• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے صنعتی پیداوار اور برآمدات کے اضافے کے لئے صنعتوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لیکن کیا یہ فیصلہ کر دینے سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو جائے گا؟ یہاں پر ایک اور سوال یہ بھی کیا جاتا ہےکہ کنسٹرکشن / تعمیرات کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے حکومت نے کتنی زیادہ اسکیمیں شروع کی ہیں۔ جس میں بہت ساری مراعات شامل ہیں۔ ہیں جبکہ اس تعمیراتی صنعت جس میں کیپٹل آوٹ پٹ (capital output ratio) کو تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔جہاں مسلسل روزگار کی فراہمی کا سلسلہ بھی نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس صنعتی شعبے میں ترقی کا پیہہ مسلسل گھومتا رہتا ہے۔ اور روزگار کے مواقع ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ جبکہ تعمیراتی شعبے میں تعمیر ختم ہونے کے بعد روزگار ختم ہو جاتے ہیں جب تک اگلے پروجیکٹ پر کام شروع نہ ہو جائے۔ لہذا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تعمیرات سے زیادہ صنعت اور سرمایاکاری کے شعبوں کو اہمیت دی جائے۔ تاکہ نہ صرف ایک طرف ملکی پیداوار میں اضافہ ہو بلکہ دوسری طرف روزگار میں مستقل اضافہ ہوگا۔ اس طرح نہ صرف لوگوں کی فی کس آمدن میں بھی اضافہ ہوگا۔یوں کل سالانہ آمدنی میں اضافہ کی وجہ سے لوگوں کی سالانہ طلب میں بھی اضافہ ہو گا جس کی بدولت صنعتی پیداوار کی مانگ میں مزید اضافہ ہوگا جو کہ مجموعی طور پر ملکی قومی پیداوار/جی ڈی پی میں اضافے کا سبب بنے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح سے حکومت کیا فیصلہ کرنا چاہتی ہے؟ حکومت کا ٹارگٹ کیا ہے؟ کیا ٹارگٹ صرف صنعتی شعبے کی حوصلہ افزائی ہے یا تعمیراتی شعبے کی یا حکومت مجموعی طور پر قومی آمدنی کو بڑھانا چاہتی ہے؟ کیونکہ جب تک ٹارگٹ سیٹ نہیں ہوگا مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔اس بات کے تعین کے بعد کہ حکومت کا اصل مقصد ملکی پیداوار میں اضافہ، روزگار میں اضافہ افراط زر پہ کنٹرول ، اور روپے کی قیمت میں کنٹرول ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ صرف ایک شعبے کو ترقی دینے کے بجائے سارے شعبوں کو یکساں اہمیت دی جائے جائے۔ تاکہ ہر شعبہ ملکی ترقی میں میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ پچھلے کے بہتر تہتر سال سے یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے کہ کبھی کسی شعبے کو اہمیت دی جاتی ہے اور کبھی کسی شعبے کو۔ لیکن اب وقت کی ضرورت یہ کہ ذاتی مفادات اور انفرادی مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے۔ اور اجتماعی مفادات کے حصول کو نسب العین قرار دے کر تمام شعبوں کو ایک برابر اہمیت دی جائے اور اس کے لئے ممکنہ نتائج کی امید رکھی جائے۔ اس کے بعد ان کے نتائج آنے کے بعد یہ طے کیا جائے کہ کس شعبے کو مزید اہمیت دی جائے اور کون سے شعبے کو کم۔ موجودہ حکومت نے تعمیراتی شعبے پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ اس کے لئے پیسے کا کالا یا سفید ہونا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ تعمیرات کے معیار پر بھی کوئی بات نہیں۔ سرکاری اراضی، سہولیات کی فراہمی (amenities) کے لئے مقرر کردہ اراضی، نکاسئ آب، ندی نا لے کے لئے مقرر کردہ اراضی پہ غیرقانونی قبضہ کرکے "حکومتی سرپرستی میں عظیم الاشان تعمیراتی شاہکار" تیار کرکے بین الاقوامی معیار کے عین مطابق قرار دینا اور فروخت کرنا کیا باعث شرمندگی نہیں؟اس وقت صرف شہری علاقوں کی بات کرتے ہیں پاکستان کے ہر بڑے شہر میں تعمیراتی صنعت کی ترقی کے نام پر جگہ جگہ فلیٹوں اور پلازاز کے جال بچھے ہوئے ہیں۔اور ندی نالوں پہ قبضہ ہے۔ اگر ان کی حالت کو دیکھا جائے تو بتا چلے گا کہ ناقص سیوریج لائن کی وجہ سےتقریبا ہر فلیٹ، اونچے اونچے پلازہ کے یہاں لیکیج ہے اور سیوریج کا پانی دیواروں میں جمع ہو چکا ہے۔ (جسے seepage کہتے ہیں)جس کی وجہ سے جگہ جگہ سے پلستر اکھڑ چکے ہیں اور بعض جگہ تو دیواروں میں سوراخ ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان اور خاص طور کراچی زلزلے کی زون پہ ہیں۔ ایسے میں کیا سانحہ ہونے کا انتظار کیا جائے گا؟ یا کوئی احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی جائیں گی؟ ویسے بھی عام دنوں میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی فلیٹ کے گرنے کی خبر مل ہی جاتی ہے۔ کیا انسانی جان بالکل ہی بے وقعت ہو چکی ہے؟ کہ جب جس کا دل چاہے پیسہ/ مال بنانے کے لئے ناقص مٹیریل سےپلازہ اور فلیٹ بنائیں اور انسانی زندگی سے کھیلیں ۔ ایسے میں حکومت ان کی پذیرائی کرئے اور مزید ایسے فلیٹس اور پلازاز بنانے کی حوصلہ افزائی کرئے۔ یہ ساری تعمیرات سیمینٹ، سریے کی مدد سے کی جارہی ہیں جس سے concrete کا استعمال بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اونچی اونچی بلڈنگز بننے سے کنکریٹ کے استعمال میں اضافہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ہوا اور روشنی بھی رک رہی ہے جو کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا سبب بن رہی ہیں ۔ حکومتی دعوی ہے کہ ہمیں ملک میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو روکنا ہے اور بلین ٹری جیسے منصوبے لگانے ہیں۔ لیکن یہاں تو درختوں کو کاٹ کاٹ کر، زرعی پیداوار کی اراضی کو زبردستی خرید کر تعمیراتی اراضی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ایسے میں حکومت اپنے ارادہ کا تعین کرئے کہ آخر اس کا ٹارگٹ کیا ہے؟ ماحولیاتی حفاظت یا آلودگی!

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین