• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیٹرولیم سیکٹر میں حکومتی غلط فیصلوں اور تاخیر سے 122 ارب روپے کا نقصان، آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ میں انکشاف


کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام میں آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں انکشاف کیا گیاہےکہ پیٹرولیم سیکٹرمیں حکومتی غلط فیصلوں اور فیصلوں میں تاخیر سے 122 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

جانتے بوجھتے بھی ایسے فیصلے کیے گئے،جن کی کوئی منطق نہیں تھی اور قومی خزانے کو 122ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ وزیراعظم پتا کرائیں کہ فائدہ کسے پہنچایا گیا۔

پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کی تحقیق کے مطابق۔ 2018 میں ایل این جی ٹرمینل پوری طرح استعمال نہ کرنے پر 45ملین ڈالر ادا کیے اورپھر 2019 اور 2020 میں بھی ٹرمینل پورا استعمال نہیں کیا جاسکا۔

اور پیسے ضائع کیے گئے۔ یعنی تقریبا 25ارب روپے کا نقصان کیا گیا۔ 30ارب روپے کا نقصان فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے سردیوں میں ہوگا۔ 10ارب روپے کا نقصان 2018کی سردیوں میں کیا گیا۔ 35ارب روپے کا نقصان گرمیوں میں سستی ایل این جی ملنےکےباوجود اور یہ پتا ہونے کے باوجود کہ دسمبرمیں پاکستان کو ایل این جی چاہیے ہوگی۔ پھر بھی دیر کرنے سے ہوا، کیوں کہ پاکستان اب مہنگی ایل این جی خریدنے جارہا ہے۔

ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان اگست اور ستمبر میں دیر سے ایل این جی خریدنے کی وجہ سے ہوا۔ حالاں کہ ڈیمانڈ کا اچھی طرح پتا تھا۔

ملک کا 122ارب روپے کا نقصان صرف غلط فیصلوں کی اور فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے کیا گیا۔ اوریہ سب نقصان اس کے علاوہ ہے جو اس دوران غلط فیصلوں کی وجہ سے کم بجلی نہ ہونے اور کبھی گیس نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے عوام اور انڈسٹری کو ہوا۔

پروگرام میں بتائی گئی تفصیلات کے مطابق صرف اگست اور ستمبر کے مہینےمیں ایل این جی وقت پر نہ خریدنے کی وجہ سے لاکھوں ڈالرز کا نقصان کیا گیا۔

جولائی میں اگست کے لیے ایل این جی 5.7فی صد پرمل رہی تھی، مگر حکومت نے مکمل ڈیمانڈ کے مطابق ایل این جی کا ٹینڈر کرنے کے بجائے آخری وقت میں اگست میں جاکر دوسرا ٹینڈر کیا اور پھر 5.7فی صد کی جگہ 9.3فی صد پر ایل این جی ملی۔ یعنی 5ملین ڈالرز زیادہ۔

دوسری بڈ سے ڈھائی ملین ڈالرز زیادہ۔ پھر اگست میں یہی غلطی ستمبر کے لیے دہرائی گئی اور 6.9فی صد پر ستمبر کے لیے ایل این جی مل رہی تھی مگر ایک بار پھر وقت پر ڈیمانڈ کے مطابق آرڈر نہیں کیا گیا۔ اورپھر ستمبر میں ستمبر کے لیے اچانک ایل این جی کارگو لینے کا فیصلہ ہوا تو وہ 6.9فی صد کے بجائے 10.8فی صد پر ملا۔ یعنی ایک ماہ پہلے جو کارگو سستے مل گئے تھے،

ڈیمانڈ کے مطابق وقت پر ٹینڈر نہ کرنے کی وجہ سے صرف ان دو کارگوز میں ملک کا ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان کیا گیا۔ جب اسکی وجہ پوچھی گئی تو وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر نے کے الیکٹرک پر ذمے داری ڈال دی کہ اگست اور ستمبر میں اچانک کے الیکٹرک کی طرف سے گیس کی ڈیمانڈ آگئی تھی۔

پھر وفاقی وزیر برائے پاور اینڈپیٹرولیم عمر ایوب نے بھی پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں ذمے داری کے الیکٹرک پر ڈال دی تھی، پروگرام میں بتایا گیاکہ نہ صرف اعدادوشمار بلکہ ان ہی وزراء کے بیانات اس دعوے کے برعکس تھے۔

گزشتہ برسوں میں حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان نیا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے اختلاف رہا۔ کے الیکٹرک بار بار کہتا رہا کہ ہمیں ایس ایس جی سی سے ایلوکیشن کے مطابق 274 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جائے، حکومت کہتی رہی کہ آپ کا اب معاہدہ نہیں ہے، اس لیے نہیں دی جاسکتی۔

پھر کراچی میں بجلی کا کرائسز آیا اورپھر 23اپریل 2018کو کابینہ کی کمیٹی برائے انرجی نے فیصلہ کیا کہ کے الیکٹرک کو ایس ایس جی سی سے 130 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جائے گی اور 60ایم ایم سی ایف ڈی ۔ ایل این جی دی جائے گی۔ یعنی 190ایم ایم سی ایف ڈی گیس حکومت دے گی۔

پھر کے الیکٹرک کو 2018سے 190ایم ایم سی ایف ڈی گیس ملنے لگی ۔

مگر ندیم بابر اور عمر ایوب صاحب نے دعویٰ کیا کہ اگست اور ستمبر میں اچانک کے الیکٹرک کی طرف سے ڈیمانڈ آنے کی وجہ سے ایل این جی آرڈر کی گئی۔

حکومت نے جون میں کے الیکٹرک کو 128ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی دی۔ جولائی میں 121ایم ایم سی ایف ڈی دی۔

مگر اگست میں اس سے کم یعنی صرف 93ایم ایم سی ایف ڈی ۔ ایل این جی دی۔ اورستمبر میں مزید کم یعنی 66ایم ایم سی ایف ڈی ۔ ایل این جی دی۔

یعنی اگست اور ستمبر میں کے الیکٹرک کی طرف سے اچانک زیادہ ڈیمانڈ نہیں آئی تھی، بلکہ حکومت نے الٹا جون اور جولائی کے مقابلے میں کم ایل این جی فراہم کی تھی اور ان دو ماہ میں ایل این جی نہ صرف جون اور جولائی سے کم دی گئی بلکہ اتنی ہی تھی جتنی گزشتہ برس اگست اور ستمبر کے مہینے میں دی گئی۔ یعنی کچھ اچانک نہیں ہواتھا۔

جس کی وجہ سے حکومت کو بالکل آخر میں جا کرکے الیکٹر ک کی ڈیمانڈکا پتا چلا اور دیر سے ایل این جی آرڈر کرکے ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

خود ندیم بابر صاحب نے ستمبر کے مہینے میں عمر ایوب کے ساتھ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ کے الیکٹرک کو جون سے 100ایم ایم سی ایف ڈی گیس دے رہے ہیں۔

یعنی خود ان کے اس بیان کے مطابق بھی اگست اور ستمبر میں کوئی اچانک ڈیمانڈ کے الیکٹرک کی طرف سے نہیں آئی تھی۔ قوم کے پیسے ضائع کیے گئے اور ذمے داری خود لینےکے بجائے کے الیکٹرک پر ڈال دی گئی۔ جون میں جب پیٹرول کا کرائسز آیا ۔ سوال اٹھا کہ حکومت نے وقت پر تیل درآمد نہیں کیا۔

ندیم بابر اور عمر ایوب نے ذمے داری تیل بیچنے والی کمپنیوں پر ڈال دی۔ اور تحقیقات کا اعلان کیا گیا، جس کا آج تک نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ پھر کیوں کہ ملک میں تیل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ریفائنریز کے پاس کے الیکٹرک کو دینے کے لیے فرنس آئل نہیں تھا تو ذمے داری کے الیکٹرک پر ڈال دی کہ وقت پر انہوں نے اپنی فرنس آئل کی ڈیمانڈ نہیں بتائی ۔

پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں کی تحقیق کے مطابق، حکومت نے جنوری 2019میں پورے ملک میں فرنس آئل کی درآمد پر پابندی لگادی۔ اور وزیراعظم نے احکامات دیے کہ اب ملک میں ایل این جی اور کوئلے سےسستی بجلی پیدا کی جائے گی۔ اور ضرورت پڑنے پر کے الیکٹرک کو بھی ملک کی ریفائنریز کو فرنس آئل استعمال کرنے کا کہا۔ پھر کورونا آیا۔ ڈیمانڈ نیچے گئی۔

ریفائنریز کے پاس مطلوبہ فرنس آئل نہیں تھا۔ اور حکومت کی ذمے داری تھی کہ اس صورتحال پر نظر رکھتی۔ ملک میں پیٹرول کی کمی اور فرنس آئل کی کمی پر نظر رکھتی۔ ایل این جی بہت سستی مل رہی تھی۔

ایل این جی منگوالیتی کیوں کہ جون میں دوسرا ایل این جی ٹرمینل صرف 269ایم ایم سی ایف ڈی یعنی 45فی صد کیپسٹی پر چل رہا تھا۔

مگر حکومت نے کچھ نہیں کیا اور کہہ دیا کہ پیٹرول بیچنے والی کمپنیوں نے تیل چھپالیا اور کے الیکٹرک نے وقت پر نہیں بتایا۔ آپ کے سامنے مزید حقائق رکھتے ہیں۔

کے الیکٹرک نے جون کی 1لاکھ 20ہزار ٹن فرنس آئل کی ڈیمانڈ اپریل میں بتادی تھی۔ پھر جون میں ڈیمانڈ 1لاکھ 20ہزار ٹن سے بڑھا کر 1لاکھ 30ہزار ٹن کردی ۔

مگر پی ایس او نے صرف 69ہزار ٹن فرنس آئل فراہم کیا، کیوں کہ ملک میں ریفائنریز کے پاس فرنس آئل ہی نہیں تھا۔ پھر پی ایس آو نے 2جون کو پیٹرولیم منسٹری کو کے الیکٹرک کی جون۔

جولائی اور اگست کی ڈیمانڈ کا بتایا اور منسٹری کو 19مئی کے خط کا حوالہ دیا کہ آپ کی وزارت نے 19مئی کو ریفائنریز کو زیادہ سے زیادہ فرنس آئل دینے کا کہا تھا مگر آج تک اس حوالے سے نہ کوئی کنفرمیشن آئی اور نہ ہی ایلوکیشن بڑھائی گئی۔

اس لیے ہم آپ سے ایک بارپھر درخواست کررہے ہیں کہ ریفائنریز کو زیادہ سے زیادہ فرنس آئل دینے کے احکامات جاری کریں ورنہ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں رہے گا، کہ ہم فوری طور پر فرنس آئل درآمد کریں تاکہ فرنس آئل کی ڈیمانڈ پوری کرسکیں۔

خاص طورپر کے الیکٹرک کی ڈیمانڈ تاکہ کراچی میں لوڈشیڈنگ کے کرائسز سے بچاجاسکے، کیوں کہ کے الیکٹرک کے پاس اس موقع پر صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی آپشن نہیں ہوگا۔

تازہ ترین