• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جی بی انتخابات: کیا وفاق میں برسرِاقتدار جماعت حکومت بنالے گی؟

گلگت بلتستان میں 15نومبر کو ہونے والے انتخابات کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔جی بی کو انتظامی لحاظ سے صوبائی درجہ ملنے کے بعد یہ تیسرے انتخابات ہیں۔پہلی صوبائی اسمبلی کے 2009 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اس وقت کی وفاق میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلزپارٹی جی بی میں جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور سید مہدی شاہ جی بی کے اولین وزیر اعلی بن گئے۔ دوسری مدت کیلئے انتخابات کا انعقاد 2015 میں ہواجس میں حسبِ روایت پھر وفاق میں برسر اقتدار جماعت مسلم لیگ ن کو گلگت بلتستان میں واضح اکثریت سے کامیابی ملی اور پارٹی کے صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمن جی بی کے دوسرے وزیر اعلی منتخب ہو گئے۔ 

اگر اِن دونوں حکومتوں کا موازنہ کریںتو جی بی کی پہلی صوبائی حکومت کے دور میں ترقیاتی کاموں کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی اشد ضرورت تھی۔ پھر 2015میںجی بی میں مسلم لیگ نواز کے دور کاآغاز ہوا جس کی مدت جون 2020 میں مکمل ہوئی۔حافظ حفیظ الرحمن کے وزیراعلٰی کی حیثیت سے اس پانچ سالہ دور میں گلگت سمیت جی بی کے بیشتر اضلاع میں بڑے اور قابل ذکر ترقیاتی کام ہوئے۔

نئ سڑکوں اور بڑے بڑے آرسی سی پلوں کی تعمیر کے علاوہ موصلات، صحت عامہ اور تعلیم کے شعبے میں متعدد اہم منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا گیا۔مگر حافظ حفیظ الرحمن پر ان کے اقتدار کے آغاز سے ون مین شو،ٹھیکیداروں کے ایک گروپ کو نوازنے اور انتہا درجے کی اقرباء پروری کے الزامات بھی لگتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ جب نئے انتخابات کا اعلان ہواتومسلم لیگ ن کے تقریباً تمام الیکٹ ایبلز نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ اکثر نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ٹکٹ بھی حاصل کرلیا۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حافظ حفیظ الرحمن سمیت پورے جی بی میں مسلم لیگ نواز کے صرف 3 سینئر پارلیمینٹیرینز میدان میں موجود ہیں۔

باقی تمام ٹکٹس نئے چہروں کو دیے گئے ہیں۔اس وقت سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔بلاول بھٹو پہلی قد آور سیاسی شخصیت ہیںجو 23 روزہ انتخابی دورے پر گلگت بلتستان میں موجود ہیں۔جی بی اسمبلی کے تمام 24 حلقوں میں ترتیب دیے گئے شیڈول کے مطابق کارنر میٹنگز اور جلسوں سے ان کے خطاب کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔جو انتخابی سرگرمیوں کے آخری دن تک جاری رہے گا۔بلاول بھٹو کی آمد اور 15 نومبر کے الیکشن میں ان کی غیر معمولی دلچسپی نے پی پی پی کے کارکنوں میں نئی جان ڈال دی ہےاور وہ یہ دعوے بھی کر رہے ہیں اس بار گلگت بلتستان میں یقینی طور پر حکومت پیپلز پارٹی ہی بنائے گی۔

دوسری جانب بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترنے والی وفاق کی حکمران جماعت پی ٹی آئی کے صوبائی صدر جسٹس(ر)سید جعفر شاہ کے تقریباً 1 ماہ قبل انتقال کرجانے کے باعث تحریک انصاف کو بڑا جھٹکا لگا اور پارٹی کی انتخابی مہم بھی متاثر ہوئی۔

وزیر اعظم عمران خان گزشتہ سال کی طرح اس مرتبہ پھر یکم نومبر کو گلگت بلتستان کے 73 ویں یومِ آذادی کی مرکزی تقریب میں شرکت کے لیے مختصر دورے پر گلگت آئے اور اپنے خطاب میں کہا کہ میں بہت سارے اعلانات کرنے والا تھامگر الیکشن کی وجہ سے نہیں کر رہامگر دورانِ خطاب ہی جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کردیا اور جی بی کے عوام کو یومِ آزادی کے ساتھ ساتھ نئے عبوری صوبے کی بھی مبارکباد دی۔

ماضی قریب میں ایک دوسرے کی بدترین مخالف اور اب وفاق میں پی ڈی ایم کا حصہ دونوں بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے وزیر اعظم کے دورہ گلگت کے موقع پر عبوری صوبے کے اعلان اور وفاقی وزراء کے اپنے پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات اور کھلے عام ووٹ کے بدلے بھاری رقم کی پیشکش پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔اور اسے الیکشن قوانین کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

مسلم لیگ ن نے اس صورتحال کا نوٹس نہ لیے جانے پر الیکشن کمیشن جی بی اور حکومت دونوں کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں کا آغاز بھی کیا ہے۔جبکہ پیپلزپارٹی نے اسے الیکشن سے قبل دھاندلی قرار دے کرعدالت سے رجوع کیا ہے۔دونوں جماعتوں کی توپوں کارخ اس وقت پوری تحریک انصاف کی طرف ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آنے والے انتخابات میں پہلے کی طرح وفاق میں برسر اقتدار جماعت ہی گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگی یا پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف آذاد ارکان کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین