• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعری اپنے خیالات کے اظہار کا ایک بہت مؤثر ذریعہ ہے، جس سے انسان اپنی بات دوسروں تک پہنچاتا، انھیں متاثراورقائل کرتا ہے۔ بیان کے اسالیب میں ایک بڑا اسلوب شعر و شاعری ہے۔ شاعری کا مادہ ’شعر‘ ہے، جس کے معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ 

یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر نے کچھ ایسا منظر یا خیال سوچا ہو جو اس کے دل پر اثر کر گیا ہو اور وہ منظر خود بخود اشعار کی صورت ڈھل گیا۔

شعر کا پہلا عنصر وزن اور دوسرا تخیل و محاکات ہے۔ معلومات کے ذخیرہ سے کوئی خیال اخذ کرنا تخیل اور پھر اسے الفاظ کے دلکش اور مؤثر پیرائے میں ڈھالنا محاکات کہلاتا ہے۔ حقیقت کو وزن اور تخیل و محاکات کے سانچے میں ڈھالنا کمال سخنوری ہے۔

قوت متخیلہ جس قدر اعلیٰ درجے کی ہوگی، اسی قدر شاعری بھی اعلیٰ ہوگی۔ یہ شاعر کو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد کرتی ہے یعنی ماضی اور مستقبل کو زمانہ حال میں لے آتی ہے۔ شاعر ماضی کے کسی بھی واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے گویا اپنی آنکھ سے دیکھا ہو۔ شعر و شاعری کی بنیاد تخیل پر ہوتی ہے، ایک شاعر کا بات کو بیان کرتے ہوئے جتنا زیادہ تخیل بلند ہوگا، اتنا ہی شعر خوبصورت ہو گا۔

شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے۔ کوئی بھی انسان ہر وقت کسی نہ کسی چیز یعنی قدرت کی تخلیق کردہ اشیا کے مشاہدے یا اپنی ایجادات اور تخلیقات میں مصروف رہتا ہے۔ ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگوں کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے، شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ 

کچھ لوگ اس کو عام باتوں کی طرح سے یعنی گفتگو سے ظاہر کرتے ہیں تو کچھ لوگ اس کو لکھ کر یعنی نثر کی صورت میں بیان کرتے ہیں جن کو مضمون، ناول نگاری، افسانوں اور کہانیوں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مجسمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری ہوتا ہے۔

شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے۔ ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہے۔ شاعر اپنے خیالات و مشاہدات اور احساسات و تجربات کو اپنے تخیل کے سانچے میں ڈھال کر اُسے ایک تخلیق کی صورت میں پیش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی سوچ کو دوسرے لوگوں تک ہو بہو اسی طرح پہنچا دے جس طرح وہ سوچتا ہے۔ زمانہ قدیم سے لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔

آج بھی تاریخی عمارات و مقامات پر بنے نقش و نگار اور آثار قدیمہ سے ملنے والی اشیا سے گذشتہ زمانوں کے لوگوں کے خیالات اور حالات و واقعات کی عکاسی ہوتی ہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس دور میں لوگوں کے حالاتِ زندگی اور ان کا رہن سہن کیسا تھا۔ ہر دور کے شعراء کی تحریروں سے بھی ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ہوتی ہے۔

شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ صنف غزل، قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لفظ غزل صرف اردو شاعری کے لیے مخصوص ہے۔ شاعری کی دیگر مشہور اصناف میں حمد، نعت، مثنوی، مسدس، نظم، پابند نظم، آزاد نظم، قصیدہ، رباعی، مرثیہ، سلام، گیت سر فہرست ہیں۔ تاریخ میں اردو شاعری کے بڑے بڑے نام برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جیسے کہ میر تقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی، نظیر اکبر آبادی، علامہ محمد اقبال ، فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، ناصر کاظمی، احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی وغیرہ۔

شاعری ایک پہیلی کی طرح ہوتی ہے۔ یہ قارئین پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مکمل ادراکِ زندگی، جذبات، اور مشاہدات کی بنیاد پر اشعار کے الفاظ و رموز کے متعلق کیا آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ شاعری کو سمجھنا ایک مشکل عمل ہے، جسے سمجھ آجائے تو اس کی جانب سے شاعر کی قدر افزائی کرنا ایک احسن اقدام ہوتا ہے۔ شاعری پڑھنے اور سننے والا اگر شاعر کے حالات و واقعات سے واقفیت نہیں رکھتا تو اکثر اوقات وہ شعر کی تفسیر شاعر کے نقطہ نظر کی بجائے اپنے حالات کے تناظر میں کرتا ہے۔ 

تاہم، ایسی صورت میں شعر کے ہمہ گیر ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ البتہ شاعر کا مافی الضمیر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کے نقطہ نظر سے آگاہی حاصل کی جائے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شعر عام فہم ہو جائے یا وہ لوگوں کی سمجھ نہ آئے تو مذکورہ شعر جس ستائش کا مستحق ہوتا ہے وہ ان دونوں صورتوں میں حاصل نہیں کر پاتا۔ آجکل کے دور میں عوامی پذیرائی اکثر اسی شعر کو ملتی ہے جو عام فہم ہو اور بآسانی لوگوں کی سمجھ میں آجائے۔

اقوامِ متحدہ کے فروغِ تعلیم و تہذیب و ورثہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے شاعروں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے فن کو سراہنے کے لیے ہر سال 21مارچ کو عالمی یومِ شاعری منایا جاتا ہے۔ جو ان شعرا کو خراجِ تحسین ہے جنہوں نے اپنے تخیل اور ذہنِ رسا سے محبت، امن، انسانیت ،ہمدردی ،بھائی چارے اور فطرت سے محبت کے عالمی جذبے کو فروغ دیا۔ شاعری کے حوالے سے پاکستان کی سرزمین بھی بہت زرخیز رہی ہے اور موجودہ دور میں بھی افتخار عارف، ظفر اقبال اور امجد اسلام امجد جیسے کئی نامور شاعر اپنے کلام سے لوگوں کومحظوظ کررہے ہیں۔

تازہ ترین