• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عکّاسی: اسرائیل انصاری

عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ذیابطیس کے شکار ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے اور اس کے بہت جلد تیسرے نمبر پر آنے کا خدشہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں ہر پانچواں شخص اِس موذی مرض کی لپیٹ میں ہے۔ آخر یہ مرض یہاں وبا کی صُورت کیوں پھیل رہا ہے؟ عوام کو اِس سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ علاج کیا ہے؟ اور یہ کہ اِس حوالے سے شعور اجاگر کرنے اور علاج معالجے کے معیار کی بہتری کے لیے کیا کوششیں ہو رہی ہیں؟ 

یہ اور اِسی طرح کے دیگر پہلوؤں پر بات کرنے کے لیے گزشتہ دنوں کراچی کے معروف ڈاکٹرز اور ’’پرائمری کئیر ڈائی بیٹیز ایسوسی ایشن‘‘(PCDA) کے عُہدے داروں کے ساتھ ایک گروپ ڈسکشن ہوئی، جس میں ڈاکٹر سیّد منصور علی( صدر، پی سی ڈی اے)، ڈاکٹر فرید الدّین( وائس پریذیڈنٹ)، ڈاکٹر ریاست علی خان( جنرل سیکریٹری)، ڈاکٹر عاصمہ خان( سیکریٹری شعبۂ تحقیق)، ڈاکٹر شکیل احمد( میڈیا سیکریٹری) اور ڈاکٹر شاہد اختر( سیکریٹری پبلی کیشنز) نے سوالات کے جواب دئیے۔

پی سی ڈی اے، قیام اور اغراض و مقاصد

کراچی کے چند ڈاکٹرز نے 2009ء میں ’’ پرائمری کیئر ڈائی بیٹیز ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی، جو آج ایک تناور درخت کا رُوپ دھار چُکی ہے۔ اس کی برانچز سندھ کے تقریباً تمام اضلاع میں موجود ہیں، جب کہ مُلک کے دیگر حصّوں میں بھی اس کے ارکان خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سیّد منصور علی اور ڈاکٹر ریاست علی خان نے بتایا’’ اِس تنظیم کا بنیادی مقصد پرائمری کئیر فزیشنز کو تربیت فراہم کرنا، عوام میں ذیابطیس سے متعلق شعور اجاگر کرنا اور اِس مرض سے متعلق مزید تحقیق سامنے لانا ہے۔ 

اِس بات کی اہمیت کو اِس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ شہر میں بہت سے کنسلٹنٹس موجود ہیں، لیکن ہر مریض کی اُن تک رسائی نہیں۔ کسی بیماری کی صُورت میں عوام اپنے فیملی فزیشن ہی سے رابطہ کرتے ہیں، تو ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ان پرائمری کئیر فزیشنز کو ذیابطیس کے حوالے سے ضروری تربیت فراہم کی جائے تاکہ مرض کی پہلے ہی مرحلے میں تشخیص ہوسکے اور اسی سطح پر علاج معالجہ بھی کیا جاسکے۔

ہم چاہتے ہیں کہ جو اِس مرض میں مبتلا ہو چُکے ہیں، اُنھیں گھر کے قریب اور ایک ہی جگہ علاج کی سہولتیں مہیا کی جائیں اور جو ابھی رِسک پر ہیں، اُنھیں اِس مرض سے بچایا جائے۔ ایک شخص پاؤں کے زخموں کے علاج کے لیے کسی دُور دراز علاقے سے کراچی آتا ہے، جسے یہاں رہائش کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جیب پر بھی وزن پڑتا ہے، اگر اُسے یہ سہولت گھر کے قریب مل جائے، تو وہ زیادہ سنجیدگی اور استقامت سے اپنا علاج کروا سکے گا۔پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شوگر کا علاج طے شدہ معیار کے مطابق کیا جائے، لہٰذا ہم اِس ضمن میں بھی ڈاکٹرز کو خصوصی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔اِس مقصد کے لیے چھے سمپوزیم کر چُکے ہیں۔نیز، مختلف علاقوں میں محدود تعداد میں ڈاکٹرز کو جمع کرکے تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ تنظیم کی جانب سے چھے ماہ کا آن لائن کورس بھی متعارف کروایا گیا ہے، جس کے ذریعے 300 ڈاکٹرز تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ اِس کورس کی افادیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افتتاحی لیکچر’’انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن‘‘ کے صدر نے دیا۔‘‘ 

عوام میں اِس مرض سے متعلق آگاہی کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا’’ ہم مختلف علاقوں میں آگاہی مہم چلاتے رہتے ہیں، جب کہ ڈاکٹرز کو بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ مریضوں کو اِس مرض سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کریں۔‘‘ ڈاکٹر شکیل احمد نے بتایا’’ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے، یو ٹیوب اور فیس بُک پر ماہرین کی آرا پر مشتمل شارٹ ویڈیوز اَپ لوڈ کی جا رہی ہیں۔نیز، اخبارات و جرائد میں اس مرض کے مختلف پہلوؤں پر مضامین لکھے جا رہے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر شاہد اختر کا کہنا تھا کہ’’ تنظیم کی جانب سے کئی کتب اور پمفلٹس شایع کروائے گئے ہیں، جب کہ نیوز لیٹر بھی باقاعدگی سے شایع کیا جاتا ہے۔‘‘

تحقیقی خدمات

پی سی ڈی اے کا شعبۂ تحقیق خاصا فعال ہے۔ شوگر چیک کرنے کی گائیڈ لائنز اسی کے ذریعے طے کی گئیں، جب کہ یہ شعبہ مختلف ادویہ پر بھی کام کر رہا ہے۔شعبے کی سربراہ، ڈاکٹر عاصمہ خان نے مختلف سوالات کے جواب میں بتایا’’ ہمیں سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ ذیابطیس سے بچاؤ اور اس کے علاج معالجے کے لیے عالمی سطح پر طے کردہ طریقۂ کار ہمارے ماحول میں کس قدر مفید ثابت ہو سکتا ہے؟ 

ہمارا اور مغرب کا رہن سہن کا طریقۂ کار بہت مختلف ہے، جو ذیابطیس میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ہم وہاں کے ماڈل کو ہو بہو یہاں نہیں اپنا سکتے۔ہماری تحقیق کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ عوام کو اس مرض سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟نیز، ہم علاج معالجے کے حوالے سے مختلف ادویہ پر بھی کام کر رہے ہیں کہ پاکستان میں کس دوا کی کتنی مقدار کافی ہوگی۔‘‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ عام خیال تھا کہ پاکستان میں آٹھ، دس فی صد سے زیادہ شوگر کے مریض نہیں، تاہم مشاہدہ و تجربہ اس کے برعکس رہا۔ہم نے ایک مُلک گیر پروگرام کے تحت کئی اداروں کی معاونت سے صحرائے تھر کے دُور دراز دیہات سے لے کر شمالی علاقہ جات کے برف پوش پہاڑوں میں آباد بستیوں تک کے سائنسی بنیادوں پر اعداد وشمار جمع کیے، تو یہ ہول ناک انکشاف ہوا کہ پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد 26 فی صد کے قریب ہے۔اس سروے کو آئی ڈی ایف نے بھی تسلیم کیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان پر زیادہ توجّہ بھی دینی شروع کی۔بہت سے افراد کو تو اس پروگرام کے دَوران کیے گئے ٹیسٹس سے علم ہوا کہ انھوں نے تو ایک عرصے سے یہ مرض پال رکھا ہے۔‘‘

حکومتی تعاون

’’ کیا تنظیم کو حکومت کا تعاون بھی حاصل ہے؟‘‘ اِس سوال کے جواب میں نائب صدر، ڈاکٹر فرید الدّین کا کہنا تھا کہ’’ خیبر پختون خوا حکومت کے ساتھ مل کر کئی پروگرامز پر کام ہوا ہے، جب کہ سندھ حکومت سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ ہمیں اپنے پراجیکٹس میں بہت سے مقامی اور غیر مُلکی اداروں کی معاونت حاصل ہے، جب کہ ہم بھی اُن سے تعاون کرتے ہیں۔پھر ہمارے پروگرامز میں سینئر ڈاکٹرز رضا کارانہ طور پر بھی خدمات فراہم کرتے ہیں۔‘‘

ذیابطیس ہے کیا؟ اور یہ انسانی صحت کے لیے کس قدر خطرناک ہے؟

اِس سوال کے جواب میں طبّی ماہرین نے بتایا’’ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جسم میں گلوکوز کی سطح بڑھنے کو ذیابطیس کہتے ہیں۔ یہ گلوکوز خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتا ہے، جس کی وجہ سے مختلف پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔یہ ایک خاموش قاتل ہے، جس کا بعض اوقات کئی کئی برس تک علم بھی نہیں ہوتا۔

شوگر گردوں کی خرابی، فالج، دل کے دورے کا بھی سبب بنتی ہے۔ دماغی اور سُننے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ دانت جھڑنے لگتے ہیں، بینائی ضائع ہونے کا بڑا سبب یہی مرض ہے۔نظامِ ہضم متاثر ہوتا ہے اور جگر پر چربی چڑھنے لگتی ہے، جو کینسر کا سبب بن سکتی ہے۔پٹّھے کم زور اور ہڈیاں بُھربُھری ہوجاتی ہیں۔ ڈائی لیسز کے 40 فی صد مریض ذیابطیس ہی کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ گویا یہ مرض سر سے پیر تک پورے جسم کو متاثر کرتا ہے۔

شوگر کیوں ہوتی ہے؟

اِن ڈاکٹرز کے مطابق ہمارے طرزِ زندگی کا اِس مرض سے گہرا تعلق ہے۔ پہلے لوگ میلوں پیدل چلتے تھے، سادہ غذائیں کھاتے، جسمانی مشقّت کے عادی تھے، مگر اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ صرف شہری زندگی ہی نہیں، دیہات بھی اب وہ روایتی دیہات نہیں رہے۔ ڈاکٹر ریاست علی نے ایک تجربہ شئیر کیا ’’ہمیں پتا چلا کہ ایک گاؤں میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔جب تحقیق کی تو معلوم ہوا، یہ گاؤں مرکزی شاہ راہ سے تین، چار کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے، پہلے لوگ یہ سفر پیدل طے کرتے تھے، جس کی وجہ سے اُن کی صحت ٹھیک رہتی تھی، مگر اب وہاں چنگ چی رکشے چلنے لگے ہیں، جس کے سبب پیدل چلنے کی عادت ختم ہوگئی۔‘‘ 

ڈاکٹر عاصمہ خان نے اِس جانب اشارہ کیا کہ’’ اب تو گھر کے قریب کی دُکان سے ڈبل روٹی لانی ہو، تب بھی بائیک ہی پر جاتے ہیں۔ دفاتر میں کام کرنے والوں کی حالت زیادہ خطرناک ہے کہ وہ تو صبح سے شام تک بیٹھے ہی رہتے ہیں اور دفتر سے گھر آکر بستر سنبھال لیتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر سیّد منصور نے خوف ناک صُورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا’’ اِس مسئلے کو سنجیدہ نہ لینے کے سبب اب ذیابطیس کی ٹائپ ٹو قسم دس، پندرہ سال کے بچّوں میں بھی مل جاتی ہے، جو اِس سے پہلے 35 سال کے بعد ہوتی تھی۔ موٹاپا بھی اِس مرض کی ایک بڑی وجہ ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں موٹاپے کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔‘‘

علامات کیا ہیں؟

اصل کیفیت تو ٹیسٹ ہی سے سامنے آتی ہے، تاہم اِن ماہرین کے مطابق انسانی جسم میں آنے والی کچھ تبدیلیوں سے بھی اِس مرض کی شناخت ممکن ہے۔ اگر مَردوں کا پیٹ 35.5 انچ اور خواتین کا 31.5 سے بڑھ جائے، تو اُنھیں کسی بھی وقت شوگر کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ نیز، اگر گردن کے پیچھے یا بغلوں میں کالے نشانات نظر آئیں، تو پہلی فرصت میں ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ اِسی طرح اگر خاندان میں کوئی اِس مرض میں مبتلا ہو، تو باقی افراد کے لیے ہر چھٹے ماہ اپنا طبّی معائنہ کروانا ضروری ہے، خواہ ذیابطیس ہو یا نہیں۔

بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

اِن طبّی ماہرین کا اِس اَمر پر اتفاق ہے کہ طرزِ زندگی میں صحت مندانہ تبدیلیوں کی مدد سے اِس موذی مرض سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے، بلکہ اگر کوئی خدا نخواستہ اِس کی لپیٹ میں آ چُکا ہے، تو وہ معمولات میں تبدیلی کے ذریعے اس کی شدّت کم کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر منصور علی خان کے بقول’’ اگر ہم جسمانی طور پر سرگرم ہوں، تو بہت سے مسائل ویسے ہی حل ہوجائیں۔ لہٰذا اپنے فزیشن کی مشاورت سے ورزش کا شیڈول ضرور طے کرنا چاہیے۔‘‘

علاج کے لیے کہاں جائیں؟

ڈاکٹر منصور نے اِس ضمن میں یہ بات زور دے کر کہی کہ’’ ذیابطیس کے مریضوں کو دیواروں وغیرہ پر لکھے شرطیہ علاج جیسے طریقوں سے مکمل طور پر دُور رہنا چاہیے،اُنھیں صرف اور صرف ماہر ڈاکٹرز ہی سے رجوع کرنا چاہیے، جو اِس مرض کی پیچیدگیوں سے واقف ہو۔ یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ بعض اوقات کوئی مریض پاؤں کے زخم لے کر کسی ڈاکٹر کے پاس گیا، تو وہ اُس کے زخم بھرنے کی تو دوا دیتا ہے، مگر ان زخموں کا سبب یعنی ذیابطیس کنٹرول کرنے پر کوئی توجّہ نہیں دیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پرائمری سطح پر ڈاکٹرز کی تربیت پر زور دیتے ہیں۔ 

پھر یہ بھی کہ ہم شوگر کا امریکا یا یورپ کے تجربات کی بنیاد پر علاج نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہمارے ہاں اُن سے بہت کچھ مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا شعبۂ تحقیق اِس ضمن میں مسلسل تجربات کر رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ریاست علی نے بتایا’’ ہماری تنظیم نے ٹیلی میڈیسن کا طریقہ بھی متعارف کروایا ہے۔ اب دُور دراز علاقوں میں بیٹھے مریض انٹرنیٹ کے ذریعے ہمارے طبّی ماہرین سے رابطہ کرسکتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ اِس کی کوئی فیس بھی وصول نہیں کی جاتی۔‘‘ ڈاکٹر شکیل کا کہنا تھا کہ’’ طرزِ زندگی بدلنا پہلا علاج ہے، پھر غذائی پرہیز اور ادویہ کے استعمال کی باری آتی ہے۔‘‘

عوام کی سنجیدگی بھی ایک مسئلہ

ڈاکٹر سیّد منصور نے اپنا تجربہ بتایا’’ لوگ اِس مرض سے بچاؤ کے لیے بالکل بھی سنجیدہ نہیں، یہاں تک کہ مریض بھی علاج میں دل چسپی نہیں لیتے۔اگر شوگر کی سطح دو، ڈھائی سو ہو تو یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے، کیوں کہ اس سطح پر مرض کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ ہاں! اگر بات چار، پانچ سو تک پہنچ جائے، تب ڈاکٹر کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ریاست کا کہنا تھا’’ لوگ اُس وقت تک مرض کو سنجیدہ نہیں لیتے، جب تک اُن کا دایاں ہاتھ، بائیں طرف سینے پر نہ چلا جائے۔ 

یعنی جب اُنھیں ذیابطیس کی وجہ سے دِل کی تکلیف ہوتی ہے، تب کہیں جا کر ہوش آتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر فرید الدّین کا کہنا تھا’’ مریضوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُنھیں معمولاتِ زندگی بدلنے کا مشورہ نہ دیا جائے، بس کوئی ایسی گولی دے دی جائے، جس سے مرض پلک جھپکتے غائب ہوجائے، جو کم ازکم ذیابطیس کے معاملے میں تو ممکن نہیں۔‘‘

تازہ ترین