• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسا لگتا ہے کہ حالیہ انتخابات میں صرف دو ہی طاقتور پارٹیاں ہیں جو بظاہر امیدوار نہ ہوتے ہوئے بھی انتخابی میدان پر بھاری پڑی ہوئی ہیں، وہ ہیں ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور شدت پسند طالبان۔ طالبان ہیں کہ جو ببانگ دہل کہتے ہیں وہ پاکستان میں جمہوریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں اور خود کو سیکولر کہلانے والی پارٹیوں کے لوگوں پر پے در پے حملے کئے جا رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا کام دنیا بھر میں اصولی طور پر ملکی سرحدوں کی ہمہ وقت حفاظت ہے مگردہشت گردوں کی بیخ کنی کرنے کے بجائے صرف بیانات پر اکتفا کیا جارہا ہے۔طالبان اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک قدر مشترک کل تک یہ بھی تھی کہ انتخابات کے نام پر ان کے بھی سر کے بال کھڑے ہوجاتے تھے۔ایک خطاب ملک کی فوج کے سربراہ جنرل کیانی کا بھی حالیہ دنوں میں سننے اور پڑھنے کو ملا ہے۔ ہر سو واہ، واہ، ہو گئی ہے۔کسی بھی حقیقی جمہوری یا مہذب ملک میں اسٹیبلشمنٹ اچھے یا برے امیدوار چننے کی قوم کو تلقین نہیں کرتی۔ تصور کریں کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایسا بیان امریکی انتخابات کے موقع پر جاری کیا گیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ امریکہ تو دنیا کی پرانی جمہوریت ہے۔ بھارت جیسی ہی دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا انتخابات یا کسی بھی سول معاملے پر بیان ماورائے تصور ہے۔ ”آمریت اور جمہوریت کے درمیان کھیلی جانے والی اعصاب شکن آنکھ مچولی ہمیشہ کو ختم کرنے کیلئے صحیح لوگوں کا انتخاب کیا جائے“۔ اب صحیح اور غلط لوگوں کے انتخاب کا فیصلہ کرنے کی تلقین کے حق یا استحقاق پر کسی نے سوال نہیں کیا۔ جن کا کاشن دینا تھا وہ جمہوریت پر بھاشن دے رہے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جب جنرل بھی وردی میں ہوتے ہیں تو ان کے بڑے کھانے اور درباروں سے خطاب کی اخباری شہ سرخیاں بنتی ہیں جب ریٹائر ہوجاتے ہیں تو پھر ریلوے پھاٹک والا بھی نہیں پہچانتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک قبیلے کی طرح اور جنرل بھی اس کے سرداروں کی طرح ایکٹ کرتے ہیں۔ بالکل ایسے جب وردی پہنے ہوئے تھے تو پرویز مشرف اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ تھے اور اب وہ ایک فائیو اسٹار قیدی ہیں جن پر ملک کے دو بڑے سیاسی لیڈروں کو قتل کرنے کے بھی مقدمات ہیں۔
پاکستان پر ہمیشہ نظر نہ آنے والے ہاتھوں کی حکومت اور دہشت رہی ہے۔ ایسے ہاتھوں میں سے پچھلے ہفتے کسی ہاتھ نے بینظیر بھٹو قتل کے مقدمے میں پراسیکیوٹر یا سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کو قتل کردیا۔ چوہدری ذوالفقار کو بینظیر بھٹو کے قتل میں سابق آمر اور فائیو اسٹار قیدی پرویز مشرف کی گرفتاری کے بعد اور قبل قتل کی دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ اب اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ چوہدری ذوالفقار کو انہی ہاتھوں نے قتل کرایا جن ہاتھوں نے بے نظیر بھٹو کے کمانڈو لگتے، قاتل کے ہاتھ میں پستول دیا تھا یا ان ہاتھوں نے جنہوں نے خالد شہنشاہ کو قتل کرایا! یا اس سے قبل کامران فیصل کو ان کے ہاتھوں سے ہی ان کے کمرے کی چھت سے ٹانک دیا۔ کامران فیصل کے اپنے ہاتھ تھے کہ وہی خفیہ، لیکن حکومت کرتے ہاتھ!
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اب ایسی بھی بات نہیں۔ دہشت پھیلاتے ہاتھ جنہوں نے کل کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار خٹک اور ان کے چار سالہ بیٹے کو قتل کردیا۔ نگران حکومت پہلے روز سے ہی خاص پارٹیوں یعنی عوامی نیشنل پارٹی،ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدواروں، انتخابی کارکنوں اور انتخابی جلسوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی ہے تو پُرامن پولنگ کس طرح کرائے گی؟ یہ بزرگانِ نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پُراسرار بندے بے آسرا یتیم اور جوان لہو کو بہنے سے روکنے اور اس کا سراغ لگانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ شاید یہ نگران بیچارے انتخابات کے ملتوی ہونے کے آسرے میں آئے تھے۔ لگتا ہے نگران وزیر اعظم صرف اپنے بیٹے کو انیسویں گریڈ میں ترقی دلانے کو تھے! کیا چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی کے ہاتھ بھی خفیہ ہاتھوں نے باندھ دیئے ہیں؟ان کے تاریخ میں سرخرو ہو کر جانے کا کیا ہوا! تاریخ بڑی بے رحم چیز ہے وہ آج جو تخت نشیں یا ان سے بھی پہلے والے ان کو اپنے فوٹ نوٹ میں بھی شاید ہی جگہ دے۔ تاریخ ٹیلی ویژن چینلوں کے اینکر نہیں۔ تاریخ وہ بڑی”نہ“ ہے جو اس وقت دہشت پھیلاتے نظر آنے یا نظر نہ آنے والے ہاتھوں کی لبلبی کے سامنے جن بھی لوگوں نے کی ہوئی ہے۔ کل لاہور سے مجھے ایک غیر جیالا دوست آغا عمران کہہ رہا تھا” وہ لوگ تو تیر کو ووٹ دینے جائیں گے جو تیر کو ووٹ دیتے تھے لیکن بس فرق صرف یہ ہے کہ اب پیپلزپارٹی کا جیالا گزشتہ پانچ سالہ جو کارگردگی تھی اس پر بڑھکیں نہیں مار سکتا لیکن تیر کو ووٹ دینے والے مر نہیں گئے ہیں، تیر کو ووٹ دینے تو وہ جائیں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ الیکشن کے دھوم دھڑکے نہیں دھماکے ہیں۔جمہوریت پر بھاشن دینے والے اگر ان دہشت پھیلانے والے ہاتھوں یا طالبان کے پیچھے جاتے تو یہ پاکستان میں ووٹ دینے اور لینے والوں کو خونی دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ایسے خونی انتخابات سے قبل اس قتل و غارت گری کی شکار پارٹیاں اگر انتخابات والے دن ہار بھی گئیں تو ان کی ہار کو مہذب و جمہوری دنیا شاذ و نادر ہی تسلیم کرے گی۔ تاریخ ظالم چیز ہے جو کل کے قاتلوں کو بھی آج کا مظلوم بناتے دیر نہیں کرتی۔ زخمی گول کیپر اپنی ٹیم کا دفاع کرتے اگر گول روک دے تو یہ اس کی اور اس کی ٹیم کی فتح ہے ہار بھی جائے تو یہ بازی خون کی بازی ہے۔ جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ شہادت کی شہرت حاصل کرنے کو کسی اہلیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
تازہ ترین