• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کائنات میں ہر فرد، ہر مظہر اور ہر شے کا کردار متعین ہے۔ وہ چیزیں جو حرکت کرتی ہیں، جو سانس لیتی ہیں، جن میں جان ہے، جن میں روح ہے اور وہ چیزیں جو بظاہر حرکت کرتی دکھائی نہیں دیتیں لیکن اُن میں بھی نشوونما کا عمل جاری رہتا ہے۔ سب کا کردار طے کر دیا گیا ہے۔ کائنات کا گھڑی ساز، جو بہت حکمت والا ہے ،کی منشا ہی اصل قانونِ فطرت ہے۔ یوں سب اس کی رضا اور فطرت کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ صرف انسان، حیوان، چرند، پرند اور حرکت نہ کرنے والے درخت، پودے، سبزہ ہی زندہ نہیں بلکہ بظاہر ساکن اور جامد دکھائی دینے والی اشیاء بھی ساکن اور جامد نہیں۔ چیزیں بنتی، ٹوٹتی، بگڑتی اور پھر بنتی رہتی ہیں۔ ریت چٹان بنتی ہے اور چٹانیں پتھر۔ یہ سب فطری قانون کے تابعدار ہیں۔

فرشتہ اور شیطان دو انتہائوں کے نام ہیں۔ دونوں کے راستے جدا ہیں مگر دونوں اپنی اپنی ڈگر پر چلنے کے پابند ہیں۔ ذرا بھی ادھر ادھر ہونے کی گنجائش نہیں۔انسان کو اسی لیے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے کہ وہ مجبور نہیں ہے۔ اگرچہ اس کی ذات کے بہت سے معاملے بھی طے شدہ ہیں جس طرح جینا مرنا اور کچھ خاص واقعات جنہیں تقدیر بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ آزاد ہے کیونکہ وہ ارادہ اور اختیار رکھتا ہے۔ وہ مرضی کا مالک ہے۔ اس کے پاس اپنا راستہ خود منتخب کرنے کا آپشن ہے۔ نیکی بدی، خیر اور شر دونوں قوتیں اس کے وجود میں پنہاں ہیں۔دونوں کو استعمال کرنے کا اختیار اس کے ارادے اور عقل میں رکھ دیا گیا ہے۔ وہ کس طرح شر کو خیر میں ڈھالتا ہے اور کس طرح خیر سے مزید راستے اُجالتا ہے یہ اُس کی صوابدید ہے۔ آپس میں متضاد قوتوں سے اس کا معاملہ ہے اور اس کی وجہ اس کی روحانی اور مادی حیثیت رکھنا ہے۔ خاک کے پتلے کے اندر جوہر روح ہے۔ دونوں کی غذا، مطالبے اور مقاصد جدا ہیں۔

جسم حدود کا پابند ہے اور روح لامحدود ۔دونوں میں اختلاف ہوتا رہتا ہے، اسی کھینچا تانی میں توازن بگڑ جاتا ہے اور انسان بھٹک جاتا ہے۔انسان کو خود کو راہ راست پر رکھنے کے لئے کسی ایک ضابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسا نقشہ کہ جو منزل کی طرف کامیابی سے لے جائے اور ایک ایسی ہستی کی ضرورت بھی ، جس نے اس ضابطے کی پیروی کر کے نہ صرف ہر نقطہ سمجھایا ہو بلکہ عملی نمونہ سامنے رکھا ہو۔ ہر بندہ اپنے باطن کی دانش اور نور سے آگہی حاصل نہیں کر سکتا۔ فہم کے لیول بھی مختلف ہیں اس لئے ہر دور میں ایسی ہستیاں موجود رہی ہیں جن کی ذات سے جڑا ہر عمل اخلاقی حکم کی صورت اختیار کر لیتا تھا۔ لوگ اس کی پیروی میں اطمینان محسوس کرتے تھے۔ چھٹی صدی کی بشارت حضرت محمد ﷺ ہیں جن کا امتیاز رحمت اور انسانیت کا درد ہے۔ رب العالمین نے حضور ﷺ کو کُل عالم کی شفاعت اور داد رسی کا رتبہ دے کر انہیں رحمت اللعالمین کے بڑے شرف سے نوازا۔ جو اُن پر ایمان لائے مسلمان کہلائے۔ اُن کی اطاعت کی، ان کی سیرت کا مطالعہ کیا تو اطاعت عشق میں بدل گئی۔ ہرمذہب کا صاحبِ شعور پیروکار اُن کی انسانیت نوازی، حُسنِ اخلاق اور انسانی قدروں کے حوالے سے اُن کی فضیلت کا قائل ہے۔ دنیا کی سو بہترین شخصیات میں انہیں پہلا درجہ دیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم جو اُن سے محبت کے داعی ہیں، ہمارے دل اُن کی عقیدت کے سدا بہار پھولوں سے مہکتے ہیں، ہماری آنکھیں ان کی گلیوں کی خا ک کو سرمہ بنانے کے لیے ترستی ہیں، ہمارے ہونٹوں پر ان کا ذکر ہر دم جاری رہتا ہے، ہماری ہر سانس وردِ درود کرتی ہے ،کیا ہمارا کردار اور ہمارا عمل بھی ہمارے احساسات، اعتقادات اور دعوئوں کی گواہی دیتا ہے، ہمارے اخلاق و اطوار میں بھی پیرویٔ رسول ﷺ کی کوئی جھلک موجود ہے۔ برداشت، تحمل، عفو و درگزر اور حلیمی کی کوئی کرن بھی ہمارے احساس کو چھو کر گزری ہے۔ ہم نے رحمت کے میسر سائے سے دوسروں کو بھی فیض یاب کیا ہے۔ محبت اور مہربانی کے لفظوں سے دکھی وجود پر سایہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انسان کی بقا کا افضل سبق ذات پر لاگو کیا ہے۔ کیا ہم جو عشقِ رسول ﷺ کے علمبردار ہیں اس کے معانی بھی جانتے ہیں۔ عشق کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ہر عمل کرتے وقت ان کی ذات سے رہنمائی لیں۔ انہوں نے تو خدا کو نہ ماننے والوں پر بھی رزق کی بندش کا حکم نہیں دیا۔ وہ تو جیت کے موقع پر بھی عام معافی کا اعلان کرنے کا ظرف رکھتے ہیں، وہ جو اپنی مذہبی عمارت میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی جگہ بناتے ہیں، جو اپنی رضا عی بہن کے لیے زمین پراپنی چادر بچھا کر زمانے کو تعظیم عورت کا درس دیتے ہیں۔ حکمت، صداقت، امانت، شفاعت، شفقت کے حوالے سے بھی ہم کہاں کھڑے ہیں، سوچنے کی ضرورت ہے۔عشقِ رسول ﷺ میں جینے کا ہنر سیکھنا ضروری ہے۔ ان کی اطاعت بہترین قوم بننے کی طرف سفر شروع کرنا ہے۔

تازہ ترین