یارسول اللہؐ آپؐ کا غلام حافظ خادم حسین رضوی حاضر ہے ۔یارسول اللہؐ میں آپؐ کے نام پر قربان ہوکر آپؐ کی بارگاہ میں پہنچاہوں ۔میری ٹانگیں کام نہیں کرتی تھیں لیکن میرا دل اورزبان مسلسل آپؐ کی عزت و ناموس کی حفاظت میں مشغول رہی ،دنیا مجھے دیوانہ مولوی اور نجانے کیا کیا کہتی رہی لیکن میں نے اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق گلی گلی ،قریہ قریہ، گائوں گائوں، شہر شہر غلامانِ مصطفیؐ کو بیدارکیا ، یارسول اللہؐ میر ا آپؐ کے ساتھ غلامی کا رشتہ تھا، ہے اور رہے گا۔ اعوان ہونے کے ناطے اولاد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں ، میرے خلاف مقدمے ہوئے تو صرف اسی وجہ سے کہ میں دین اسلام کی بات کرتا اور دین کو تخت(حکومت) پر لاناچاہتا تھا،مجھے مدرسہ سے فارغ کیا گیا، محکمۂ اوقاف سے جبراً ریٹائر کیا گیا لیکن حضورؐ میں نے لاکھوںروپے محکمۂ اوقاف سے لینے سے انکارکر دیا جو تاحال محکمۂ اوقا ف کے اکائونٹ میں پڑے ہیں۔میں جائیداد چھوڑ کر نہیں، عشق رسولؐ چھوڑ کر آیا ہوں، کمزور ٹانگوں اور طاقت ور زبان سے لبیک یارسول اللہؐ کہتا رہا، کہلواتا رہا۔مجھے اپنوں اور بیگانوں نے طعنے دئیے کہ میری زبان سخت ہے،مانتا ہوں کہ زبان سخت تھی لیکن میں اہل بیتؓ و صحابہؓ کی طرح آپؐ کے عشق میں چور چورتھا۔میں علامہ فضل حق خیرآبادیؒ ،ارطغرل غازیؒ ،حضرت امام مالکؒ، مولانا احمدرضا فاضل بریلویؒ کی طرح آپؐ کے عشق میں ڈوبا ہواتھا ۔یارسول اللہؐ میں آپؐ کے عشق کی مستی میں یہ سب کہہ دیتا تھا ، غلام کی غلامی کو قبول فرمائیں۔ مجھے اللہ کے قرآن اورآپؐ کی سیرت یہاں لے آئی۔ آپؐ کی حدیث ہے کہ جو مسلمان بروز جمعہ فوت ہو، اس کی بخشش ہو جاتی ہے۔ یارسول اللہؐ مجھے آپؐ کا پڑوس چاہیے۔ داتاعلی ہجویریؒ کا غلام حاضر ہے۔ یارسول اللہؐ مسلمان تقسیم در تقسیم ہو رہے ہیں، کرم فرمائیں۔ اے خاصہ خاصان رسلؐ میری غلامی قبول فرمالیں ، میں نے ساری زندگی قلندرِ لاہور ی حضر ت اقبال کی شاعری سے عقیدہ توحید ورسالتؐ ، محبت رسولؐ اور امت کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا درس دیاجو انہوں نے دیا تھا، یارسول اللہؐ غلام کی غلامی کو قبول فرمالیں ۔
یارسول اللہؐ جس محبت رسولؐ کا بیج کاشت کرکے آیا ہوں، امید ہے اللہ کی مہربانی سے یہ درخت ایک دن تنا ور ضرور بنے گا۔یارسول اللہؐ جس مقصد کے لئے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دی تھیں، اس طرز پر پاکستان کو نہیں چلایا جار ہا،یارسول اللہؐ دین متین کوحکومت میں لانے کا خواہش مندتھا، اپنے چاہنے والوں کی خیر فرما دے۔ سوادِاعظم اہل سنت اکثریت میں ہونے کے باوجود سیاست میں ان کا کوئی کردار نظر نہیں آتا تھا ،یارسول اللہؐ دینِ مصطفیؐ کو طاقت دے اور تحریک لبیک یارسول اللہؐ پرکرم فرمائیں۔اس تحریک کے امیر اور میرے بیٹے کو اپنے نقش قدم پر چلنے والا بنا دیں۔ یارسول اللہؐ اپنی محبت کو میری جماعت میںقائم رکھیے۔ یارسول اللہؐ دنیا میرے اشارے پر نہیں‘ آپؐ کی محبت میں ریلیوں، جلسوں اوردھرنوں میں آتی تھی ۔ میری آواز خاموش ہوئی لیکن آپؐ کے چاہنے والے ہمیشہ آپؐ کی غلامی میں جیتے او رمرتے رہیں گے ۔ یارسول اللہؐ میں مجدد الف ثانیؒ کے اس قول کےمطابق محنت کرتا رہا کہ رب تک پہنچنے کے لئےمحبت رسولؐ ہی واحد راستہ ہے،مجھے گھسیٹا گیا ،مجھے گریبان سے پکڑا گیا ،میرے خلاف آنسو گیس استعمال کی گئی،مجھ پر اورمیرے کارکنوں پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں ،مجھے8 شہداء کے جنازے اٹھانے پڑے ۔یہ کچھ بھی نہیںکیونکہ مجھے حضرت صدیق اکبر کی طرح تنگ نہیں کیا گیا ، حضرت امیر حمزہ کی طرح میرا جگر نہیں چبایا گیا ،حضرت عبداللہ بن جحش کی طرح میرا کان اور ناک کاٹ کر انہیں رسی میں نہیں پرویا گیا، میدانِ اُحد میں حضرت انس بن نضر کی طرح مجھے تیروںسے چھلنی نہیں کیا گیا جن کی ہمشیرہ نے آپؓ کی انگلیوں کے گوشت سےآپؓ کو پہچانا تھا کہ یہ گوشت میرےبھائی حضرت انس کا ہے۔ میرے جذبات صرف غلامی رسولؐ میں تھے۔ میرا مقصد لوگوں کو آپؓ کے درِاقدس پر لانا تھا۔حضورؐ اپنی امت پر کرم فرمائیں۔ آپؐ کی اُمت آپؐ کے سوا کہاں جائے ؟یارسول اللہؐ آپ اس امت کے محافظ ہیں جن کی خاطر آپؐ نے بروز قیامت سر سجدہ میں رکھ کر امت کی بخشش کے لئے اللہ کو راضی کرنا ہے ۔حضورؐآپؐ کا فقیر ،ؐ آپؐ کا غلام حاضر ہے ۔ الیکشن میں میرے ساتھ دھاندلی کی گئی، میںنے دھرنا نہیں دیا۔ میں نےفرانسیسی سفیر کو للکارتے ہوئے دھرنا دیا حالانکہ جس دن دھرنا دیا میرے بیٹے سعد حسین اورمیری بڑی بیٹی کی اس دن شادی تھی۔ عشق رسولؐ میں اولاد کی شادی بھول گیا ۔ میں معذور تھا ،لاچار تھا ، بے بس تھا ، بے سہارا تھا ، بیمار تھا، میں بیمار عشق رسولؐ تھا ۔آپؐ کا کرم محدود نہیں، آپؐ کی لج پالی محدود نہیں ،آپؐ کی سخاوت محدود نہیں ،حضورؐ وقت کم تھا لیکن اللہ نے ایسا کرم فرمایا، افراد ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔یارسول اللہؐ حضرت خالد بن ولید کے مزار پر ایک دفعہ گیا تھا وہاں پڑھا کہ میری قبر پر آنے والے موت، تلواروں میں ہوتی تو میں چارپائی پر وفات نہ پاتا۔ بہت تھک گیا ہوں، دنیا کی طویل 54سالہ زندگی کے بعد سکون کی نیند ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سونا چاہتا ہوں۔ مجھے دنیا میں زیادہ جینے کا شوق نہیں تھا۔ شکر ہے ،میں اسی غلامی، اسی قدم بوسی ، اسی نسبت ، اسی شفاعت کو پانے کے لئے اکثر تقریروں میں بھی کہا کرتا تھا کہ مجھے ہارٹ اٹیک ہو جائے ،میری شریان پھٹ جائے اورمیں جلدی آپؐ کے قدموں میں پہنچ جائوں ،بس یارسول اللہؐ اپنے نواسے شہیدِ کربلاحضرت امام حسینؓ کے صدقےخادمِ حسین کو قبول فرمائیں۔