عدالت ِعظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے ڈی ایچ اے لاہور کی جانب سے اپنے رہائشی منصوبے کی جگہ تبدیل کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایل ڈی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ زرعی زمینوں پر تعمیرات نے سبزہ ختم کر دیا ہے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ سوسائٹیاں وہاں ہونی چاہئیں جہاں زرعی زمین نہ ہو، ساری دنیا میں صحرائوں میں تعمیرات ہو رہی ہیں۔ اِس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ سرِدست پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار میں سے ایک رئیل اسٹیٹ یعنی پراپرٹی کا ہے، تاہم المیہ یہ ہے کہ اِس کاروبار سے زرعی زمینیں معدوم ہو رہی ہیں، ملک بھر میں زرخیز زرعی اراضی پر کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہزاروں رہائشی اسکیمیں بن رہی ہیں کیونکہ زراعت کی نسبت رہائشی اسکیمیں بنانا زیادہ نفع بخش ہے، اسی رجحان کے باعث رہائشی اسکیموں کیلئے زرعی اراضی کی خرید و فروخت میں تیزی آئی، یہ الگ بات کہ کالا دھن چھپانے اور کھپانے کا آسان طریقہ بھی یہی ہے۔ مارچ 2019میں وزیراعظم عمران خان نے زرعی اراضی پر رہائشی آبادیوں کی تعمیر پر پابندی کا حکم دیا تھا لیکن اُس پر عملدرآمد نہ ہو پایا۔ شہر لاہور کے چاروں اطراف، رائے ونڈ روڈ، ملتان روڈ، فیروز پور روڈ اور برکی روڈ سمیت مختلف علاقوں میں زرعی اراضی پر درجنوں رہائشی آبادیاں قائم ہو چکی ہیں، جس کے باعث شہر میں سبزیوں اور دیگر اجناس کی پیداوار میں واضح کمی آئی۔ لاہور اگر دنیا کا آلودہ ترین شہر بن گیا ہے تو اُس کی بنیادی وجہ یہاں سے درختوں اور سبزے کا صفایا ہو جانا ہے، ہمیں اسلامی تصور کی طرف رجوع کرنا ہوگا، یعنی چھوٹے شہر آباد کئے جائیں تا کہ زرعی زمینوں کو بچایا جا سکے، یوں بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کے رجحان میں بھی کمی آئےگی جو خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔