• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیدُ الاولیاء، غوثُ الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ

ڈاکٹر محمد جاوید ایم ۔ڈی

’’میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے‘‘۔جب یہ کلمہ غوث الاعظمؒ کے دہن مبارک سے نکلا تو اس وقت کے تمام اولیاء اللہ نے اپنا اپنا سر جھکا لیا اور کہا کہ’’ ہماری گردن پر بھی ‘‘۔ غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنے زمانے کے سب سے بڑے اولیا ءاللہ میں سے تھے ۔ آپ اس وقت کی سپر پاور یعنی عباسی حکومت کے دارالخلافہ عروس البلاد بغداد میں رہائش پذیر تھے ۔ آپؒ نجیب الطرفین سید تھے۔

جس طرح آپ کی ہر بات عجیب ہے وہیں آپ کے والدین کی شادی کا معاملہ بھی عجیب بات میں شمار ہوتا ہے۔ آپ کے والد محترم ایک دفعہ دریا کے کنارے تشریف لے جارہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک سیب بہتا ہوا آرہا ہے ، آپ نے اسے کھالیا، پھر آپ کے دل میں خیال آیا کہ اس سیب کا مالک کون ہے اور میں نے اسے بغیر اجازت کھالیا ۔ یہ خیال آنا تھا کہ آپ دریا کی اس سمت چل پڑے جس طرف سے یہ سیب بہتا ہوا آرہا تھا ۔ تین دن متواتر چلتے رہے، تب کہیں جاکر آپ کو ایک باغ نظر آیا جس میں سیب کے درخت لگے ہوئے تھے اور ان کی پھلوں سے لدی شاخیں دریا پر جھکی ہوئی تھیں ۔ آپ کو اندازہ ہوگیا کہ سیب یہیں سے بہتا ہوا آیا ہے ۔ آپ نے اس باغ کے مالک سے سیب کھانے کی اجازت چاہی ، وہ بھی غالباً اپنے زمانے کے اولیاء میں سے تھے، انہوں نے فرمایا کہ میں اسی شرط پر معاف کرسکتا ہوں ،جب آپ میری بیٹی سے شادی کرلیں جس میں یہ عیب ہیں، وہ آنکھوں سے اندھی، کانوں سے بہری، ہاتھوں سے معذور، پیروں سے لنگڑی اور گونگی ہے ۔ 

آپ نےاسے قبول فرمالیا ۔ شادی کے بعدجب آپ اپنی اہلیہ کی طرف پہنچے تووہاں حسین وجمیل خاتون کو پایا ، آپ نے یہ سوچا کہ شاید کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے، اس لیے آپ نے پوری رات عبادت میں گزاردی ۔ صبح جب آپ کی ملاقات ان بزرگ سے ہوئی، جن کی وہ صاحب زادی تھیں، تب انہوں فرمایا کہ دراصل یہ اندھی اس لیے ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں دیکھا، بہری اس لیے ہے کہ کوئی گناہ کی بات نہیں سنی، ہاتھوں سے معذور اس لیے کہ ہاتھوں سے کوئی گناہ نہیں کیا ، لنگڑی اس لیے کہ پیروں سے گناہ کی طرف چل کر نہیں گئی ۔ تو قارئین کرام آپ اندازہ فرمالیں کہ جس کے ماں باپ اس درجے کوہوں، اس شخص کا کیا حال ہوگا ۔ غوث الاعظمؒ اپنے والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی سید تھے ۔ آپ کا آفتاب زندگی 470 یا 471 ھ میں طلوع ہوا اور 561 ھ میں سارے عالم کو منور کرتا ہوا اس جہان فانی سے غروب ہوا ،اس وقت آپ کی عمر 91 برس کی تھی ۔

جہاں تک آپ کی تعلیم و تربیت کا تعلق ہے تو آپ نے اْس وقت کے بڑے بڑے علما ء سے فیض حاصل کیا ۔ آپ نے قرآن پاک کو تجوید و قرأت کے ساتھ پڑھا اور اس کے اسرار اور رموز کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے وقت کے بڑے بڑے محدثین اور عالم فاضل ، مستند علما ء سے علوم اصولی و فروعی ، مذہبی و اخلاقی وغیرہ علوم میں کمال حاصل کیا اور بغداد میں آپ کو تمام علماء پر فوقیت حاصل ہوگئی ۔

آپ کے تبحر علمی کا یہ حال تھا کہ ایک دن قاری نے قرآن کریم کی ایک آیت کی تلاوت کی۔ آپ نے اس کی ایک تفسیر بیان کی ، پھر دوسری اور تیسری یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق اس ایک آیت کی 11 تفسیریں بیان فرمائیں، پھر حقائق کو بیان کرتے ہوئے اس کی 40 حقیقتیں بیان فرمائی اور ہر معنی و تفسیر کی علیحدہ علیحدہ تفصیل سے سند اور دلیل اس طرح دی کہ حاضرین مجلس دم بخود رہ گئے اس کے بعد فرمایا ، ہم حال کو چھوڑ کر قال کی طرف آتے ہیں ۔ پھر آپ نے لا الہٰ الا اللہ محمدرسول اللہ ﷺ کہا اس کلمہ توحید کا زبان سے نکلنا ہی تھا کہ حاضرین مجلس کے دل میں اضطراب کی لہریں دوڑ گئیں اور وہ جنگل کی طرف بھاگنے لگے ۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا طریقہ سلوک بے نظیر تھا ۔آپ کے کسی ہم عصر شیخ میں اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت یا مجاہدہ میں ہمسری کرسکے ۔ ایک مرتبہ حضرت غوث اعظم ؒ نے فرمایا کہ 25 سال تک ترک دنیا کیے ہوئے میں عراق کے جنگلوں اور میدانوں میں پھرتا رہا کہ میں کسی کو نہ پہچانتا اور کوئی مجھے نہ جانتا ، رجال الغیب اور جنات میرے پاس آمد و رفت کرتے اور میں انہیں حق کی تعلیم دیا کرتا ۔ چالیس برس تک فجر کی نماز میں نے عشاء کے وضو سے ادا کی ، پندرہ سال تک عشاء کی نماز کے بعد ایک قرآن شریف ختم کرتا رہا ۔ ایسا بہت زمانہ گزرا ہے کہ کھانے پینے اور سونے سے علیحدہ رہا ۔ گیارہ برس تک برج بغداد کے اندر عبادت الٰہی میں مشغول رہا میری طویل اقامت کی وجہ سے لوگ اسے برج عجمی بھی کہتے ہیں برج بغداد کے قیام عبادت کے زمانے میں اللہ سے عہد کرتا رہا کہ جب تک غیب سے کھانا نہ ملے گا، نہ کھاؤں گا، اس حالت کو کافی عرصہ گزر جاتا ، لیکن میں عہد شکنی نہ کرتا اس کے علاوہ میں نے اللہ سے جو وعدہ کیا، اس کی خلاف ورزی کبھی نہیں کی۔

ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت غوث اعظم ؒ سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ ولی اللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں دس برس کا تھا ،گھر سے مدرسہ جاتے وقت دیکھتا تھا کہ فرشتے گویامیرے ساتھ چل رہے ہیں، پھر مدرسے میں پہنچنے کے بعد فرشتے دوسروں لڑکوں سے کہتے کہ اس لڑکے کو جگہ دو، یہ ولی اللہ ہے ۔ ایک دن مجھے ایسا شخص نظر آیا جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ،اس نے ایک فرشتے سے پوچھا یہ کون لڑکا ہے جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اس نے جواباً کہا کہ یہ ولی اللہ ہے جو بہت بڑے مرتبے کا مالک ہوگا یہ وہ شخص ہے جسے بغیر روک ٹوک کے نعمتیں دی جا رہی ہیں اور بغیر کسی حجاب کے تمکین و قرار عنایت ہو رہا ہے اور بغیر کسی حجاب کے تقرب الٰہی مل رہا ہے ۔غرض چالیس برس کی عمر میں، میں نے پہچان لیا کہ پوچھنے والا اپنے وقت کا ایک ابدال تھا۔

حضرت غوث اعظم ؒ فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانے میں سوتے جاگتے مجھے کرنے کے کام بتائے جاتے تھے اور مخلوقات سے علیحدہ رہنے کا حکم ملتا رہتا تھا ایک مرتبہ قوت گویائی نے مجھ پر اتنا غلبہ کیا کہ میں بے اختیار ہو گیا اور خاموش رہنے کی قوت میرے ہاتھ سے جاتی رہی، پھر میرے پاس دو تین آدمیوں نے آکر مجھ سے بات چیت کی جو پس پردہ میری گفتگو سنا کرتے تھے ۔ اس کے بعد میرے پاس لوگوں کا اتنا ہجوم ہو گیا کہ میری نشست گاہ میں ان کے بیٹھنے کے لیے گنجائش نہ رہی ، پھر میں شہر کی جامع مسجد میں جاتا اور لوگوں کو احکام الٰہی سناتا ۔ یہاں بھی اتنا مجمع بڑھنے لگا کہ مسجد میں بیٹھنے کی گنجائش نہیں رہی، آخر کار شہر سے باہر جاتا، جہاں بے شمار لوگوں کا اجتماع ہونے لگا۔ پیدل چلنے والے اور سوار سب ہی قسم کے لوگ جمع ہو جاتے اور مجلس کی شکل بنا کر اس کے اطراف واکناف میں دور دور تک کھڑے وعظ و نصیحت سنتے ۔ بعض اوقات ان کی تعدادستّرہزار تک ہو جاتی تھی ، آپ کی مجلس وعظ میں کئی اشخاص قلم و دوات لئے آپ کی نصیحتیں قلمبند کرتے رہتے تھے ۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒسے بہت زیادہ کرامتیں ظاہر ہوئیں جو تواتر سے ثابت ہیں ۔ شیخ مجدد الف ثانی ؒ اپنے ایک مکتوب میں یہ فرماتے ہیں کہ اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ مقام روحانی پر فائز تھے اور اس پر ہمیشہ رہے ،اس لئے ان سے بہت زیادہ کرامتیں ظاہر ہوئی ہیں ، اولیاء اللہ جب روحانی ترقی کرتے ہیں تو پہلے انہیں عروج حاصل ہوتا ہے ، اور یہ عروج مزید ترقی کرکے نزول میں بدل جاتا ہے ۔ مگر حضرت شیخ کاعروج فرما کر مقام روحانی پر ہی قیام رہا ،اس لیے ان سے بہت زیادہ کرامتیں ظاہر ہوئی ہے ۔ یہ چھوٹا سا مضمون ان کی کرامتوں کو بیان کرنے سے قاصر ہے ۔

قادری سلسلہ کے بانی شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہیں،یہ سلسلہ ہندوستان اور پاکستان یعنی برصغیر میں کافی مقبول رہا ہے۔ گو کہ آج کل قادری سلسلے کی تعلیمات اور چشتی سلسلے کی تعلیمات میں کچھ فرق نہیں رہا اور یہ آپس میں مل گئی ہیں ،لیکن پھر بھی اس کی ایک شان ہے ۔ شاہ ولی اللہ اپنی کتاب ہمعات میں فرماتے ہیں کہ حضرت غوث الاعظم’’ نسبت اویسی ‘‘ رکھتے ہیں، ان کی اس نسبت کے ساتھ ’’نسبت سکینہ‘‘ کی برکات بھی ملی ہوئی ہیں۔ حضرت غوث الاعظم ؒکی نسبت کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو چیز بنائی ہے اسے’’ شخص اکبر‘‘کہتے ہیں، اسے انگریزی میں Greater Body یا Universal man کہتے ہیں ۔یہ ترجمہ’’ ڈاکٹر غلام حسین جلبانی نےشاہ ولی اللہ کی کتابوں سے لیا ہے ‘‘۔جس شخص کو یہ نسبت حاصل ہوتی ہے، وہ شخص اس نکتہ تجلی کا محبوب ومقصود بن جاتا ہے ۔غرض جب اس کی نسبت کا حامل اس تجلی کا محبوب ٹہرا تو اس محبوبیت کی وجہ سے یہ نسبت رکھنے والا سب کا محبوب و مقصود بن جاتا ہے ۔

اس پر تجلیات الٰہی میں سے ایک تجلی کا فیضان ہوا۔ یہ تجلی جامع ہوتی ہے ۔ چونکہ نفوس افلاک ملا ئے اعلیٰ اور ارواح کاملین کی محبت و شفقت سے اسی نقطے کے ضمن میں آتی ہیں، اس لیے یہ نسبت رکھنے والا شخص قدرت الٰہی کے ان چارکمالات یعنی ابداع ، تخلیق ، تدبیر اور تجلی کے یہ چار کمالات اس نظام کائنات میں مصروف عمل ہیں۔ چنانچہ اس تجلی کے طفیل اس نسبت رکھنے والے شخص سے بے انتہا خیروبرکت کا ظہور ہوتا ہے ،خواہ وہ اس کمال کی اظہار کا قصد کرے یا نہ کرے اور اس فیض کی طرف اس کی توجہ ہو یا نہ ہو۔ گویا کہ اس خیر و برکت کا یہ صدور ایک طےشدہ امر ہے اور یہ اس کے ارادے کے بغیر ہی معرض وجود میں آ رہا ہے ۔

حضرت غوث اعظمؒ کی زبان سے فخر اور بڑائی کے جو بلند آہنگ کلمات نکلے اور آپ کی ذات گرامی سے تسخیر عالم کے جو واقعات رونما ہوئے، یہ سب کچھ آپ کی اسی نسبت کا نتیجہ تھا۔اس ضمن میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جب یہ نسبت تکمیل کو پہنچتی ہے تو اس کی وجہ سے کسی قدر نسبت یادداشت بھی جو نسبت توحید سے ملی ہوئی ہوتی ہے، حاصل ہوجاتی ہے ۔

حضرت غوث الاعظم کے طریقے کی مثال ایک ایسی ندی کی ہے کہ کچھ دور تو وہ زمین کی سطح کے اوپر بہتی رہی پھر وہ زمین کے اندر غائب ہو گئی اور اندر ہی اندر دور تک بہتی چلی گئی اس نے زمین کے اندرونی حصے کو نمناک کر دیا، اس کے بعد وہ دوبارہ چشمہ کی شکل میں پھوٹ نکلی پھر دور تک زمین کی سطح کے اوپر بہتی چلی گئی۔

یہاں شاہ ولی اللہ ؒ نے بڑے پیارے انداز میں یہ بات سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ کبھی آپ دیکھیں گے کہ قادری سلسلے کے بہت سارے اولیاء ایک ساتھ آپ کو ملیں گے اور کبھی آپ کو ڈھونڈنے سے بھی کوئی نظر نہیں آئے گا۔ اسی طرح یہ سلسلہ پچھلے ہزار برس سے جاری و ساری ہے اور اس کا فیض آج بھی جاری ہے۔

تازہ ترین