کورونا وائرس کی دوسری شدید لہر جو پہلی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک قرار دی جارہی ہے‘ کا بےقابو ہونے‘ متاثرین کی شرح تیزی سے بڑھنے اور اموات کی تعداد میں مسلسل اضافے کے پیش نظر وفاقی و صوبائی حکومتوں نے متفقہ طور پر ایک بار پھر تعلیمی ادارے بند کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا ہے جو اِس جان لیوا وباء سے نوجوان طلباء و طالبات کی جانیں بچانے کے لئے ناگزیر ہوگیا تھا۔ ماہرین کے مطابق دسمبر اور جنوری کورونا کے عروج کے مہینے ہوں گے اور مرض کی شدت اور مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے صورتحال بہت خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے پیش بندی کے طور پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیرصدارت صوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں یہ متفقہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ جمعرات 26نومبر سے 24دسمبر تک ملک بھر کی یونیورسٹیاں‘ کالج‘ سکول‘ ٹیوشن سنٹر اور دینی مدارس بند رہیں گے جس کے بعد 25دسمبر سے 10جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات ہونگی اور گیارہ جنوری کو تمام تعلیمی ادارے کھل جائیں گے مگر اس سے پہلے وزرائے تعلیم کاایک اور اجلاس جنوری کے پہلے ہفتے میں ہوگا جس میں کورونا کی صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیاجائے گا۔ ایسے ووکیشنل سنٹر جن میں روزانہ کلاسز نہیں ہوتیں‘ کھلے رہیں گے۔ امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔ البتہ انٹری لیول کے امتحانات معمول کے مطابق جاری رہیں گے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش کے دوران گھروں میں آن لائن پڑھائی جاری رہے گی اور جہاں آن لائن نظام نہیں ہوگا‘ وہاں اساتذہ ہوم ورک دیں گے۔ پنجاب کے 50فیصد اساتذہ پیر اور 50فیصد جمعرات کو اسکولوں میں آئیں گے تاکہ اپنے اداروں سے رابطے میں رہیں۔ چھوٹے نجی اسکولوں کو مالی نقصان سے بچانے کے لئے بینکوں سے آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں گے جن کا سود وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ وزیراعظم نے کورونا وائرس سے متعلق قومی رابطہ کمیٹی کااجلاس طلب کرلیا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی بندش کی حتمی منظوری دینے کے علاوہ ملک میں وباء کی عمومی صورتحال کے پیش نظر سمارٹ لاک ڈائون سمیت اہم فیصلے کئے جائیں گے۔ تعلیمی اداروں سے متعلق وزرائے تعلیم کا فیصلہ ملک اور پھر پوری دنیا میں کورونا کی دوسری لہر کی تباہ کاری کے پس منظر میں یقیناً درست فیصلہ ہے مگر طلباء کا پہلے ہی کافی تعلیمی حرج ہوچکا ہے۔ مزید نقصان سے بچنے کے لئے ایک مؤثر اور مربوط نظام تشکیل دیاجائے تاکہ آئندہ نسل حقیقی تعلیم سے بے بہرہ نہ رہے۔ کورونا کی صورتحال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس کے مثبت کیسز کی شرح 2.8فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پیر کو پورے ملک میں یہ شرح 46.7فیصد تھی۔ اس دوران 2ہزار 756نئے مریض سامنے آئے اور 39مریضوں کا انتقال ہوگیا۔ دنیا کے 196ممالک کی صورتحال کاجائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کل تک 14لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں‘ ان میں سے 2لاکھ 60ہزار سے زائد امریکہ میں فوت ہوئے۔بھارت میں مرنیوالوں کی تعداد ایک لاکھ 40ہزار سے زائد ہے۔ کورنا وباء جس تیزی سے پھیل رہی ہے‘ اسی رفتار سے اس کے علاج کیلئے ویکسین تیار کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں مگر ابھی تک ایک بھی ویکسین سو فیصد مؤثر ثابت نہیں ہوئی اور جن کے بارے میں 90فیصد مؤثر ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیں‘ وہ اتنی مہنگی ہیں کہ غریب آدمی انہیں خریدنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لئے عالمی ادارۂ صحت نے ادویہ ساز کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ غریبوں کو ویکسین تلے روندنے سے باز رہیں۔ پاکستان میں حکومت نے ویکسین کی خریداری کے لئے پیشگی انتظامات کئے ہیں جو تاحال کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایسی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان نے عوام کو درست مشورہ دیا ہے کہ کورونا سے بچائو کے لئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔