محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
جنرل ضیاء نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کے اختیارات صدر کو منتقل کیے،صدر کو آرٹیکل58-2(b) کے ذریعے اسمبلی کو اپنی صوابدید پر توڑنے کا اختیار دیا گیا ۔یہ اختیار جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو صدر غلام اسحٰق خان نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو ختم کرتے وقت استعمال کیا اس کا چوتھی مرتبہ استعمال صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے وقت کیا،اٹھارہویں ترمیم نے بعض اہم امور میں صدر کو وزیراعظم کی تجویز کا پابند بنادیا ہے۔ وہ مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر ہو یا صوبوں کے گورنروں کا ، یہ فیصلے بظاہر صدر کے نام سے جاری ہوتے ہیں لیکن صدر از خود یہ فیصلے نہیں کرتا بلکہ وہ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے ،وہ وزیراعظم جو پارلیمان کا منتخب کردہ سربراہ ِ حکومت ہے ۔
کتابِ دستور میں لکھی ہوئی چیزیں جب تک عملی طور پر روبہ کار نہ ہوں اور ہماری عملی سیاسی زندگی میں اُن کی عکاسی نہ ہو تب تک اُن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ مقدس عمارتوں کی ہوتی ہے ۔پارلیمانی نظام حقیقی طور پر اُس وقت ثمر آور ہوتا ہے جب ریاست کے سب ادارے اپنے اپنے دائرے میں فعال ہوں اور دوسرے اداروں کے امور میں مداخلت نہ کریں ۔ایک فعال پارلیمان جو معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق قانون سازی کررہی ہو ، جس کے اندر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تعمیری تنقید کرتی ہوں اور بحث و مباحثہ گہرے غور اور مطالعے کا حامل ہو تو ایسی پارلیمان ہی کو ایک اچھی پارلیمان کہا جاسکتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہماری پارلیمنٹ کو ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے
ڈاکٹر سید جعفر احمد
18ویں ترمیم نے ملک میں شراکتی وفاقیت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ یہ ایک عظیم سیاسی اتفاق رائے کی مظہر ہے کیونکہ اس کی تشکیل میں تمام بڑی چھوٹی جماعتوں نے حصہ لیا اور اس عمل کو وقعت دی۔اس ترمیم نے مارشل لاء ادوار کی اچھی خاصی ترامیم کا خاتمہ کرکے پارلیمانی اختیارات کی اصل شکل میں بحالی اور صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا،یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان صوبائی خود مختاری کے محاورے میں لکھا ہوا نیا معاہدہ ہے، یہی سب اختیارات کی امین ہیں۔ جیسے کہ مشترکہ مفادات کونسل، قومی اقتصادی کونسل اور قومی فنانش کمیشن میں اصلاحات، ججوں کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا قیام، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پارلیمنٹ کے ذریعے تقرریاں، نگران حکومتوں اور انسانی حقوق کے اداروں میں پارلیمنٹ کے راستے تقرریاں۔
ریفرنڈم کا سوال بھی اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہی کیا جاسکتا ہے،اٹھارہویں ترمیم معاون اور شراکتی وفاقیت کا پیغام ہے جس کا مقصد وفاق پاکستان کو ایک مشترکہ خاندان کی طرح چلانا ہے،آج ایک دہائی گزر چکی ہے لیکن ابھی تک اس پر پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ وفاق کو شکایت ہے کہ صوبوں کو بہت زیادہ دے دیا گیا ہے اور وہ اپنا کام نہیں کررہے۔ صوبوں کو شکوہ ہے کہ کاغذوں میں بہت کچھ دیا گیا ہے لیکن عملاً آج بھی وسائل اور پالیسی پر وفاق کا کنٹرول ہے ،18ویں ترمیم نے اختیارات افراد سے لے کر اداروں کو دیئے،بہت سارے معاملات ذوق تھانیداری اور شوق ٹھیکیداری کی وجہ سے صوبوں اور وفاق کے درمیان فٹ بال بنے ہوئے ہیں،پاکستان میں آئین پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کے لیے سیاسی مکالمہ ہو، اداروں خصوصاً بیوروکریسی میں اصلاحات ہوں
ظفراللہ خان
اٹھارویں ترمیم پاکستان کی سیاسی تاریخ کاایک اہم سنگ میل ہے، پاکستان صدارتی نظام سے پارلیمانی نظام میں دوبارہ داخل ہوا،پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان جب کہ 15اپریل 2010ء کو سینیٹ آف پاکستان نے پاس کی۔ اس وقت آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے۔ جنہوں نے 19اپریل 2010 میں ایوان صدر میں منعقدہ ایک تقریب میں اس دستاویز پر دستخط کر کے اسے آئین کا حصہ بنادیا۔اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایکزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیے، چونکہ وزیر اعظم قائدِ ایوان ہوتا ہےلہٰذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس آئے۔ اس کے علاوہ پاکستان وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔
کنکرنٹ لسٹ کاخاتمہ کر کے متعدد وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئیں، جن میں تعلیم، صحت ماحولیات، بلدیات و دیہی ترقی ، ترقی نسواں، دیہی اینڈ لائیو اسٹاک، اقلیتیں، ثقافت، خوراک و زراعت، محنت و افرادی قوت ، بہبود آبادی، سوشل ویلفیئر اور اسپیشل ایجوکیشن ، کھیل، سیاحت، امور نوجوانان، زکوٰۃ و عشر بھی شامل ہیں، دو مرتبہ سے زائد وزیراعظم بننے پر پابندی کا خاتمہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ہی نواز شریف تیسری بار وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے،اس ترمیم کے تحت 1973 کے آئین میں تقریبا 100 کے قریب تبدیلیاں کی گئی ہیں جو آئین کے 83 آرٹیکلز پر اثر انداز ہوتی ہیں ، متاثرہ آرٹیکلز میں 1، 6، 10، 17، 19، 25.27، 29، 38، 41، 46، 48، 51، 58، 62، 63، 70، 71، 73، 75، 89، 90، 91، 92، 99، 100، 101، 104، 105، 112، 114، 122، 129، 130، 131، 132، 139، 140، 142، 143، 144، 147، 149، 153، 154، 155، 156، 157، 160، 167، 168، 170، 171، 172، 175، 177، 193، 194، 198، 199، 200، 203، 209، 213، 215، 216، 218، 219، 221، 224، 226، 228، 232، 233، 234، 242، 243، 246، 260، 267، 268، 269 اور 270 شامل ہیں۔ اس ترمیم کے ذریعے فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دور کی گئی ترامیم کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے، جنرل ضیا کے دور میں 8ویں ترمیم کے تحت 1973 کے وفاقی آئین میں 90 سے زیادہ آرٹیکلز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔
اسی ترمیم کے تحت ایک اور فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کی گئی 17ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو بھی قریب قریب ختم کر دیا گیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت شمال مغربی سرحدی صوبہ (صوبہ سرحد) کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخوا رکھا گیاجب کہدو صوبہ جات کے نام کے انگریزی ناموں کے سپیلنگز میں تبدیلی کے تحت Baluchistan کو تبدیل کر کے Balochestan اور Sind کو Sindh کیا گیا ہے۔ 1973 کے آئین میں شامل آرٹیکل 6 ریاست اور آئین سے غداری میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی تھی، 18ویں ترمیم کے تحت اس میں مزید تبدیلی کر کے آرٹیکل 2۔6 الف کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی میں ملوث افراد کو سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت معاف نہیں کر سکتی ۔لہٰذا آئینی طور پر مستقبل میں کسی بھی مارشل لا کا راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 25 الف کا اضافہ کر کے 5 سے 16 برس کی عمر تک تعلیم کی لازمی اور مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
آرٹیکل 38 کے تحت صوبائی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل اور دیگر خدمات کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ بدنام زمانہ آرٹیکل 58 (2) بی جو فوجی آمر ضیا الحق نے متعارف کروایا تھی اور بعد ازاں ایک اور آمر پرویز مشرف کے دور میں اس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، پہلے یہ اختیار صرف صدر مملکت کو حاصل تھا، اب اس کا اختیار جیوڈیشل کمشن اور پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ گو کہ بعد میں 19ویں ترمیم کے تحت اس میں تبدیلی کی گئی ہے اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 17 رکنی بینچ نے ججوں کی تعیناتی کے اختیار میں بہت حد تک تبدیلی کر دی گئی ہے، جو بعد میں 19ویں آئینی ترمیم میں شامل کی گئی ہے۔
اس ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت آرٹیکل 70، 142، 143، 144، 149، 158، 160، 161، 167، 172، 232، 233 اور 234 کو جزوی یا مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بجلی کی پیداوار کا معاملہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں بھی دیا گیا ہے۔ قومی فنانس کمیشن ، قدرتی گیس، صوبائی قرضہ جات، ہنگامی صورت حال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے۔ اس میں سب سے اہم معاملہ ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کے متعلق ہے۔ اب ہنگامی صورت حال کا نفاذ صدر اور گورنر سے لے کر صوبائی اسمبلی کو دے دیا گیا ہے۔
ایک اور بہت بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ آرٹیکل 142 ب اور ج کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو کریمنل قوانین، طریقہ کار اور ثبوت اور شہادت جیسے قوانین کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت کو واپس لاگو کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 46، 48، 75، 90، 91، 99، 101، 105، 116، 129، 130، 131، 139، 231 اور 243 میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ مختلف تبدیلیوں کے ذریعے صدر کو حاصل اختیارات میں خاطرخواہ تبدیلی کی گئی ہے۔ اب صدارتی اختیارات، عوام کے منتخب و نمائندہ وزیر اعظم، پارلیمان، صوبائی اسمبلیوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ اس ترمیم کے تحت آئین سے آمر ضیاالحق کے لیے ’’صدر‘‘ کے لفظ کو نکال دیا گیا ہے۔
وسائل اور فنڈز اور اختیارات کو وفاق سے لے کر صوبوں کو منتقل کرنا، صدراتی اختیارات کو پارلیمان اور وزیر اعظم کو منتقلی اس ترمیم کو وہ سنہری کارنامہ ہے جس کے نتائج ہم نے پچھلے پانچ برس میں دیکھے کہ کتنی ہی کوششوں کے باوجود اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو سکیں، آئین کو سبوتاژ نہیں کیا جا سکا۔
1985ء کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی پارلیمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں کی جانے والی تبدیلیوں کو منظور کیا اور 2002ء کے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمنٹ نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے آئین میں کی گئی چھیڑ چھاڑ کی منظوری دی۔ تاہم، پیپلز پارٹی کی زیر قیادت پارلیمنٹ نے اس کے بالکل الٹ کام کیا۔ مشرف کا عبوری آئینی حکم نامہ (لیگل فریم ورک آرڈر) 2002ء، اس کے ترمیمی ورژن اور آئین میں کی گئی 17ویں ترمیم کو 18ویں ترمیم کے ذریعے ختم کیا گیا۔ آرٹیکل 270-A کا کچھ حصہ اس لحاظ سے منفرد تھا کہ اس میں آئین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی آمر کا نام شامل کیا گیا تھا: ’’ جس کے تحت، 19؍ دسمبر 1984ء کو کرائے جانے والے ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں جنرل محمد ضیا الحق پاکستان کے صدر بن گئے‘‘ آئین سے یہ حصہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
عاصم دستگیر کے مطابق اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے مستقبل میں کسی بھی مارشل لاء کے امکانات کو ختم کر دیا گیا۔ اگرچہ جنرل ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کر دیا تھا، لیکن 1973ء کے آئین کے ساتھ ایسا کسی فوجی آمر نے نہیں کیا۔ اس کی بجائے، اسے معطل کیا گیا یا اس پر عمل روک دیا گیا تاکہ اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے، جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان مہم جوئیوں کی منظوری دی۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 6؍ میں ترمیم کرکے غداری کی تشریح کو وسیع کیا اور جرنیلوں کے ساتھ ایسے ججوں کو بھی دائرے میں شامل کیا جو اس کی منظوری دیتے ہیں، لہٰذا نظریۂ ضرورت کا دور ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا۔
آرٹیکل 6(2A) میں لکھا ہے کہ’ ’ذیلی شق نمبر ایک یا شق نمبر دو میں وضع کردہ سنگین غداری کا اقدام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کوئی عدالت منظور نہیں کرے گی۔‘‘ اس ترمیم کے ذریعے صدر پاکستان کے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے اور گورنر صاحبان کا تقرر کرنے کے اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں، یہ اقدام ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا گیا ہے جو مارشل لا کا سوچتے ہیں کیوںکہ ماضی میں ایسا بہت آسان تھا کیونکہ اس کیلئے مرکز میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب 18ویں ترمیم کے بعد، صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس کے بغیر پارلیمنٹ تحلیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی گورنر صاحبان متعلقہ وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کے بغیر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں نہ ہی گورنر رول نافذ کرسکتے ہیں۔
موجودہ دور میں اٹھارہویں ترمیم پر گرما گرم بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ فورم نے ’’اٹھارہویں ترمیم ، پارلیمنٹ مستحکم یا کم زور؟‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم کا انعقاد کیا جس میں پارلیمانی ریسرچ گروپ کے کنوینر ظفر اللہ خان اور انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر سید جعفر احمد نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد
ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ
قیام پاکستان سے قبل ملک کے مستقبل کے آئینی نظام کی جو چند نمایاں خصوصیات واضح طور سے بیان کردی گئی تھیں اُن میں ملک کا ایک وفاقی نظام کا حامل ہونا اور ساتھ ہی ایک پارلیمانی طرز کی جمہوریت کا حامل ہونا شامل تھا۔قیام پاکستان سے متصل قبل کے برسوں میں صوبائی سطح پر پارلیمانی طرزِ حکومت پہلے ہی رائج تھا۔آزادی کے بعد اسی نظام کو مرکز کی سطح پر بھی استوار کیا جانا تھا۔لیکن بدقسمتی سے ملک ابتدائی نو برس اپنا آئین نہیں بنا سکا اور استعماری دور کا قانون ِ ہند مجریہ 1935ء ملک کا عبوری دستور بنا رہا ۔1956ء میں جب دستور بنایا گیا تو اس کو بظاہر پارلیمانی دستور قرار دیا گیا لیکن اس میں صدر کو غیر معمولی اختیارات حاصل تھے جبکہ دستور میں فراہم کردہ پارلیمانی نظام کی حیثیت محض برائے نام تھی۔
اصولی طور پر پارلیمانی نظام کے حامل ملکوں میں سربراہِ مملکت محض ایک نمائشی عہدہ ہوتا ہے جس کو مملکت کے اتحاد کی علامت تصور کیا جاتا ہے جبکہ اصل انتظامی اختیارات سربراہِ حکومت یعنی وزیراعظم کو حاصل ہوتے ہیں جو ان اختیارات کو پارلیمان کے تعاون کے ساتھ استعمال کرتا ہے ۔1956ء کے آئین کی منظوری کے بعد بااختیار صدر نے اگلے ڈھائی برسوں میں چار وزرائے اعظم کو اُن کے منصب سے الگ کیا۔یہ وزرائے اعظم چوہدری محمد علی،حسین شہید سہروردی،آئی آئی چندریگر اور فیروز خان نون تھے ۔آخری وزیراعظم کی معزولی کے ساتھ آئین کی تنسیخ اور مارشل لاء کے نفاذ کا بھی اعلان کیا گیا۔1962ء میں ایوب خان نے صدارتی طرز کا ایک ایسا آئین نافذ کیا جس کا صدارتی نظام معروف جمہوری صدارتی نظاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اختیارات صدر کو دیتا تھا۔
آزادی کے چھبیس سال بعد1973ء میں ملک کو پہلا متفقہ آئین بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔یہ آئین عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والے اراکینِ دستور ساز اسمبلی نے بنایا تھا۔اس آئین کو بجا طور پر وفاقی پارلیمانی آئین کہا جاسکتا تھا۔لیکن اس میں بھی وفاقی اور پارلیمانی تشخص کو بہتر بنانے کی گنجائش موجود تھی۔بدقسمتی سے یہ آئین دو مرتبہ1977ء اور1999ء میں فوجی آمروں کے ہاتھوں معطل ہوا اور دونوں مرتبہ اس کے وفاقی اور پارلیمانی تشخص کو مزید مجروح کردیا گیا۔وفاقی ادارے ان دونوں ادوار میں عضوِ معطل بنے رہے ۔جبکہ پارلیمانی نظام پر براہ راست حملہ کیا گیا ۔جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں آٹھویں ترمیم پارلیمنٹ سے یہ کہہ کر منظور کروائی گئی کہ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو مارشل لاء نہیں ہٹایا جائے گا۔
آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کے اختیارات صدر کو منتقل کردیے گئے۔صدر کو آرٹیکل58-2(b) کے ذریعے اسمبلی کو اپنی صوابدید پر توڑنے کا اختیار دے دیا گیا ۔یہ اختیار جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو معزول کرتے وقت استعمال کیا۔صدر غلام اسحٰق خان نے اس کو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو ختم کرتے وقت استعمال کیا جبکہ اس کا چوتھی مرتبہ استعمال صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے وقت کیا۔1997ء میں مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف نے دوسر ی مرتبہ برسر اقتدار آنے پر حزب اختلاف کی پیپلز پارٹی کے تعاون سے آئین کی تیرہویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 58-2(b) کو ختم کردیا لیکن اکتوبر 1999ء میں ملک کی تاریخ کے چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا اور2002ء میں آئین میں سترہویں ترمیم کے ذریعے 58-2(b) کو ایک مرتبہ پھر کتاب ِ دستور کا حصہ بنا دیا۔2010ء میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم نے اس آرٹیکل کو منسوخ کرکے 1973ء کے آئین کا پارلیمانی تشخص بحال کرنے کا اقدام کیا۔سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ کام اس وقت ہوا جب آصف زرداری ملک کے صدر تھے۔دوسرے لفظوں میں انہوں نے ایک ایسا اختیار جو وراثت میں ان کو ملا تھا اور ان کو ایک طاقتور صدر بناتا تھا ،اُس کو واپس وزیراعظم کی طرف منتقل کردیا۔
آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں صدر اب اپنی صوابدید پر اسمبلی نہیں توڑ سکتا۔اسمبلی توڑنے کا مشورہ وزیراعظم دے سکتا ہے اور صدر کے لیے یہ مشورہ ایک ہدایت کی حیثیت رکھتا ہے جس کو پورا کرنا اس کا فرض ہے ۔ماضی میں 58-2(b)کے مطابق صدر اسمبلی کو توڑتے وقت وزیراعظم سے مشاورت کرسکتا تھا لیکن اُس کے لیے وزیراعظم کا مشورہ قبول کرنا ضروری نہیں تھا ۔دوسرے لفظوں میں58-2(b)کے مطابق صدر اسمبلی کو توڑتے وقت وزیراعظم سے مشاورت کرسکتا تھالیکن اس کے لیے وزیراعظم سے مشاورت کرسکتا تھا لیکن اُس کے لیے وزیراعظم کا مشورہ قبول کرنا ضروری نہیں تھا۔دوسرے لفظوں میں 58-2(b)نے وزیراعظم کو بااختیار بنایا ہے لیکن بالواسطہ طور پر اس نے پارلیمان کو بھی طاقت فراہم کی ہے جو اب اپنی بقا کے لیے صدر کی منشا کی مرہون منت نہیں ہے ۔
اٹھارہویں ترمیم نے بعض دیگر اہم امور میں بھی صدر کو وزیراعظم کی تجویز کا پابند بنادیا ہے۔ چنانچہ وہ مسلح افواج کے سربراہوں کا تقرر ہو یا صوبوں کے گورنروں کا ، یہ فیصلے بظاہر صدر کے نام سے جاری ہوتے ہیں لیکن صدر از خود یہ فیصلے نہیں کرتا بلکہ وہ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے ،وہ وزیراعظم جو پارلیمان کا منتخب کردہ سربراہ ِ حکومت ہے۔ دوسرے لفظوں میں بالواسطہ طور پر یہاں بھی پارلیمان بااختیار ادارہ قرار پاتی ہے۔
ایک اور اہم شعبہ جو پارلیمنٹ کے بااختیار ہونے کو یقینی بناتا ہے وہ اس کے پاس کردہ مسودہ ہائے قانون کی منظوری کا نظام ہے ۔یہ مسودہ ہائے قانون صدر کے دستخطوں کے بعد ہی قانون کا درجہ حاصل کرتے ہیں لیکن صدر ان مسودوں کو منظور کرنے کا پابند ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ دس روز تک ایسے کسی مسودے کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے لیکن دس روز کی مدت گزرنے پر آئین کی رو سے یہ مسودہ خود بخود صدر کا منظور کردہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے کہ ماضی میں اور خاص طور سے1962ء کے دستور نے صدر کو قومی اسمبلی کے منظور کردہ مسودہ ٔ قانون کو روکے رکھنے اور خود قانون سازی میں دخل انداز ہونے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔
اٹھارہویں ترمیم نے1973ء کے دستور کے پارلیمانی کردار کو بحال تو کیا ہے اور ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہی ہوں گے کہ ہمارا نظام پارلیمانی طرز کا حامل بن چکا ہے مگر آئینی اور سیاسی زندگی کی اس حقیقت سے بھی ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے کہ کتابِ دستور میں لکھی ہوئی چیزیں جب تک عملی طور پر روبہ کار نہ ہوں اور ہماری عملی سیاسی زندگی میں اُن کی عکاسی نہ ہو تب تک اُن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ مقدس عمارتوں کی ہوتی ہے ۔ پارلیمانی نظام حقیقی طور پر اُس وقت ثمر آور ہوتا ہے جب ریاست کے سب ادارے اپنے اپنے دائرے میں فعال ہوں اور دوسرے اداروں کے امور میں مداخلت نہ کریں ۔ایک فعال پارلیمان جو معاشرے کی ضرورتوں کے مطابق قانون سازی کررہی ہو ، جس کے اندر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تعمیری تنقید کرتی ہوں اور بحث و مباحثہ گہرے غور اور مطالعے کا حامل ہو تو ایسی پارلیمان ہی کو ایک اچھی پارلیمان کہا جاسکتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہماری پارلیمنٹ کو ابھی بہت سا سفر طے کرنا ہے ۔
ظفراللہ خان
کنوینر پارلیمانی ریسرچ گروپ
جدید آئین پتھرپرکندہ نہیں ہوتے۔ یہ زندہ جاوید دستاویز ہوتے ہیں جنہیں ضابطہ کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپریل 2010ء میں تاریخی 18 ویں ترمیم منظور کی جسے ’’گفتگو کے ذریعہ قانونی سازی کا انقلاب ‘‘کہا گیا۔
اس تاریخی ترمیمی کی پہلی اینٹ 14؍مئی 2006کا میثاق جمہوریت ہے جس پر دو سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ۔ ن نے دستخط کئے۔
28 مارچ2009ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اس وقت صدر مملکت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک کمیٹی بنانےکا کہا جو آئین میں ترمیم تجویز کرے بعد ازاں صدر مملکت نےوزیر اعظم کوبھی خط کے ذریعے عملی اقدامات کا کہا۔
10 اپریل 2009و قومی اسمبلی نے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی کے قیام کی قرار داد منظور کی۔ سینٹ نے بھی 29 اپریل 2009 کو ایسی ہی قرار داد منظور کی۔ جن کی روشنی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمانی راہنمائوں سے مشاورت کےبعد 25رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات قائم کی جس میں 14سیاسی جماعتوں اور آزاد اراکین کی نمائندگی تھی۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس 25 جون 2009 کو ہوا اورسینٹر میاں رضا ربانی کمیٹی کے متفقہ چیئرمین منتخب ہوئے۔
کمیٹی نے میڈیا کے ذریعہ عوام الناس سے تجاویز اور ترامیم کے حوالے سے سفارشات طلب کیںاور اسے 982تجاویز اور سفارشاعت وصول ہوئیں۔ کمیٹی نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے بھی تجاویز اور سفارشات مانگیں۔ نیز جو آئینی ترامیم کے حوالے سے 91پرائیویٹ ممبربل بھی حاصل کیے۔
کمیٹی نے 77 بند کمرے کے اجلاس کئے اور ہراجلاس اوسطً پانچ گھنٹےکا تھا اس طرح 385 گھنٹے گفت و شنید ہوئی۔ کچھ ایسی طرح کا طریقہ کار 1973 کے آئین کی تشکیل کے وقت اپنایا گیا تھا، کمیٹی نے اپنےٹرم آف ریفرنس کے علاوہ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا:٭ نظام میں شفافیت٭ انفرادی صوابدیدی اختیارات میں کمی۔٭ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی مضبوطی۔٭ صوبائی خود مختاری۔٭ عدلیہ کی آزادی۔٭ بنیادی حقوق کی مضبوطی٭ میرٹ کا فروغ۔٭ اچھا انداز حکمرانی۔اداروں کی مضبوطی۔
قومی اسمبلی نے بحث و مباحثہ کے بعد 8 اپریل 2010 کو اور سینٹ نے 15؍اپریل 2010 کو 18 ویں ترمیم منظور کی۔ ایک ایسی پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم پر دو تہائی اکثریت کا حصول جس میں کسی جماعت کے پاس سادہ اکثریت نہ تھی۔ سیاسی طبقہ کےشعورکی گواہی ہے۔
18ویں ترمیم کیا ہے؟18ویں ترمیم نے ملک میں شراکتی وفاقیت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ یہ ایک عظیم سیاسی اتفاق رائے کی مظہر ہے کیونکہ اس کی تشکیل میں تمام بڑی چھوٹی جماعتوں نے حصہ لیا اور اس عمل کو وقعت دی۔اس ترمیم نے مارشل لاء ادوار کی اچھی خاصی ترامیم کا خاتمہ کرکے پارلیمانی اختیارات کی اصل شکل میں بحالی اور صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا۔
پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے اپنی بند کمرے کی کارروائی کے دوران 3 پراڈکٹس بنائیں۔
پہلی:۔ 18ویں آئینی ترمیم جس کے ذریعے آئین کے 102 آرٹیکلز میں تبدیلی یا ترمیم ہوئی۔ آئین کا چھٹا اور ساتواں جدول ختم ہوئے جبکہ چوتھے شیڈول میں سے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ہوا اور وفاقی قانون سازی کی فہرست۔ اول جو کہ وفاقی پارلیمنٹ اور حکومت کا اختیار ہے اور وفاقی قانون سازی کی فہرست حصہ جو کہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا اختیار ہے جبکہ اداروں، ان کی ریگولیشن اور پالیسی کے اعتبار سے مشترکہ مفادات کونسل کا اختیار ہے یہی کچھ ردوبدل کیا۔
دوسری۔ پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے انتظامیہ کے لیے 11 (گیارہ) سفارشات مرتب کیں جن کا تعلق قوانین میں ترمیم یا پالیسوں میں بہتری سے تھا۔
تیسری۔ 15 تجدیدی نوٹس جو کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے ان امور پر دیئے جن پر کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہوسکا وہ آئینی ترمیم کا حصہ نہ بن سکے۔ ان تجدیدی نوٹس کو ’’منتظر سیاست‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اور یہ نکات تاریخی ریکارڈ ہیں اور مستقبل میں صوبائی خود مختاری میں اضافے کے لیے راہنمائی فراہم کرسکتے ہیں۔
18ویں ترمیم کے بارے میں مکمل تفہیم کے لیے ان تینوں چیزوں کا مطالعہ لازمی ہے۔ اس سے ان تمام سوالوں کے جوابات مل جائیں گے جو ترمیم کے ناقدین اٹھاتے ہیں۔
18ویں آئینی ترمیم مقامی سیاسی فکر کی بنیاد پر قانون سازی، انتظامی امور اور مالیاتی امور کے حوالے سے اصلاحات ہے اسی لیے اس پر عملدرآمد کے بعد یکم جولائی 2011 کو صوبائی خودمختاری کا دن منایا گیا۔یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان صوبائی خود مختاری کے محاورے میں لکھا ہوا نیا معاہدہ ہے۔
اس کے ذریعے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو بااختیار بنایا گیا ہے اور یہی سب اختیارات کی امین ہیں۔ جیسے کہ مشترکہ مفادات کونسل، قومی اقتصادی کونسل اور قومی فنانش کمیشن میں اصلاحات، ججوں کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا قیام، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پارلیمنٹ کے ذریعے تقرریاں، نگران حکومتوں اور انسانی حقوق کے اداروں میں پارلیمنٹ کے راستے تقرریاں۔ ریفرنڈم کا سوال بھی اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہی لکھا جاسکتا ہے۔
یہ متحرک صوبوں کا تصور ہے۔ صوبوں کو ہنگامی حالت کے نفاذ میں کردار، صوبائی گورنر کے لیے شرط کہ اس کا تعلق اس صوبے سے ہو۔ آرٹیکل 140 اے کے ذریعے مقامی حکومتوں کے لیے کم از کم معیارات، قدرتی وسائل میں برابر حصہ اور ملکیت اور قومی فنانس کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کا محفوظ حصہ۔
اٹھارہویں ترمیم معاون اور شراکتی وفاقیت کا پیغام ہے جس کا مقصد وفاق پاکستان کو ایک مشترکہ خاندان کی طرح چلانا ہے۔
تاریخی 18ویں آئینی ترمیم 2010 میں سیاسی اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔ آج ایک دہائی گزر چکی ہے لیکن ابھی تک اس پر پوری طرح سے عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ وفاق کو شکایت ہے کہ صوبوں کو بہت زیادہ دے دیا گیا ہے اور وہ اپنا کام نہیں کررہے۔ صوبوں کو شکوہ ہے کہ کاغذوں میں بہت کچھ دیا گیا ہے لیکن عملاً آج بھی وسائل اور پالیسی پر وفاق کا کنٹرول ہے اور انہیں سانس لینے کی بھی اجازت ہے۔ سچ کیا ہے؟ اس کھوج میں دیکھنا پڑے گا کہ اصل صوتحال کیا ہے؟ وفاقیت کا سوال پاکستان کی بنیاد، قیام اور استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ اس حوالے سے کوتاہیوں کی ہم نے ماضی میں بڑی قیمت چکائی ہے۔ 1973ء کا آئین وفاقیت کی جانب پہلا قدم تھا تاہم اسے چار سال بعد معطل کردیا گیا اور پھر اس میں ایسی ایسی ترامیم کی گئیں کہ اس کی وفاقی پارلیمانی روح زخمی ہوگئی۔ اتھار ویں ترمیم نے اسے کچھ حد تک بحال کرنے کی سعی کی۔ اس ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو طاقت اور اختیار کا مرکز و محور بنایا گیا نیز ان اداروں کو وہ اختیارات بھی واپس کئے گئے جو ایوان صدر چلے گئے تھے۔
18ویں ترمیم نے اختیارات افراد سے لیکر اداروں کو دیئے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا قیام تو 1973ء میں ہوا لیکن 2010ء تک 37 سالوں میں اس کے فقط 11 اجلاس ہوئے اب فقط گزشتہ 10 سالوں میں اس کے 33 اجلاس ہوچکے اور اس نے ملک کو پہلی واٹر پالیسی دی اور بھی بہت کام کئے۔ تاہم آج بھی دستور کی منشاء کے مطابق اس کا علیحدہ سیکریٹریٹ نہیں۔ کونسل اپنی دس سالانہ رپورٹیں پارلیمنٹ کے سامنے رکھ چکی ہے لیکن ان پر فقط ایک بار صرف سینٹ آف پاکستان میں بحث ہوئی کونسل کی دس سالہ کارکردگی کو پرکھیں تو صوبائی خودمختاری کے لیے چیخ و پکار کرتے صوبے ہمیں کچھ زیادہ متحرک دیکھائی نہیں دیئے۔ اس کے اجلاس بھی آئین مطابق ہر 90 دن کے بعد نہیں ہوتے۔ کچھ ایسا ہی حال قومی اقتصادی کونسل کا ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد اس کے ہر سال کم از کم دو اجلاس ہونے چاہئیں تاکہ ملک قوم کی اقتصادی منصوبہ بندی پالیسی کے رہنما اصولوں کے مطابق ہوسکے 2010 سے 2020 تک اس کے فقط 10 اجلاس ہوئے وہ بھی وفاقی بجٹ سے پہلے رسمی منظوری کے لیے اگر باقی 10 اجلاس بھی ہوتے تو شاید وفاق اور صوبے باہم مل بیٹھ کر ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی کرلیتے۔ قومی اقتصادی کونسل کی سالانہ رپورٹ بھی 2018ء کے بعد سے پارلیمنٹ کے سامنے نہیں رکھی گئی۔
نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ بھی 2009 سے چل رہا ہے حالانکہ اسے ہر پانچ سال بعد ہونا چاہئے تھا۔ یہ ایوارڈ 18ویں ترمیم سے پہلے ہوا تھا اس کے بعد صوبوں کی ذمہ داریاں بڑھیں۔ صوبے کہتے ہیں وفاق ہمیں وسائل کا پورا حصہ نہیں دیتا جو دیتا بھی ہے وہ بجٹ سر پلس کے نام پر خرچ نہیں کرنے دیتا۔ یہ سارے امور ہائوس آف فیڈریشن، سینٹ آف پاکستان میں آنے چاہئے تھے لیکن وہاں بھی اب سستی کا راج ہے سینٹ نے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے حوالے سے خصوصی کمیٹی بھی بنائی تھی لیکن شاید یہ اب نئے پاکستان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف چارٹر آف ڈیمو کریسی اور 18ویں ترمیم کے عمل کا حصہ نہیں تھی کیونکہ اس وقت اس کی پارلیمانی نمائندگی نہ تھی۔ لیکن آئین تو ملک و قوم کا ہوتا ہے کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں۔ ہاں اگر انہیں اعتراضات ہیں تو آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق ترامیم لائیں اور اس پر قومی اتفاق رائے قائم کریں آخر 18ویں ترمیم بھی تو اس وقت ہوئی تھی جب اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس سادہ اکثریت بھی نہ تھی۔ کامیابی کی کنجی قومی سیاسی اتفاق رائے تھی۔ دوسرا یہ بھی دکھ کی بات ہے کہ سینٹ آف پاکستان بھی اپنے قیام کے مقاصد سے ادھر ادھر ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے دیگر صوبوں سے اپنے لوگ سینیٹر بنوالیے ہیں جو صوبائی معاملات پر بہت کم وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔
18ویں ترمیم کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی کہ بین الاقوامی ڈونر ’’اعدادوشمار‘‘ اور ’’رابطے کے فقدان‘‘ کا بہانہ بناکر اس پر تنقید کرتے ہیں حالانکہ 2019 میں پارلیمنٹ نے اعدادوشمار کی تنظیم نو کا ایکٹ پاس کیا اور ہر صوبے میں شماریات کا بیورو موجود ہے۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ شماریات کی وفاقی وزارت کو منصوبہ بندی کی وزارت میں ضم کردیا گیا اور جنوری 2018 سے پاکستان شماریات بیورو سربراہ سے محروم ہے۔ لگتا ہے کہ بہت سارے معاملات ذوق تھانیداری اور شوق ٹھیکیداری کی وجہ سے صوبوں اور وفاق کے درمیان فٹ بال بنے ہوئے ہیں جبکہ آئین بطور ریاست کے جمہوری سافٹ ویئر کے معاون اور شراکتی وفاقیت کی بات کرتا ہے۔ آئین تو اس حد تک جاتا ہے کہ صوبے اگر اپنا کوئی کام نہیں کرپا رہے تو وہ اپنی اسمبلی میں قرارداد منظور کرکے یہ کام وفاق کے ذمہ دے سکتے ہیں۔
اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں قدرتی آفات کا قانون ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی وغیرہ لیکن شاید اسلام آباد سب کچھ چھین کر اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی بے جا نہ ہوگی کہ ہمارے صوبے تاریخی سرزمین کے طور پر صدیوں سے موجود ہیں لیکن ان کا انتظامی اور قانون سازی کا ارتقاء جدا جدا ہے۔ سندھ بمبئی سے الگ ہوکر 1937 میں صوبہ بنا تو بلوچستان کو یہ درجہ 1970 میں نصیب ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ 18ویں ترمیم نے آرٹیکل 140 اے کے ذریعے چار معیارات کو مدنظر رکھ کر اپنا اپنا مقامی حکومت کا نظام بنانے کا اختیار دیا تھا۔ یہ معیارات تھے کہ مقامی حکومت کو مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات ہونگے اور یہ منتخب ہوں گی۔ اس سفر میں محمود و ایاز یعنی سبھی صوبے اور وفاق اسلام آباد اور چھائونیوں کے بورڈز کے حوالے سے ناکام ہوئے ہیں اس حوالے سے ان طبقات یا سیاسی گروپس نے خوب شور بھی مچایا جو صوبائی حکومت کا حکمراں حصہ نہیں۔ آج گورننس کا نظام جمہوری مقامی بنیادوں کے بغیر کھڑا ہے۔
آج 18ویں ترمیم پر بات کی جائے تو سیاسی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ غالباً ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں آئین پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کے لیے سیاسی مکالمہ ہو، اداروں خصوصاً بیوروکریسی میں اصلاحات ہوں۔ 18ویں ترمیم آئین میں کوئی فل اسٹاپ نہیں بلکہ شہریوں کو حکمرانی کے حوالے سے اچھی ڈیل دینے کی جانب قدم ہے۔ اس تناظر میں اس میں بہتری کی گنجائش یقیناً موجود ہوگی۔ اس حوالے سے کم بات ہوتی ہے اور رول بیک کی بات زیادہ ہوتی ہے۔
سیاسی و سماجی ارتقاء کو ریسورس گیئر نہیں لگایا جاسکتا۔ 22کروڑ پاکستانی اچھی، باوقار اور خوشحال زندگی چاہتے ہیں۔ متوازن جمہوری وفاقی سفر کے لیے انہیں دونوں پر چاہیں اول سیاسی حقوق دوئم معاشی حقوق ٹوٹے ہوئے پروں کے ساتھ بلندیوں کی جانب پرواز کا خواب ناممکن ہے۔ ہمیں پاکستان کو معاون اور مہربان وفاق، متحرک صوبے اور فعال مقامی حکومتیں چاہیں وگرنہ مایوسیوں کے بادل پہلے ہی گہرے ہیں۔ مزید گہرے ہوتے چلے جائیں گے۔