کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ او آئی سی اجلاس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر شامل نہ ہونے کی خبر درست نہیں ہے۔
وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ پرانی کے سی آر کی بحالی پیسے کا زیاں ہے،کراچی سرکلر ریلوے ترقی یافتہ شہروں جیسی ہونی چاہئے۔
سینئرتجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اتحادی الگ ہوئے تو حکومت خطرے میں پڑ جائے گی، سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ اپوزیشن کا زور حکومتی اتحادیوں کو توڑنے پر نہیں بلکہ اپنی احتجاجی تحریک پر ہے۔
وزیرخارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یو اے ای حکام کے مطابق ویزوں پر پابندی کا معاملہ پاکستان سے مخصوص نہیں ہے، پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک بھی اس پابندی میں شامل ہیں۔
یو اے ای کے مطابق نئے پروٹوکولز بنائے جارہے ہیں اس کے بعد ویزوں کے اجراء کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، یو اے ای کے جو ویزے جاری کیے جاچکے ہیں وہ منسوخ نہیں ہوں گے، ویزوں پر پابندی عارضی ہے جو زیادہ دیر کیلئے نہیں ہوگی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دوست ممالک کا کوئی دباؤ نہیں ہے، مسئلہ فلسطین او ر اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کا تاریخی موقف برقرار ہے، پاکستانی قوم کی امنگوں اور خواہشات کا احترام کرتے ہیں۔
سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ پاکستان کے معاملات بالکل ٹھیک ہے، سعودی عرب نے ڈیجیٹل کوآپریشن آرگنائزیشن لانچ کی ہے پاکستان کو اس کے بانی ممبران میں شامل کیا گیا ہے، سعودی عرب کے ساتھ ڈیجیٹل اکانومی کی طرف پیشرفت کی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کےایجنڈے میں مسئلہ کشمیر شامل نہ ہونے کی خبر درست نہیں ہے، انڈین میڈیا حقائق کے برخلاف اس قسم کی قیاس آرائیاں کررہا ہے، سیکرٹری جنرل او آئی سی نے مجھ سے گفتگو میں ان قیاس آرائیوں کو حقیقت کے برخلاف قرار دیدیا ہے، کل او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں واضح ہوجائے گا کہ کشمیر ایجنڈے پر ہے یا نہیں ہے۔
او آئی سی کا کشمیر پر جو موقف پہلے تھا وہی اب بھی ہے، سیکرٹری جنرل نے ہماری درخواست پر او آئی سی کا خصوصی وفد آزاد کشمیر بھیجا، ہندوستان نے اس خصوصی وفد کو مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی، آج اجلاس میں کشمیر پر ا و آئی سی کا خصوصی وفد اپنی رپورٹ پیش کرے گا، توقع ہے او آئی سی کی طرف سے کشمیر کے معاملہ پر دو ٹوک موقف سامنے آئے گا۔
وزیرتعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت جس کے سی آر کی بات کررہی ہے وہ سی پیک کا حصہ ماڈرن کراچی سرکلر ریلوے ہے، سپریم کورٹ میں پرانی کراچی سرکلر ریلوے کو بحال کرنے کے حوالے سے بات کی گئی۔
عدالت کو نوٹس ایشو کرنے سے پہلے حکومت سے جواب لے کر ذمہ دار کا تعین کر کے اسے نوٹس جاری کرناچاہئے تھا، سپریم کورٹ میں پرانی کے سی آر بحال کرنے کے ساتھ 24مقامات پر انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنانے کیلئے کہا گیا تھا، ابتدائی طور پر دس مقامات پر فوری طور پر انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنانے تھے، عدالت نے یہ انڈر پاسز اور فلائی اوورز ایف ڈبلیو او سے بنوانے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر سندھ حکومت نے اس کیلئے اپنے بجٹ میں 3ارب روپے رکھے، وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے اس معاملہ پر کسی مرحلہ پر کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے،میری رائے میں پرانی کے سی آر کی بحالی پیسے کا زیاں ہے، ہم سمجھتے ہیں کراچی سرکلر ریلوے ترقی یافتہ شہروں جیسی ہونی چاہئے۔
وزیراعلیٰ سندھ کورونا وائرس کا شکار اور آئسولیشن میں ہیں، امید ہے عدالت کو حقائق بتائیں گے تو مطمئن ہوجائے گی، وفاقی حکومت کی ترجیح ایم ایل ون تھی انہوں نے کراچی سرکلر ریلوے کو ترجیح نہیں دی اس لئے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔
سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ق لیگ کے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کاکوئی خاص خطرہ نہیں تھا،ق لیگ کے ساتھ حکومت کے پاس بھی آپشنز بہت محدود ہیں، اتحادی اگر الگ ہوئے تو حکومت خطرے میں پڑجائے گی۔
مسلم لیگ ق کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر کے کسی اتحاد میں نہیں جائے گی، ق لیگ اس وقت ن لیگ سے اتحاد نہیں کرسکتی ،اس کے پاس بھی ناراض ہونے یا پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے، جب تک اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہے حکومت کے اندر توڑ پھوڑ یا اتحادیوں کو توڑنا مشکل ہوگا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کیخلاف طاقت کا استعمال فائدے کے بجائے نقصان دے گا،حکومت اپوزیشن کے جلسے ہونے دے تو اس کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوگا، اپوزیشن لانگ مارچ تک جاتی ہے تو تصادم کے ساتھ مذاکرات کا امکان بھی بڑھے گا۔