جدید دور میں جہاں مختلف نت نئے طریقے اپنا کر زمینوں کی پیداواری صلاحیت بڑھائی جارہی ہے وہیںہمارے کاشت کار روایتی طریقوں پر ہی انحصار کرتے ہیں جس کے باعث فصلوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوپاتاجس کے باعث فی ایکڑ پیداوار کم ہوئی ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی سماجی واقتصادی ترقی کا دارومدار زراعت پر ہے۔ ملکی شرح نمو میں زراعت کا حصہ تقریباً اکیس فیصد ہے اور پینتالیس فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ زرعی سائنسدانوں کے مطابق پاکستان میں ڈرپ نظامِ آبپاشی کو سولر سسٹم کی مدد سے کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے کیونکہ صوبہ پنجاب میں ایک سال میں تقریباً تین سو دن تک سورج کی روشنی کی ایک مؤثر مقدار روزانہ آٹھ گھنٹے تک دستیاب ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک کی خوشحالی زرعی شعبے اور کسان کی خوشحالی سے وابستہ ہے۔وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ٹیوب ویلز پر سبسڈی دینے کی تجویز سے متعلق اجلاس ہوا جس میں زرعی شعبے کے فروغ اور چھوٹے کاشت کاروں کو ریلیف دینے سمیت ٹیوب ویلز کے استعمال پر بجلی کے نرخوں پر سبسڈی دینے کی تجویز پر مشاورت کی گئی۔
یہ پنجاب بھر کے کسانوں اور پاکستانی عوام کے لیے مقامِ مسرت ہے کہ اب کپاس کا کاشتکار بارانی علاقوں میں بھی کپاس کاشت کرکے پاکستانی معیشت کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالے گاجس کی بدولت ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوں گے۔کپا س پا کستا ن کی ایک نقد آور فصل ہے اور پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کا 60 فیصد انحصار کپاس اور اس کی مصنوعات کی برآمدات پر ہے۔ عا لمی سطح پر ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہو نے وا لی تجا رت کا حجم تقریبا14 ارب ڈالر ہے۔پنجاب ملکی پیداوار کا تقریبا 70 فیصد پیدا کرتا ہے۔پنجاب میں سالانہ تقریبا 50 لاکھ ایکڑرقبہ پر کپاس کاشت کی جاتی ہے جس سے 70 لاکھ گانٹھیں حاصل ہوتی ہیں۔2015 سے کپاس کی کاشت کے رقبہ اور پیداوار میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے۔ جنوبی پنجاب کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ، ملتان کے تحت 35 کروڑ 20 لاکھ روپے کے خطیرفنڈز کی لاگت سے جدیدلیبارٹریوںو دفاتر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس سے کپاس کے نئے بیجوںکی تیاری اوردیگرمسائل کے حل میں مدد ملے گی۔گلابی سنڈی گزشتہ چند برسوں سے ایک سنگین مسئلہ ہے اور یہ سنڈی نہ صرف کپاس کی پیداوار میں کمی کا باعث بنتی ہے بلکہ کپاس کا معیار بھی خراب کرتی ہے اور بیج کے اگائومیں کمی کا باعث بھی بنتی ہے۔علاوہ ازیں ان بیجوں میں گلائیفوسیٹ اسپرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے جس سے جڑی بوٹیوں کے تدارک کے لیے ہونے والے اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہوگی ۔ ٹڈی دل کے کنٹرول کیلئے حکومتِ پنجاب وفاقی حکومت، پاک آرمی اوراین ڈی ایم اے کے ساتھ مل کرکام کر رہی ہے جس سے یہ امید بندھی ہے کہ ٹڈی دل کے موثر کنٹرول کے لیے شروع کی گئی یہ مہم کامیاب ہو گی ۔
حکومت پنجاب، وزیرِ زراعت ملک نعمان احمد لنگڑیال اور سیکرٹری زراعت واضف خورشید کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے ریسرچ ونگ کا نیا سروس اسٹرکچر منظور ہو چکا ہے جو ایوب ریسرچ سنٹر، فیصل آباد کے سائنسدانوں کا دیرینہ مطالبہ تھا جس سے سائنسدانوں کی کارکردگی کی بنیادپرپرموشن ہوگی جس سے مجموعی طورپرتحقیقی عمل میںمزید بہتری آئے گی۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ زرعی شعبے کی ترقی اور کسان کے حالتِ زار کو بہتر بنائے بغیر ملک میں سبزانقلاب نہیں لایاجاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ملک سے غذائی قلت کو دور کرنے کے لئے زراعت کے شعبہ کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے اور یہ شعبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 300ارب روپے کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کا آغاز کیا ہے۔وزیراعظم کے وژن کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اس شعبہ کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔عثمان بزدار نے زرعی پالیسی 2019تشکیل دی ہے تاکہ پنجاب کو حقیقی معنوں میں زرعی سرگرمیوں کا مرکز بنایاجاسکے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے گزشتہ دنوں کاشتکاروں کو زرعی مشینری کی الاٹمنٹ کے سرٹیفکیٹ اور ای کریڈٹ اسکیم کے تحت چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کاشتکاروں کی سہولت کیلئے ای کریڈٹ اسکیم کے قرضوں کی حد بڑھا دی ہے اور اب بیج، کھاد اور دیگر زرعی مراحل کے حصول میں دشواری کا سامنا نہیں کرناپڑے گا۔ ربیع کی فصل کیلئے ای کریڈٹ اسکیم کے قرضوں میں 5ہزاراور خریف کیلئے 10ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 2سال کے دوران کاشتکاروں کو 35ارب روپے کے بلاسود قرضے فراہم کئے جاچکے ہیں۔ وزیراعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت 300ارب روپے کاشتکاروں کی خوشحالی اور زرعی ترقی پر خرچ کئے جارہے ہیں۔فی ایکڑ پیداوار میں اضافے اور آبپاشی کی سہولتوں میں بھی بہتری لائی جارہی ہے۔ پنجاب میں کاشتکاروںکو 46کروڑ روپے کی جدیدترین مشینری امدادی نرخ پر فراہم کرچکی ہے۔ اس میںشبہ نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے نہایت مختصر عرصہ میں جامع زرعی پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔ کاشتکاروں کو موسمیاتی تبدیلیوں، قدرتی آفات اور ٹڈی دل کے نقصانات کے ازالے کیلئے بیمہ کی سہولت فراہم کی گئی اور مجموعی طورپر 5لاکھ 39ہزار 439کاشتکاروں کی فصلوں کا بیمہ ہوچکا ہے اور انشورنس کمپنیوں کو 98کروڑ روپے بطور پریمیم ادا کیا جاچکا ہے۔متذکرہ بالا اقدامات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ایک مرتبہ پھر زراعت پھلے پھولے گی ،پاکستانی معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ کسان بھی خوشحال ہو گا جس کا سارا کریڈٹ پنجاب حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے۔