن بڑھنے نہ دیں، پابندی سے ورزش کی جائے(کم از کم 30 منٹ روزانہ ، ہفتے میں کم از کم پانچ دِن یا پھر معالج کی ہدایت کے مطابق)، متوازن صحت بخش اور مناسب غذائیں استعمال کی جائیں۔ بازار ی ،چکنائی والی اشیاء کے استعمال سے اجتناب برتا جائے۔ اپنے معالج سے گاہے بگاہے معائنہ بھی کروائیں۔
علاوہ ازیں، ایک مشاہداتی تجزیئےکے ذریعے(جو DIABETES PREVENTION PROGRAM OR DPPکے نام سےمعروف ہوا)یہ بات واضح ہوگئی ہےکہ وزن کی کمی اور ورزش کے ذریعے ذیابطیس ہونے کے امکانات میں50فی صد کمی لائی جاسکتی ہے۔
بہرحال، یہ ایک ایسا سنگین عارضہ ہے، جس سےطبّی، معاشی، معاشرتی غرض کہ ہر لحاظ سے صرف فرد واحد ہی متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کےاہلِ خانہ، عزیز و اقارب اور مجموعی طور پر معاشرہ، پورا مُلک متاثر ہوتا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ اس سے محفوظ رہنے اور لاحق ہونے کی صُورت میں مسائل، پیچیدگیوں سےبچنے اور روزمرّہ مسائل سے نبردآزماہونے کے ضمن میں آگاہی و شعور کا بہت بڑا حصّہ ہے۔اس کا علاج بھی صرف معالج کے بس کی بات نہیں ،اس میں اہلِ خانہ سمیت دیگر افراد کا بھی بڑا کردار ہے۔
محض چند ادویہ ایک بہتر اور بَھرپور زندگی کی ضامن نہیں ہوتیں(جیسا کہ اکثر ذہن میں ہوتا ہے کہ کوئی ایسی دوا مل جائے، جس سے سب معاملات سدھر جائیں) علاج کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم کی ضرورت رہتی ہے، جس میں ماہرِ اغذیہ کا اہم کردار ہے۔ یاد رکھیے، چاہے ذیابطیس ٹائپ وَن ہو، ٹو یا پھر دورانِ حمل لاحق ہونے والی Gestational Diabetes Mellitus یا کسی بھی قسم کی ذیابطیس ، سال میں ایک بار ماہرِ اغذیہ کا مشورہ از حد ضروری ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ غذائی معلومات کے بغیر درست علاج ممکن نہیں ۔علاوہ ازیں، ایک اہم اور کلیدی کردار ڈائی بیٹیز اسپیشلسٹ نرسز (DSNs:Diabetes Specialist Nurses)کا بھی ہے،جن کی اہمیت اور گراں قدر خدمات تسلیم کرتےہوئے اِمسال، یہ یوم اُن کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مریضوں کو علاج کے سلسلے میں اچھی زندگی گزارنے کی خاطر طرزِزندگی میں تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ علاج کے سلسلے میں آگاہی و شعور ضروری ہے۔ روزمرّہ معمولات میں بھی کئی طرح کے مسائل پیش آسکتے ہیں، اُن کا کیسے سامنا کیا جائے، اگر طبّی مسائل لاحق ہوجائیں، تو کیسے نبردآزما ہوا جائے، مختلف احتیاطی تدابیرکیسے اختیار کی جائیں، تویہاں سےڈی ایس این ایس کا کردار شروع ہوتا ہے۔اکثر اس عارضے میں مبتلا افراد نفسیاتی مسائل کا شکارہوجاتے ہیں، مایوسی اور قنوطیت کی کیفیت بھی طاری ہوسکتی ہے، خاص طور پر جب پیچیدگیاں لاحق ہوجائیں۔
ایسے وقت میں طبّی ماہر کی مشاورت اور ادویہ کے علاوہ مریضوں کو سہارا دینے،ہمّت افزائی کرنے اور بہتر زندگی گزارنے میںمعاونت فراہم کرنے میں ڈائی بیٹیز اسپیشلسٹ نرسز کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ مثلاًادویہ استعمال کرنے کا درست طریقہ سمجھانا کہ انسولین یا انجکیشن کی صُورت میں استعمال ہونے والی ادویہ کیسے استعمال کی جائیں۔مختلف حالات میں مختلف صُورتِ حال میں انہیں کیسے محفوظ رکھا جائے۔ گھر میں، دورانِ سفر، حج یا مذہبی فرائض کی انجام دہی کے دوران یا جیسے اکثر اوقات بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوجاتی ہے،فریج یا ریفریجریٹر نہیں ہے ،تو پھر کیسے انسولین کومحفوظ رکھا جائے یا اس سلسلے میں دوسرے مسائل بھی ہوسکتے ہیں،جیسے دورانِ رمضان یا نفلی روزوں میں کیا احتیاط کی جائے۔
خون میں شکر کی مقدار کیسے جانچی جائے،اس کا طریقۂ کار کیا ہو، کیسےاندراج کیا جائے، ریکارڈ رکھا جائے اور خون میں شکر کی مقدار کن حدود میں رہنی چاہیے(اس میںمتعلقہ مریض کی کیفیات و حالات کے لحاظ سے طبّی ماہر کا مشورہ لازماً شامل ہونا چاہیے)،ضرورت کے وقت یا دُوردراز علاقہ جات میں جہاں سہولتیں میسّر نہ ہوں، معاشی مسائل ہوں، وہاں پیشاب میں خون کی مقدار کا کیسے تعین کیا جائے اور کچھ ہنگامی، اضطرابی اور تیزابی کیفیات (جیسا کہDiabetes Ketoacidosis)جو بالعموم ذیابطیس ٹائپ وَن میں ہوسکتی ہے، شاذونادر ٹائپ ٹو میں بھی، پیشاب کی جانچ سے اس کیفیت کی کیسے تشخیص کی جائے۔ اگر خون میں شکر کی مقدار بڑھ (Hyperglycemia ہوجائے)یا کم ہوجائے تو مریض کے اس کی علامات و کیفیات سے آگاہ کرنا، اس کیفیت سے کیسےبچا جائےاور کیسے علاج کیا جائے۔
نیز، پیروں کے مسائل اور ان کی احتیاط کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا وغیرہ بھی نرسز کے فرائض میں شامل ہے۔ یہ بات بھی مشاہدے میںہے کہ بروقت علاج اوراحتیاط سے تقریباً 85فی صد پیروں کے زخم اور ان کے کٹنے کے امکانات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔نیز،اس مصروف اور متنوع زندگی میں اور بھی کئی مسائل پیش آسکتے ہیں،تو ان سب سے نمٹنےکے لیے ڈائی بیٹیز اسپیشلسٹ نرس سے رابطہ رہنا اَزحد سود مند ثابت ہوتا ہے۔گرچہ ہمارے یہاں تاحال ڈائی بیٹیز اسپیشلسٹ نرسز کا کردار دیگرمُمالک کی طرح فعال اور مربوط نہیں، تاہم کچھ عرصے سے "Diabetes Educator"کے نام سے ایک شعبہ سامنےآیا ہے، جو اگرچہ ابھی تعداد میں کم ہیں، ان کی تربیت گاہیں بھی محدود ہیں ، لیکن گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں کہ ان کی تربیت بھی کم و بیش اُنہی خطوط پر کی جاتی ہے، جو کہ ڈی ایس این ایس کی ہوتی ہے۔
حرفِ آخر کے طور پر اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ کسی بھی فرد یا مریض کے لیے طبّی ماہر سے باربار مشورہ کرنا، روزمرّہ کے معاملات میں رابطہ کرنا اکثر دشوار ہوتا ہے،لہٰذا یہ ڈی ایس این ایس یا ڈائی بیٹیز ایجوکیٹرز معالج اور مریض کے درمیان ایک پُل کا کام انجام دے سکتے ہیں۔
ذیابطیس کا علاج فردِواحدکا کام نہیں، یہ ایک ٹیم ورک ہے، جس کا ایک بنیادی رکن ڈی ایس این ایس ہے، لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ حتمی مشورہ یا رائےبہرحال معالج ہی کی ہوگی۔نوٹ: یہ تمام تر معلومات و ہدایات عمومی ہیں۔ ہر مریض کی کیفیات مخصوص حالات کے تحت مختلف ہوسکتی ہیں، لہٰذا اس سلسلے میں متعلقہ طبّی ماہر کا مشورہ ہی حتمی تصوّر کیا جائے ۔
(مضمون نگار، معروف فزیشن، ماہرِامراضِ ذیابطیس ہیں۔ حنیف اسپتال، التمش جنرل اسپتال اور الحمرا میڈیکل سینٹر، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔نیز، پرائمری کیئر ذیابطیس ایسوسی ایشن، پاکستان کے صدر بھی ہیں)