• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بات کے شواہد نظر آ رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کو امریکہ اتحادی امدادی فنڈ کی مد میں 1800 ملین ڈالر کی نقد رقم اس توقع پر ادا کرے گا کہ پاکستان 5/ارب ڈالر کا نیا قرضہ آئی ایم ایف سے لمبی مدت کے لئے حاصل کرے گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ تقریباً 21ماہ سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو گرنے دیا تاکہ امریکی ایجنڈے کے تحت 2013ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا جواز پیدا کیا جاسکے بلکہ اس قرضے کے صلے میں” مزید اور کرو“ کا امریکی مطالبہ پورا کرنے کا بھی عندیہ دیا جبکہ چند ہفتے قبل افواج پاکستان نے بھی دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ یہی نہیں سابقہ حکومت نے اقتدار چھوڑنے سے چند ماہ قبل ہی آئی ایم ایف سے قرضے کی شرائط پر غیر رسمی بات چیت شروع کردی تھی۔ امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کے اگلے چند برسوں کے اہم مرحلے میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت رکھا جائے۔ اب سے27ماہ قبل ہم نے تنبیہ کی تھی ”آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینے کے منصوبے بن رہے ہیں۔“ (جنگ یکم فروری 2011) اس کے 13ماہ بعد پھر لکھا ”یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پاکستان کو اس پوزیشن میں لے آیا گیا ہے کہ 2012-13ء میں وہ آئی ایم ایف سے ایک نیا قرضہ لینے کے لئے امریکہ کی مدد کا طالب ہوگا جس کی سیاسی، معاشی و عسکری قیمت ادا کرنا ہوگی (جنگ 7مارچ 2012ء)۔ یہ تمام باتیں حرف بہ حرف درست ثابت ہو چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ مہینوں میں بھی زرمبادلہ کے ذخائر کو تیزی سے گرنے دیا تاکہ نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا جواز فراہم کیا جاسکے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیاں بھی اس صورتحال پر خوش تھیں۔ ملک میں امریکہ مخالف جذبات ابھارکر ووٹ حاصل کرکے اقتدار میں آنے کے بعد وہ یہ موقف اختیار کرسکیں گی کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں چنانچہ نادہندگی سے بچنے کے لئے دہشت گردی کی جنگ میں امریکی احکامات پر عمل کرکے امریکی سفارش پر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ عوام کو بہرحال یہ تلقین کی جائے گی کہ وہ چند برس قربانیاں دیں، اس کے بعد سنہرا مستقبل ان کا منتظر ہوگا۔ اگر اقتدار میں نہ آسکے تو کہیں گے کہ قوم نے موقع ضائع کردیا وگرنہ ہم قوم کو امریکہ کی غلامی سے نجات دلا دیتے اور آئی ایم ایف کے قرضے سے بے نیاز کردیتے۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی نے آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے سے بچنے کی حکمت عملی وضع کرنا تو کجا اس ضمن میں کوئی بات ہی نہیں کی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس سے ان طاقتور طبقوں کے مفاد متاثر ہوتے ہیں جو ان کی صفوں میں موجود ہیں۔ نگراں حکومت بھی امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں پیچھے نہیں رہی۔ نگراں وزیراعظم نے اچانک اپنے مشیر خزانہ کا تقرر کیا جس کے فوراً بعد مشیر خزانہ واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ امریکہ سے واپسی پر 23/اپریل2013ء کو انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو 5/ارب ڈالر قرضے کی پیشکش کی ہے اور نگراں حکومت کی معاشی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان اس قرضے کے ضمن میں مفاہمت ہوگئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ قرضہ نئی منتخب حکومت کو ”ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی“ کے تحت اونچے سود پر دیا جائے گا۔ نگراں حکومت کی ذمہ داری روزمرہ کے معاملات نمٹانا ہے۔ لمبی مدت کے بیرونی قرضوں کے ضمن میں عالمی مالیاتی اداروں سے شرائط کے ضمن میں مذاکرات اور مفاہمت کرنا نہیں۔ یہ مفاہمت اس کے مینڈیٹ سے متجاوز ہے۔ آئی ایم ایف 18جنوری 2013ء کو کہہ چکا تھا کہ پاکستان کی درخواست پر اسے نیا قرضہ دیا جاسکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ اس قرضے کا معاہدہ وہ منتخب حکومت سے کرے گا تاکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جاسکے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 1988ء میں بھی نگراں حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے معاملات طے کئے تھے مگر معاہدے پر دستخط اگلی منتخب حکومت نے مجبوراً کئے تھے۔ یہ پروگرام بعد میں مشکلات کا شکار ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے بھی نومبر 2008ء میں آئی ایم ایف سے7.6/ارب کا قرضہ منظور کرایا تھا۔ یہ پروگرام ناکام ہوگیا اور معیشت پر تباہ کن اثرات چھوڑ گیا۔ اب 4برس سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد نگراں مشیر خزانہ نے 23/اپریل2013ء کو کہا کہ نومبر 2008ء میں عبوری انتظامات کے تحت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا فیصلہ غلط تھا۔ 2008ء میں جب آئی ایم ایف سے عبوری انتظامات کے ذریعے قرضہ ملنے پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ہم نے لکھا تھا ”غیر پیداواری مقاصد کے لئے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ پاکستان اب آئی ایم ایف سے لے رہا ہے اس کی بھاری قیمت آنے والے کئی برسوں تک چکانی پڑے گی۔ (جنگ 31 دسمبر 2008) اب 2013ء میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ہم نے 28مارچ کے کالم میں لکھا تھا کہ نگراں حکومت کو قوم کو وہ حکمت عملی بتانا چاہئے جس کے تحت 2013ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر گزارا کرنا ممکن ہے۔ اس حکمت عملی کا خاکہ بھی کالم کا حصہ تھا۔ نگراں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ نے بہرحال امریکی ایجنڈے کے تحت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے عمل کو غیر ضروری طور پر آگے بڑھایا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے نومبر2008ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ دلوانے کے عوض امریکہ کے ساتھ کئے گئے تباہ کن سودے کے مطابق سوات اور جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کئے۔ جولائی2009ء سے جون 2012ء کے 3برسوں میں دہشت گردی کی جنگ سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا حجم تقریباً 48/ارب ڈالر رہا جبکہ اس سے قبل کے3برسوں میں اس نام نہاد جنگ سے پاکستانی معیشت کو تقریباً 21/ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اب پھر یہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ امریکہ کی سفارش پر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے نتیجے میں دہشت گردی کی جنگ نئے امریکی مطالبات کے مطابق لڑنے سے وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات بڑھیں گے اور معیشت کو زبردست جھٹکے لگیں گے۔ یہ سراسر خسارے اور بربادی کا نسخہ ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ یہ تمام سنگین معاملات انتخابی مہم کا حصہ ہی نہیں ہیں بلکہ تمام تر توجہ ایک دوسرے پر الزام تراشی پر مرکوز ہے۔
تازہ ترین