• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں کشمیر پر پاکستان کے جائز اور اصولی موقف کی بھرپور حمایت اور گزشتہ سال 5اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی سمیت تمام بھارتی اقدامات کے مکمل استرداد پر مبنی قرارداد کی متفقہ منظوری بلاشبہ عالمِ اسلام کی جانب سے مظلوم کشمیری مسلمانوں اور اہلِ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا امید افزا مظاہرہ ہے۔ پاکستان کی پیش کردہ اِس قرارداد کی منظوری سے بھارت کا پھیلایا ہوا یہ تاثر کہ اجلاس کے ایجنڈے میں کشمیر کا معاملہ سرے سے شامل ہی نہیں‘ بالکل بےبنیاد ثابت ہو گیا اور یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے کہ مسلم ممالک مختلف شعبوں میں بھارت سے مفادات کے اشتراک کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے جائز حق کی حمایت کے اظہار میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں۔ اسلامو فوبیا کے خلاف بھی پاکستان کی پیش کردہ قرارداد کی متفقہ منظوری عمل میں آئی جس سے اسلامی تعاون تنظیم میں پاکستان کے مؤثر کردار کا بھرپور اظہار ہوا۔ دفتر خارجہ کے مطابق افریقی ملک نائجر کے دارالحکومت نیامے میں ہونے والے اسلامی وزرائے خارجہ کے 47ویں اجلاس میں منظور کی گئی کشمیر سے متعلق قرار داد میں او آئی سی نے بھارت کے 5اگست 2019کے غیرقانونی اقدامات کو یکسر مسترد کردیا اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیرکشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجرا اور دیگر ناجائز اقدامات منسوخ کرے۔ اِن اقدامات میں جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن آرڈر، جموں و کشمیر گرانٹ آف ڈومیسائل سرٹیفکیٹ رولز، جموں و کشمیر لینگویج بل اور زمین کی ملکیت سے متعلق قوانین میں ترامیم شامل ہیں۔ دفتر خارجہ کے مطابق او آئی سی کے 57ملکوں نے آر ایس ایس، بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مودی حکومت متنازع خطے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رہے۔ قرارداد میں بھارتی فورسز کے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالیوں، جعلی مقابلوں اور نام نہاد آپریشنوں میں ماورائے عدالت قتل سمیت ریاستی دہشت گردی کے دیگر واقعات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں معصوم شہریوں کے خلاف پیلٹ گنوں کے استعمال اور کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کو ملٹری کریک ڈاؤن بڑھانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ قرارداد میں بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کا کردار ایل او سی کے اطرف بڑھائے، جموں و کشمیر، سرکریک اور دریائی پانی سمیت تمام تنازعات عالمی قانون اور ماضی کے معاہدات کے مطابق طے کرے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں صورتحال کی نگرانی کرے، عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی جلد بحالی کے لئے کردار ادا کرے اور سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ خصوصی ایلچی کا تقرر کریں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ نمائندہ خصوصی مقبوضہ کشمیر میں بےگناہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مسلسل نگرانی کریں اور سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ کو آگاہ کریں جبکہ سیکرٹری جنرل او آئی سی، انسانی حقوق کمیشن اور جموں و کشمیر پر رابطہ گروپ بھارت سے بات کرکے رپورٹ پیش کریں۔ اِس تفصیل سے واضح ہے کہ قرارداد میں صورتحال کے تمام پہلوؤں کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے تاہم یہ حقیقت ملحوظ رہنی چاہئے کہ مسائل صرف قراردادوں سے نہیں ٹھوس عملی اقدامات سے حل ہوتے ہیں۔ تنازع کشمیر کے مبنی بر حق تصفیے کیلئے بھی معیشت، تجارت اور دیگر شعبوں میں بھارت کے خلاف ایسے نتیجہ خیز عملی اقدامات ناگزیر ہیں جو اسے تنازع کشمیر کے منصفانہ حل پر مجبور کر سکیں۔

تازہ ترین