پاکستان کے شمالی علاقہ جات جو گلگت اوربلتستان کے دوبڑے ریجن پر مشتمل ہیں، شہرہ آفاق ہیں۔ یہ اپنے قدرتی حسن و جمال کی جملہ اقسام میں دنیا بھر کے سیاحوں، کوہ پیمائوں، مہم جوئوں، فوٹو و فلم شوٹر، ماہرین ارضیات (جیولوجسٹس) زئولوجسٹس، سماجی علوم کے ماہرین، آئوٹ لورز اور مورخین کے لئے گہری دلچسپی کا بڑا ساماں سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان ہر دو ریجنز کا طبعی جغرافیہ بے مثال و بیش بہا ہے۔ دنیا کی دس بلند ترین پہاڑی چوٹیوں میں سے پانچ اسی سحر انگیز خطہ ارض سے سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے درجنوں گلیشئرز نے اس خطہ حسین کو حسین تر بنا دیا ہے۔ کوہ پیما اور جیولوجسٹس اسے دنیا کی چھت قرار دیتے ہیں۔ یہاں کی مکمل امن و امان میں لپٹی دھیمی بھینی ثقافت، جو درجنوں رنگا رنگ سب کلچر میں تقسیم ہے، دل موہ لینے والی ہے۔ دنیا بھر میں قدرتی حسن کو کور کرنے والے اسپیشلائزڈ میڈیا نے جتنے فیچر، نیوز فیچر، پکٹوریل، رپورٹس، ڈاکومینٹریز اور فلمیں شائع اور تیار کیں (شاید) کسی اور خطہ زمین پر ایسا کام نہیں ہوا، لیکن بطور قوم ہمارا کفران نعمت بھی اپنے ہی وطن کی اس جنت بےنظیر کی جانب انتہا پر رہا۔ ہمارے حکمرانوں اور امرا نے بہت ہی محدود سوچ اور غرض کے ساتھ اسے روایتی سیر وتفریح و سیاحت کے ایک مشکل اور تنہا سیاحتی مرکز کے سوا کوئی اہمیت نہیں دی۔ آج بہتر سال بعد ہمارا جو سیاسی سماجی ڈھانچہ،فقط ایک تکلیف دہ ہی نہیں مسلط اذیت ناک نظام بد کی شکل میں ہم پر بدستور مسلط ہے، اسے پیش نظر رکھا جائے تو ان حسین و جمیل کم آباد بلند و بالا علاقوں پر اللہ کا خصوصی فضل و کرم رہا ہے کہ یہ ملک کے آباد و سرگرم مین لینڈ کے لاغر سیاسی سماجی ڈھانچے کی قباحتوں سے محفوظ رہا ہے۔ تبھی تو یہ مکمل کرائم فری رہا اور بنیادی سہولتوں کی محرومیوں کے باوجود خواندگی کی شرح اور تعلیم کے معیار میں ملک کے اوسط درجات سے کہیں آگے ہے۔ یہاں کا سماجی رویہ صحت مند، قابل رشک اور انسپائرنگ ہے۔ جس کے خمیر میں امن و عاجزی اور معاشرتی اخلاق کا غلبہ ہے۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے جب ان علاقوں میں تعلیم نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور ان میں خود شناسی کا درجہ بلند ہونے لگا تو بڑھتے شعور نے بالآخر بے حس نظام بد کوبھی اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا، کچھ ادھر (مرکزی قومی دھارے) میں بھی ان علاقوں کی بابت سیاسی و معاشی ضرورتوں کے حوالے سے بے حسی میں قدرے کمی آنے لگی۔ خطے کا سیاسی جغرافیائی منظر تبدیل ہونے لگا۔ علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات میں connectivity کے بڑھتے رجحان اور دفاع و سلامتی کے نئے چیلنجز نے ہمیں بطور قوم و حکومت مثبت انداز میں روایتی ’’شمالی علاقہ جات‘‘ کی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا۔ اس سے قبل خود گلگت بلتستان کے حصول علم کے شوقین لوگوں نے اپنی بڑھتی سماجی سکت اور سیاسی سماجی حیثیت میں اضافہ کرکے خود کو نئے تقاضوں کے مطابق سرگرم ہونے کے لئے تیار کیا ہوا تھا۔علاقے میں ان کی خواہش اور روایتی احتجاجی مطالبوں کے برعکس ایک موثر سیاسی سماجی بتدریج دبائو سے انہوں نے ’’ویرانوں‘‘ میں دو پبلک یونیورسٹیاں بنانے کا حق حاصل کرلیا۔ ہمارے اسٹیٹس کو کے بیمار مگر طاقت ور نظام کو بالآخر گلگت بلتستان کی اہمیت، حیثیت اور حساسیت کو ماننا پڑا۔ آج وہ اپنے انتظامی ڈھانچے میں وسعت اور اس کی سکت بڑھانے اور اس میں خود کو زیادہ سے زیادہ شریک بنانے اور خود سنبھالنے و چلانے کے لئے تیز تر ارتقا کی طرف گامزن ہیں۔ ملکی مرکزی دھارے میں بھی اعتراف و عمل کا درجہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں دو روز بعد گلگت بلتستان کی نیم صوبائی حیثیت کو تسلیم کرنے (اور آئینی حیثیت کی طرف بڑھتے) اس خطہ بیش بہا ، سکون و امان کی خامشی ٹوٹ کر جو عام انتخابات ہو رہے ہیں اللہ کرے اس سے گڈگورننس، سیاسی برداشت، تحمل و شائستگی کا کوئی ایسا ماڈل نکل آئے جو پورے پاکستان کے لئے قابل تقلید بن جائے۔ایسا ماڈل جو گلگت بلتستان جیسی شفافیت کا عکاس ہو۔ لیکن یہ فکر اپنی جگہ لاحق ہے کہ انتخاب کا کھیل ہماری اسٹیٹس کو کی تینوں بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے، ’’خاندانی جمہوریت‘‘ سے نکلا ایک ’’جمہوری‘‘ شہزادہ اور ایک ’’ملکہ محترمہ‘‘ پھر ’’تبدیلی حکومت‘‘ کے اسٹیٹس کو کے رنگ میں ہی رنگے اور مکمل ایسے ہی ڈھنگ والے وزیر، سب ملکر اپنے آلودہ سیاسی ابلاغ سے مایوس کن حد تک سیاسی آلودگی پھیلا چکے ہیں۔ بالکل نئے حالیہ امریکی الیکشن پیٹرن پر یہ دھمکیاں بھی آ چکی ہیں جن کا واضح مفہوم یہاں بھی یہ ہی نکلا ہے کہ ’’ہم تو جیتے جتائے ہیں، اگر الیکشن میں اور کوئی کامیاب قرار دیا گیا تو یہ دھاندلی ہوگی‘‘ ۔ نہیں معلوم کہ کسی کی بھی جیت کے بعد دیئے گئے ووٹوں کو کتنی عزت ملتی ہے؟ لیکن یہ رویہ اور روایتی اندازِسیاست تو اپنی جگہ، اصلی امتحان گلگت بلتستان کے ووٹرز کا ہے کہ وہ اپنے تعلیمی اور تہذیبی تشخص کے امتیاز کو انتخابی عمل میں استعمال کرکے کیسا نتیجہ نکالتے ہیں؟ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)