• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی بڑھتی ہوئی تشویشناک لہر پر قابو پانے کے تناظر میں کابینہ کی جانب سے مجرموں کے خلاف سخت سزائیں تجویز کرتے ہوئے انسدادِ ریپ قوانین کی منظوری ایسی سنجیدہ کوشش ہے جس پر مکمل عملدرآمد ممکن بناکر زیادتی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی لائی جا سکے گی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020اور تعزیراتِ پاکستان (ترمیمی) آرڈیننس 2020کی اصولی منظوری دی گئی ہے جس میں ریپ کی تعریف کو وسیع کرتے ہوئے ٹرانس جینڈر اور گینگ ریپ کی اصطلاح کو شامل کیا گیا ہے۔ دونوں قوانین میں خصوصی عدالتوں، اینٹی ریپ کرائسز سیل کا قیام، متاثرین اور گواہان کا تحفظ شامل ہے جبکہ زیادتی کے مرتکب افراد کیلئے پھانسی کے علاوہ دوائوں کے ذریعے نامرد بنانے کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں کشمور کا دردناک واقعہ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے وزارتِ قانون کو ایسا جامع آرڈیننس تیار کرنے کا کہا تھا جس میں ملزم کے خلاف تیز ترین ٹرائل، نئے جرائم کو شامل کرنا، ریپ کی جامع تعریف اور سزا یافتہ ریپسٹس کے لئے سخت سزائیں شامل ہوں۔ بتایا گیا ہے کہ آرڈیننس مزید بہتری کیلئے محکمہ قانو ن کو بھجوا دیا گیا ہے جس کے بعد ایک ہفتے میں اُسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔ غور کیا جائے تو نظامِ انصاف اور تفتیشی عمل میں پائی جانے والی خامیوں، پولیس کا عام رویہ ایسے پہلو ہیں جو اکثر خواتین و بچوں پر تشدد اور زیادتی جیسے حساس معاملات کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں اور مجرم اُس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ مذکورہ قوانین میں اِن پہلوئوں کو مدِنظر رکھ کر اِن خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ بہر طور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قوانین کا عملاً نفاذ ہی اُن کو موثر بناتا ہے ورنہ زیادتی کیخلاف قوانین تو پہلے بھی کئی منظور ہو چکے ہیں۔

تازہ ترین