• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سیمسن جاوید۔لندن
کشمور میں 4 سالہ بچی اور اس کی ماں کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی وتشدد کا واقعہ کوئی سرسری خبر نہیں تھی، جہاں میرے صحافی اور وکلاء دوستوں نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی وہاں قومی ہیرو سندھ پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش کو سلیوٹ بھی پیش کیا جس نے اپنی جوان بیٹی کی مدد سے جنسی تشدد کرنے والے وحشی اور درندہ صفت ایک مجرم کو گرفتار کرلیا جب کہ دوسرا پولیس مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ہی ساتھی کی گولی سے ہلاک ہو گیا۔ کشمور کے اس پولیس انسپکٹر نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔آفرین ہے اس بیٹی پر جس نے باپ کا کہنا مان کر اپنے جیسی عورت کا ساتھ دیا،نہایت افسوس کے ساتھ ذکر کرنا پڑتا ہے کہ حیدرآباد میں ایک سرکاری پرائمری اسکول کی کلاس دوم میں پڑھنے والی مسیحی بچی کے ساتھ ریپ کرنے کی کوشش کرنے والے ٹیچر کی اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے فرار ہونے میں مدد کی ۔ حیدر آباد کے مسیحیوں کے احتجاج اور ایس ایس پی کو ٹیچر کے خلاف درخواست دینے کے بعد گرفتار کیا گیا۔آئے دن بہت سے واقعات ہوتے رہتے ہیں،غریب لوگوں کے ساتھ پولیس کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا جولوگ پولیس تھانہ کے سامنے سے گزرنے سے بھی کتراتے ہیں وہ اپنے ساتھ زیادتی کے واقعات کی ایف آئی آر کیسے لکھوائیں گےاورخاص کر جنسی تشدد کے واقعات پر تو پولیس بالکل بے حس ہو جاتی ہے۔شہباز بھٹی شہید یا آسیہ ناصراسمبلی کے فلور پر حق کی آواز بلند کرتے تھے یااب جیواصاحب آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں مگر حزب اختلاف کے بولنے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ موجودہ صورتحال میں کم عمری کی شادی کو روکنے، جبری تبدیلیِ مذہب و نکاح اور اقلیتوں کے تحفظ کے بل کی اشد ضرورت ہے ، ایک عرصے سے اس پر کام ہو رہا ہے مگرجب اس کو منظور کرنے کا وقت آتا ہے تو کچھ جماعتیں آڑے آجاتی ہیں ،موجودہ حکومت اقلیتی معاملات کے سلسلے میں ہیومن رائٹس کی وزارت کو اہمیت دینے کی بجائے مذہی جماعتوں کو اہمیت دیتی ہے جو کبھی بھی نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں اقلیتیں سکون سے رہیں۔قانون سازی یا بل لانے میں اقلیتی نمائندوں کا کوئی کردار نظر نہیں آتا،ان کی آواز صرف غیر ضروری معاملات پر سنائی دیتی ہے،اس وقت اقلیتیں اس قسم کے مسلسل بڑھتے ہو ئے واقعات کی وجہ سے سخت کرب سے گزررہی ہیں،ان واقعات میں اضافے کے پیش نظر پورے پاکستان اور اوورسیز میں رہنے والے مسیحیوں کے شدید احتجاج کرنے پر صوبہ سندھ میں چائلڈ میرج پروٹیکشن ایکٹ موجود ہونے پرحکومتِ سندھ اورخصوصاً بلاول بھٹوکی مداخلت کرنے پر وفاقی حکو مت قدم اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔اب کچھ امید کی کرن پیدا ہوئی ہے جو قابل تحسین ہے۔ مگر اچھنبے کی بات ہے کہ جبری تبدیلیِ مذہب و نکاح کا بل اور اقلیتوں کے تحفظ کا بل قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے تاحال کیوں پاس نہیں ہو سکا۔رہی بات اقلیتی ارکان اسمبلی کی تو انہوں نے اس بل کو اپنی سطح پراسمبلیوں کے فلور پر لانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔پنجاب اسمبلی میں اقلیتوں کے تحفظ کا بل پاس ہونے کی قوی امید ہے، حکومت کی طرف سے آواز تو سنائی دے رہی ہے مگر عملی طور پر کوئی قدم اٹھایا نہیں جارہا،سیینٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹرانوار الحق کاکڑ کی سرپرستی میں کمیٹی نے گھوٹکی ،سکھر اور حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے اقلیتی لیڈر، سندھ کے چیف سیکرٹری اورپولیس کے افسران سے ملاقات کی۔کراچی میں سول سوسائٹی اور ا قلیتی لیڈروں کی موجودگی میں سرکٹ ہاوس میں بریفنگ دیتے ہوئے سینیٹرا نوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جس شدت سے جبری تبدیلیِ مذہب و نکاح کے بارے میں جو کہا جا رہا تھا وہ شدت سننے میں نہیں آئی اور یہ بھی کہ کم عمرمیں تبدیلیِ مذہب پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ بعد ازاں اس کمیٹی نے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کردیںمگر تاحال کوئی ان سفارشات میں پیش رفت نظر نہیں آئی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کم عمر تبدیلی مذہب و نکاح کی مذمت ضرور کی ہے،اس گھناؤنے فعل اور ان واقعات کے سہولت کاروں کو کڑی سزا دینے کا ذکر ضرور کیا ہے لیکن ایسے واقعات سے اقلیتوں کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہےجو مسلم اور غیر مسلم کے باہمی تعلقات میں خلیج بڑھنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو اس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔بہت سے کیسز ایسے ہیں جو لوگ غربت ،عزت کے خوف اور د ھمکیوں کے ڈر سے پولیس میں رپورٹ نہیں کرواتے اور یہ کیس ہائی لائٹ نہیں ہوتے، جبری تبدیلیِ مذہب کے پیچھے زیادہ تر مقصد جنسی کاروبار بھی مقصود ہوتا ہے،شادی کے کچھ دن بعد ہی ا نہیں جنسی ورکر بننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔جنسی مقصد پورا ہونے کے بعد انہیں لاپتہ بھی کردیا جاتا ہےیا انہیں مختلف قسم کے القابات دے کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور ان کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے، کئی کیسز میں گھر سے بھاگی لڑکی کے خاندان والے اس لڑکی کوقبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتےجو بہت بڑا المیہ بھی ہے۔اس طرح کے واقعات شہروں سے دور دراز علاقوں میں زیادہ رونما ہوتے ہیں،جہاں لوگ قانون سے لاعلم ہیںیاجہاں ان کی اپروچ نہیں ہوتی۔ سیالکوٹ ،لاہور ،حیدر آباد اور کراچی میں کئی کیسزہائی لائٹ تو ہوئے مگر قانونی داد رسی نہ ہونے کی وجہ سے ان کیسز کا کچھ نہ ہو سکا۔کئی سالوں سے اس عمل کے خلاف آواز بلند کرنے کے باوجود اقلیتوں کے تحفظ اور کم عمر تبدیلی مذہب کا قانون پاس نہ ہو سکا،سندھ میں دو دفعہ اقلیتوں کے تحفظ کا بل پاس ہوتے ہوتے رہ گیا۔صوبائی سطح پر میرج ایکٹ ضرور ہے۔ جس کے تحت پنجاب میں لڑکی کی عمر 16سال تو صوبہ سندھ میں 18سال مقرر ہے۔اقلیتوں کا وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں سے یہ مطالبہ ہے کہ اس فرق کو جلد ختم کیا جائےاور اقلیتوں کو اس عذاب سے نکالنے کے لئے ریاستی قانون کو ہی اقلیتوں پر لاگو کیا جائے۔
تازہ ترین