حافظ محمّد زوہیب
اسلام میں سفارت کاری کے اصولوں پر بنظرِ عمیق غور کیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ اوجھل نہیں۔ جہاں رسول اللہﷺ نے طہارت سے لے کر معاشی و معاشرتی معاملات میں رہنمائی فرمائی، وہیں بنی نوع ِانسان کو سفارتی اصول و ضوابط بھی سِکھائے۔’’سفارت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مادّہ’’ س۔ف۔ر۔‘‘ ہے۔ یہ لفظ’’ سفر‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کا فعل باب ’’نصر ینصر‘‘ اور ’’ضرب یضرب‘‘ سے آتا ہے، جس کے معنی ’’سفر کے لیے نکلنا‘‘،’’ صاف کرنا‘‘، ’’روشن ہونا‘‘،’’ کسی شے کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرنا‘‘،’’ کتاب لکھنا‘‘ اور’’ دو قوموں کے مابین صلح ‘‘ وغیرہ ہیں۔ اِسی لیے سفارتی فرائض انجام دینے والے کو ’’سفیر‘‘ کہتے ہیں، جس کی جمع’’ سُفرا ‘‘ہے۔ یہ لفظ تُرکی زبان میں ایلچی اور انگریزی زبان میں’’ Ambassador ‘‘کے طور پر مستعمل ہے۔ البتہ سفارت کے لیے انگریزی میں’’ Diplomacy‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔نبی کریمﷺ نے دنیا تک اپنا پیغام پہنچانا شروع کیا، تو آپﷺ کے سفیر آپﷺ کے مکتوبات دوسرے ممالک کے بادشاہوں تک پہنچاتے تھے۔ صحابہ کرامؓ جب دوسرے ممالک جاتے، تو یہی کہتے’’ ہم اللہ کے رسولﷺﷺ کے سفیر ہیں۔‘‘
سفارت کاری کی اہمیت : انسان نے جب تمدّنی زندگی میں قدم رکھا اور قوانین وضع کرنے شروع کیے، تو اُن میں ایک طریقہ یہ بھی رائج ہوا کہ زمانۂ امن و جنگ میں بادشاہوں کے سفیر دوسرے بادشاہوں کے لیے مخصوص پیغام لے کر جایا کرتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب مختلف قبائل میں منقسم تھے اور اُن میں صدیوں سے لڑائیاں جاری تھیں، لیکن جب اصلاح کا خیال سوجھتا، تو فوراً اپنے قبیلے سے کسی ایسے شخص کا انتخاب کرتے، جو فصیح اللسان ہوتا، وہ دوسرے قبیلے جاتا اور افہام و تفہیم سے امن کا معاہدہ کرتا۔ عرب میں اسلام کی روشنی سے قبل سیّدنا حضرت عُمر فاروق ؓ سفارتی امور انجام دیتے تھے۔ سورۃ القریش کا پس منظر دیکھا جائے، تو واضح ہوتا ہے کہ ہاشم کی کام یاب سفارت کاری ہی کی وجہ سے عرب مُلکوں، مُلکوں تجارت کرنے لگے۔
اسلام میں سفارت کار کی خصوصیات: اسلامی نقطۂ نظر سے سفارت کار کو نیک سیرت اور ذہین و فطین ہونا چاہیے۔نیز، اُس کی سفارتی طریقۂ کار پر مکمل دسترس ہو۔ وہ معاملہ فہم ہو اور جغرافیائی حالات پر بھی گہری نظر رکھتا ہو۔ علاوہ ازیں مزاج شناس، حاضر جواب، خوش لباس ہو۔ہم دردی اور نرم مزاجی پر یقین رکھتا ہو۔ فوجی انتظام کا بھرپور جائزہ لینے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اُس کی معاشی و معاشرتی حالات پر مضبوط گرفت ہو۔ پھر یہ کہ دوسرے مُمالک کے سربراہان کی خوبیوں، خامیوں پر نظر اور مختلف زبانوں پر عبور رکھتا ہو، خاص طور پر اقوامِ عالم میں رائج معروف زبانوں سے ضرور واقف ہو۔
سُفرا سے حُسنِ سلوک: اسلام کے مطابق، سفیر اصلاً مہمان ہوتا ہے، اِس لیے اُس کے ساتھ احسن طریقے سے پیش آنا چاہیے۔ اُس کے قیام و طعام کا خاص خیال رکھا جائے ۔ اگر اُس کا رویّہ ناپسندیدہ ہو،تب بھی اسلام اُس کے ساتھ تکریم سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے ۔ مسیلمہ کذّاب(مدعیٔ نبوّت) کے بھیجے ہوئے دو سفیروں کو رسول اللہﷺ نے اسلام کی دعوت دی، تو اُنہوں نے قبول نہ کی۔ اِس پر آپﷺ نے فرمایا’’اگر مَیں سفیروں کو قتل کرنے والا ہوتا، تو تم دونوں کو قتل کر دیتا۔‘‘(السنن للدارمی)۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں’’سفیر کو قتل نہ کیا جائے‘‘ (المسند لاحمد)۔
ریاستِ مدینہ میں سفارت کاری : آپﷺ نے مدینہ منوّرہ پہنچ کر ایک ایسی فلاحی ریاست قائم کی کہ تاریخ میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔آپﷺ نے بیرونِ مدینہ کے جن قبائل سے سفارتی تعلقات قائم کرکے معاہدات کیے، یہاں اُن قبائل اور اُن سے کیے گیے معاہدات کی چند شقیں بیان کی جاتی ہیں۔قبیلہ جہنیہ: یہ قبیلہ مدینہ منورہ سے اَسّی میل کے فاصلے پر آباد تھا۔اُن سے اُس وقت معاہدہ طے ہوا، جب آپﷺ ینبوع کے سفر پر تھے۔ اس قبیلے کا وفد آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تعلقات قائم کرنے کی بات کی۔ آپﷺ نے اُن سے جو معاہدہ کیا، اُس کی چند شقیں یہ ہیں٭قبیلہ جہنیہ کی جان و مال کو امن حاصل ہوگا۔٭جو بھی اس قبیلے کے ساتھ زیادتی کرے گا، تو اُس کے مقابلے میں اُن کی مدد کی جائے گی۔ بنو زراعہ: قبیلہ جہنیہ کی جن مختلف شاخوں سے آپ ﷺ نے سفارتی تعلقات استوار کیے، اُن میں سے ایک قبیلہ بنی زراعہ بھی تھا، جس میں دشمنوں سے اُن کی حفاظت اور امداد کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ اُن کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔بنو غفّار: قبیلہ بنو غفّار مکّہ مکرّمہ سے شام، فلسطین کے راستے پر آباد تھا۔ مشہور صحابی، حضرت ابو ذر غفّاری ؓ کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔ اُن کا بیان ہے کہ’’ مَیں اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے قبیلے میں واپس آیا اور اسلام کی دعوت دی، تو تقریباً نصف قبیلہ اسلام لے آیا،باقی ہجرت کے بعد اسلام میں داخل ہوئے۔فتحِ مکّہ کے موقعے پر چار سو سے زاید افراد مسلمان ہوئے۔‘‘ قبیلہ بنو غفّار نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں وفد بھیج کر معاہدے کی پیش کش کی، جسے آپﷺ نے منظور فرمایا۔ آپﷺ نے قبیلہ بنی ضمرہ اور بنو اشج سے بھی معاہدے کیے۔
حدیبیہ کے موقعے پر کام یاب سفارت کاری :صلح حدیبیہ تاریخِ اسلام کا ایک اہم واقعہ ہے۔یہ معاہدہ نبی کریمﷺ کی کام یاب سفارت کاری کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ آپﷺ نے اس معاہدے کے ذریعے دنیا کو سبق دیا کہ طاقت کے باوجود امن کے خاطر اگر کچھ قربانیاں بھی دینی پڑ جائیں، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس معاہدے کی بعض دفعات بظاہر غیر متوازن محسوس ہوتی تھیں، لیکن آپﷺ نے اُن پر بھی دست خط کردیے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ کام یاب سفارت کاری اصل میں یہ ہے کہ امن کے لیے جہاں تک جانا پڑے، جایا جائے، کیوں کہ انسانیت کی حُرمت سب سے مقدّم ہے۔
ان تفصیلات سے’’سفارت کاری‘‘ سے متعلق جو چیزیں سامنے آتی ہیں، اُن کا لبِ لباب یہ ہے:٭انسان نے تمدّنی زندگی کے ساتھ ہی سفارت کاری شروع کردی۔٭زمانۂ جاہلیت میں عربوں نے جنگ و جدل سے بچنے کے لیے بعض اوقات کام یاب سفارت کاری کی۔٭قریش کے سردار، ہاشم نے تجارت کو بین الاقوامی سطح پر لے جانے کے لیے مختلف مُلکوں سے تعلقات قائم کیے۔٭کام یاب سفارت کار کو اعلیٰ سیرت و کردار، زبان، جغرافیے، تاریخ اور معاملات سے آگاہی وغیرہ جیسی خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے۔٭اسلام سفیروں سے عزّت سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔٭حضورﷺ نے مدینے کے قرب وجوار میں مختلف قبائل سے امن کے لیے کام یاب سفارت کاری کی۔ ٭آپﷺ نے دنیا کو پیغام دیا کہ امن کی خاطر کچھ چیزیں اگر اپنے خلاف بھی جا رہی ہوں، تو اُنھیں پسِ پُشت ڈال دیا جائے۔